62

قوم عمالقہ کی تباہی / قصص القرآن 8/ حکیم شاکر فاروقی

قوم عمالقہ کو قوم جبارین بھی کہا جاتا ہے۔یہ لوگ قوم عاد کی اولاد میں سے تھے۔ اس لیے قد کاٹھ، ڈیل ڈول اور جسامت میں باقی لوگوں سے ممتاز تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی شبیہ ایسی بنائی تھی کہ انہیں دیکھنے والا ڈر جاتا اور ان کے ساتھ لڑائی سے بچنے کی کوشش کرتا۔ انہی کے ایک فرد عوج بن عنق کے بارے میں افسانے مشہور ہیں کہ اس کا قد تیرہ ہزار فٹ کے قریب تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے پاؤں کے تلوے سے ٹخنے تک کا فاصلہ تیس فٹ تک تھا۔ اس کی عمر 3500 سال تھی اور یہ طوفان نوح کے وقت زندہ تھا، اسے طوفان کی تباہی بھی زیر نہ کر سکی کیونکہ پانی اس کے گھٹنوں تک آتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی کہا گیا کہ اسے موسی علیہ السلام نے مارا اور اس کی لاش دریائے نیل پر کئی سال تک پڑی رہی اور لوگ اس کی ریڑھ کی ہڈی کو بطور پل استعمال کرتے رہے۔ اس سب کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا گیا لیکن مفسرین کے ہاں یہ سب بنی اسرائیلی روایات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ممکن ہے کافی گرانڈیل قسم کا بندہ ہو لیکن تیرہ ہزار فٹ کا قد عقل و خرد کے خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔اگر ایسا ہوتا تو ضرور حدیث مبارکہ یا کسی معتبر تاریخ میں اس کا تذکرہ مل جاتا۔
موسی علیہ السلام کو اپنی قوم کی رہائش کی بہت فکر تھی، جہاں وہ آسانی اور سہولت کے ساتھ رہ سکیں اور پرامن طریقے سے رب العزت کی بارگاہ میں جبین نیاز جھکا سکیں۔ اس لیے بار بار اللہ تعالیٰ کے سامنے دست دعا پھیلا دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قوم عمالقہ پر چڑھائی کا حکم فرمایا۔ موسی علیہ السلام نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے بارہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور انہیں قوم عمالقہ کی جانب خبر لینے بھیجا۔ یہ لوگ ان کے ڈیل ڈول اور جسم و طاقت کو دیکھ کر مرعوب ہو گئے۔ واپس آ کر موسی علیہ السلام کو ان کے بارے میں بڑھا چڑھا کر باتیں کیں۔ آپ علیہ السلام نے انہیں روکا کہ یہ باتیں اپنی قوم کے سامنے مت کرنا، کیونکہ وہ ایک لمبا عرصہ غلامی کاٹ کر آئے ہیں اس لیے بہادری و شجاعت کھو بیٹھے ہیں، یہ قصے سن کر حوصلہ ہار بیٹھیں گے۔ لیکن یوشع بن نون اور کالب بن یوحنا کے سوا باقی سب سرداروں نے قوم کے سامنے یہ راز فاش کر دیے۔ یوشع اور کالب نے اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جس اللہ تعالیٰ نے تمہیں حملہ کرنے کا حکم دیا ہے وہی مدد کرے گا۔ تم اگر محض ان کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ تب بھی وہ شکست کھا جائیں گے، تمہیں محض ہمت دکھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو حملے کا حکم دیا تو سب نے بیک زبان کہا ’’اے موسی! آپ اور آپ کا خدا ہی ان سے لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘ (سورۃ المائدہ)
اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ بے باکانہ رویہ پسند نہ آیا اور انہیں سزا دینے کی غرض سے ’’وادی تیہ‘‘ میں دھکیل دیا۔ یہ وادی ایک چٹیل صحرا پر مشتمل ہے جس کی لمبائی نوے میل اور چوڑائی محض ستائیس میل ہے۔ جسے یہ قوم چالیس سال تک عبور نہ کر سکی۔ حتی کہ موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام یہیں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس دوران موسی علیہ السلام کی دعاؤں کی برکت سے قوم کو کھانا، پانی، کپڑے، سایہ، رات کو روشنی اور دیگر ضروریات زندگی بلا محنت و مشقت ملتی رہیں۔
سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام (جو سیدنا موسی علیہ السلام کے نائب تھے) کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو انہوں نے قوم سے بیعت لے کر اس وادی کو عبور کیا اور قوم عمالقہ پر حملہ کر دیا۔ بنی اسرائیل کے لوگ انہیں گرا کر گردنیں کاٹتے رہے۔ قوم عمالقہ اتنی کثیر تعداد میں تھے کہ سارا دن لگا کر بھی انہیں تہ تیغ نہ کیا جا سکا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن سورج کی گردش روک دی اور ایک گھنٹہ تاخیر سے غروب ہوا۔ رات ہونے تک بنی اسرائیل اپنے ایک عدد وطن کے مالک بن چکے تھے جبکہ قوم عمالقہ اپنی بداعمالیوں کے سبب صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی۔ بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا۔
یہاں ایک عجیب قصہ پیش آیا ۔ دستور کے مطابق مال غنیمت ایک پہاڑی پر رکھا گیا تا کہ اسے آگ جلا دے اور جہاد فی سبیل اللہ کی مقبولیت کا پتا چل جائے لیکن آگ نے مال غنیمت کو نہیں جلایا۔ یوشع علیہ السلام پریشان ہو گئے۔ بالآخر ان کے ذہن میں آیا کہ ضرور کسی نے مال غنیمت میں گڑبڑ کی ہے۔ آپ علیہ السلام نے قوم سے دوبارہ بیعت لی تو چور کا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چپک گیا، اس نے اقرار کیا تب ہاتھ آزاد ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے بیل کا ایک سر لا کر دیا، جو سونے سے بنا ہوا تھا۔ جوں ہی اس سارے مال کو پہاڑ پر رکھا گیا، فوراً آگ اتری اور ہر چیز جلا کر راکھ کر دی۔
معلوم ہوا، خالق ارض و سما کی مرضی کے مطابق چلا جائے، اس کے احکام پر خوش دلی سے عمل کیا جائے تو اس کی نصرت و مدد کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے احکام سے روگردانی کرنے والوں کو سزا ملتی ہے۔ اور یہ سزا کئی دہائیوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ چونکہ قرآنی قصص بیان کرنے کا مقصد ہی ان کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھنی ہے، ہمیں بھی غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہمارے اوپر مصائب و پریشانیاں اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانیوں کے
صلے میں تو نہیں مل رہیں؟؟؟ علامہ اقبال کا یہ شعر بھی خاصے کا درجہ رکھتا ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
٭…٭…٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں