73

قیام پاکستان میں علمائے کرام کی خدمات/تحریر/علامہ ڈاکٹر مولانامحمدجہان یعقوب

علمائےکرام کی ایک بڑی تعداد نے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے پاکستان کے لیے رات دن جدوجہد کی ۔ان میں سے چیدہ چیدہ حضرات کے نام اوران کی خدمات کامختصرتذکرہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے!
1.مولانا اشرف علی تھانویؒ :
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ محمد اقبال اور چوہدری رحمت علی سے بہت پہلے پاکستان کا تصور پیش کیا انہوں نے سن 1928 میں کئی دفعہ مختلف مقامات پر لوگوں کے سامنے مسلمانوں کی ایک ایسی الگ سلطنت کا قیام کا اظہار فرمایا جس کے ہر شعبے میں اسلامی شریعت کے قوانین کو اپنایا جائے حضرت مولانا عبدالماجد دریا بادی صاحب کے بقول سن 1928 میں جب پہلی مرتبہ حضرت حکیم الامت سے ملاقات ہوئی تو حکیم الامت نے پاکستان کے تصور کو اس انداز میں پیش کیا کہ جی یو چاہتا ہے کہ ایک خطے پر خالص اسلامی حکومت ہو سارے قوانین اور تعزیرات وغیرہ کا اجرا ہو احکام شریعت احکام شریعت کے مطابق ہو بیت المال ہو زکوۃ کا نظام رائج ہو شرعی عدالت قائم ہو دوسری قوموں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے یہ نتائج کہاں حاصل ہو سکتے ہیں اس مقصد کے لیے صرف مسلمانوں ہی کی جماعت کو ہونی چاہیے اور ان کو یہ کوشش کرنی چاہیے ۔یہ تصور چوہدری رحمت علی نے 1930 میں پیش کیا اور علامہ اقبال نے 29 دسمبر 1930 کو خطبہ الہ اباد میں اس کا اظہار کیا جس کا پھر بعد میں 23 مارچ 1940 کی قرارداد کے ذریعے باقاعدہ مطالبہ کیا گیا ۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور مسلم لیگ کی حمایت کی۔
خود مولانا اشرف علی تھانویؒ پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے مگر وہ قائدِ اعظم کی رفاقت سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے اور آخر دَم تک قائد اعظم کو وعظ و نصیحت فرماتے رہے ، اس ضمن میں نیشنل آرکائیو(Archive)اسلام آباد ‘پاکستان میں موجود قائدِ اعظم اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کے درمیان خط و کتابت دیکھ کر اندازہ لگا لیں کہ وہ پاکستان کے حق میں کس قدر مخلص تھے اور بانی پاکستان ان سے کس طرح مشورے طلب کیا کرتے تھے۔ جب حضرت قائداعظم سے سوال کیا گیا کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی صحت وسندکے لیے کون سے علمائے مذہب آپ کے ساتھ ہیں؟ تو قائد کا جواب تھا: ’’مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم (حضرت تھانویؒ) ہے، جس کا علم و تقدس و تقویٰ سب سے بھاری ہے، اور وہ ہیں مولانا اشرف تھانوی، جو چھوٹے سے قصبے (تھانہ بھون) میں رہتے ہیں، مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے۔‘‘
2۔قائد تحریک پاکستان مولانا شبیر احمد عثمانی :علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے 1945ء میں جمعیت علماء اسلام کے نام پر ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی اور اس تحریک کو مزید تیز کیا۔بلامبالغہ پاکستان کو قائم اور یہاں اسلامی نظام کے نفاذ اور ازادی کے مقصد کی تکمیل کے سلسلے میں جن رہنماؤں نے زبردست کوششیں کی اور اسے عملی جامع پہنانے کے لیے کسی بھی قسم کی قرنی ہوئی سے دریغ نہیں کیا ان میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نمایاں نظر اتا ہے جو ایک طرف تو علوم دینیہ کے درس و تدریس میں مشغول رہتے تو دوسری طرف مسلمانوں کے حقوق کے حق تلفی کی فکر میں دن رات خود مختار اسلامی ریاست کی تگ و دو کے سلسلے میں امت الناس اور اکابرین نے تحریک پاکستان کے ساتھ میدان عمل میں دکھائی دیتے ہیں اپ کی تمام زندگی خدمت اسلام میں گزری اپ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے حکم پر تحریک پاکستان میں شمولیت اختیار کی اورمسلم لیگ میں شریک ہو کر تحریک پاکستان کو تقویت بخشی مولانا شبیر احمد عثمانی نے دیگر اسلام پسند رہنماؤں اور علماء کرام کے ساتھ مل کر پورے ملک میں اسلامی دستور کے لیے زبردست مہم چلائی اور مختصر عرصے میں اسلامی دستور کے حق میں فضا قائم کر دی اپ نے پاکستان کے دستور شاز اسمبلی میں قانون قانون اسلامی کی تجویز قرارداد مقاصد کے نام سے جمع کرائی اور اسے پاس بھی کرایا حضرت قائد تحریک پاکستان شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کی ان شاندار خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جب کراچی میں پہلی مرتبہ پاکستان کا جھنڈا بلند کیا جانے لگا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کے لیے اپ کو اگے انے کی درخواست کی اور یوں یہ جھنڈا پہلی مرتبہ اپ کے مبارک ہاتھوں سے بلند ہوا۔
3۔حضرت تھانویؒ کے دیگر خلفاورفقائے کرام:
برصغیر میں ان کے پھیلے ہوئے لاکھوں شاگردوںاور مریدین نے مولانا تھانویؒ کی آواز پہ لبیک کہا اور قیامِ پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ۔ آگے علماء ہوتے پیچھے یہ لوگ تو عوام الناس میں مقبولیت ملی اور یہ تحریک زور پکڑتی گئی۔علماء ہی کی وجہ سے برصغیر کے طول وعرض میں یہ نعرہ گونجنے لگا ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ اور وہ شخص جس کے سوٹ بوٹ پر انگریز رشک کرتے تھے ٹوپی شیروانی اور شلوار قمیص میں ملبوس نظر آنے لگا۔ (بے تیغ سپاہی413)
ان علماء نے ملک بھر میں طوفانی دورے کیے جن کی وجہ سے مسلم لیگ کو ایک نمائندہ جماعت تسلیم کیا گیا 1946کے ریفرنڈم میں توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔اس کے نتائج یہ ظاہر ہوئے کہ سلہٹ بنگال کی تقسیم کا جب فیصلہ ہوا اور مشرقی بنگال کو پاکستان میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا تو سلہٹ آسام کا حصہ تھا اور بہت بڑی آبادی ہے۔ تو سلہٹ میں ریفرنڈم کروایا گیا کہ انہوں نے آسام کے ساتھ رہنا ہے یا پاکستان میں شامل ہونا ہے؟ سلہٹ کے اس ریفرنڈم میں عوام کو پاکستان کے حق میں ہموار کرنے میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے شاگرد وعزیزمولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور ان کی ٹیم کا بنیادی کردار ہے، جس کو تاریخ آج بھی تسلیم کرتی ہے۔
کے پی کے (خیبرپختوخوا) جس کو صوبہ سرحد کہتے تھے، اس وقت یہاں ڈاکٹر خان صاحب کی گورنمنٹ تھی، پاکستان میں شامل ہونے کے لیے وہاں بھی ریفرنڈم کا تقاضا ہوا کہ عوام کی رائے پوچھی جائے وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا کسی دوسری طرف جانا چاہتے ہیں، وہاں پر باقاعدہ ریفرنڈم ہوا اور تاریخ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ صوبہ سرحد کا ریفرنڈم جیتنے میں بنیادی کردار مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور پیر صاحبؒ آف مانکی شریف کا تھا، یہ دو شخصیتیں ہیں جنہوں نے سرحد کے عوام کو پاکستان کے حق میں تیار کیا اور یہ پاکستان میں شامل ہوئے۔
قائد اعظم کااعتراف:
مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا شبیر علی تھانوی اور مولانا مفتی محمد شفیع نے ملاقاتیں کیں اور ان سے منوایا کہ سیاست مذہب سے الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے۔ (تعبیر پاکستان و علماء ربانی ص:38)
قیام پاکستان کے بعد مبارک باددینے کے لیے مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا شبیر علی تھانوی اور مولانا مفتی محمد شفیع رحمہم اﷲ وغیرہ کی قیادت میں ایک وفد بانیٔ پاکستان جناب محمد علی جناح کے پاس پہنچا تو انھوں نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور کہا حضرات مبارکباد کے مستحق حقیقت میں آپ لوگ ہیں۔ اگر آپ کی کاوشیں اور محنتیں نہ ہوتیں تو کبھی پاکستان وجود میں نہ آتا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے علما کی قیامِ پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کا اس طرح اعتراف کیا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر جھنڈا لہرانے کی تقریب جوکراچی اور ڈھاکہ میںمنعقد ہوئی وہ علامہ شبیر احمدعثمانی ؒ اورمولاناظفراحمدعثمانی ؒکےہاتھوں سے ادا کروائی اور اپنا جنازہ پڑھانے کی وصیت بھی علامہ شبیراحمدعثمانی ؒکے لیے کی ۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ جنازہ کی وصیت انسان اسی شخص کے لیے کرتا ہے کہ جس سے اسے بے حد اُنسیت و عقیدت ہو اور قائدِ اعظم کی اس وصیت سے بڑی گواہی اور کیا ہو سکتی ہے کہ دیوبندی علما نے قیامِ پاکستان کے لیے کس قدر قربانیاں دی ہیں۔
قراردادِ مقاصد جو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں مارچ 1949؁ء کو پیش ہوکر منظور ہوئی۔ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی جو پاکستان بنانے کی جدوجہد میں ہراول دستہ تھی اور جسے پوری قوم نے یہ کام سونپا تھا کہ ملک کا مستقبل، اُس کا آئندہ کانظام ، اُس کا دستوراور اُس کی منزل متعین کرے،یہ قرارداد اسی اسمبلی کا کارنامہ تھی۔اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کاکوئی اپنا آئین نہیں تھا۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خانؒ نے علمائے کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی، جسے قرارداد مقاصد کا نام دیا گیا ۔اس کے مطابق:’’ مستقبل میں پاکستان کے آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا، بلکہ اس کی بنیاد اسلامی جمہوریت و نظریات پر ہوگی۔‘‘
2 مارچ 1985؁ء کو صدر پاکستان محمد ضیا الحق کے صدارتی فرمان کے ذریعہ آئین پاکستان میں آٹھویں ترمیم کی گئی ،جس کے مطابق قراردادِ مقاصد کو آئین پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔ اِس صدارتی فرمان کے آخر میں ضمیمہ کے مطابق کہا گیا تھا : ’’قراردادِ مقاصد آئین پاکستان کے متن میں شامل سمجھی جائے گی۔ آئین پاکستان مجریہ 1973ء؁ کی دفعہ نمبر 2کے مطابق اسلام مملکتی مذہب ہوگا ،جبکہ دفعہ نمبر2کے ضمیمہ میں قراردادِ مقاصد کو آٹھویں ترمیم صدارتی فرمان2مارچ 1985؁ء کے مطابق شامل کر لیا گیا ہے۔‘‘
4۔مولانا اکرم خان :
1937 میں جب قائد اعظم نے مسلم لیگ کے نئے سرے سے تنظیم کی اور اسے ایک باعمل سیاسی جماعت بنا دیا تو مولانا اکرم خان نے اس کام میں قائد اعظم کی بڑی مدد کی اس طرح وہ پاکستان بننے تک کئی سال تک مسلم لیگ کے صدر رہے خیمہ پاکستان کے بعد مولانا اکرم خان مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور کئی سال تک اس عہدے پر فائز رہے اپ پاکستان کے مجلس دستور ساز اور مجلس قانون ساز کے رکن بھی تھے اور قرارداد مقاصد کو منظور کرانے میں بھی اپ کا تعاون شامل رہا اپ کو اس بات پر پختہ یقین تھا کہ موجودہ دور کی خرابیوں کا علاج اور بنی نوع انسان کی فلاح اس میں ہے کہ دنیا کا نظام ایک مرتبہ پھر اسلام کے اصولوں پر قائم کیا جائے ۔
5۔بریلوی مکتبِ فکر کے علما :
اسی طرح بریلوی مکتبِ فکر کے علما کی بھی خدمات ہیں۔بریلوی علمامولانا نعیم الدین مراد آبادی، سید محمد محدث کچھوچھوی، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دیگرعلما نے سنی کانفرنسیں منعقد کرکے تحریک ِ پاکستان کی حمایت کی اور اپنے مکتب ِ فکر کے علماء اور عوام کو اس کی حمایت پر آمادہ کیا۔ یقینا ان علما ء کی اس جدوجہد سے تحریک ِ پاکستان کو تقویت پہنچی کیونکہ ان علماء کا اثر تھا اور کافی تھا‘‘( انٹرویو: ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، دو قومی نظریہ کے حامی علماء، سورتی اکیڈمی، کراچی،1982ء ،صفحہ 22بحوالہ ہفت روزہ افق، کراچی شمارہ8 جنوری1979ء)
23مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور کے جلسے میں جن ممتاز علماء و مشائخ نے شرکت کی اُن میں علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری، مولاناعبدالغفور ہزاروی، مولانا عبدالحا مدبدایونی،پیر عبداللطیف زکوڑی شریف، پیر امین الاحسنات مانکی شریف اور مولانا عبدالستار خاں نیازی جیسے علماء شامل تھے۔ مولانا بدایونی نے قرار داد کی حمایت میں اس جلسے سے خطاب بھی کیا( محمد صادق قصوری، تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ کا کردار، تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ ،لاہور،2008ء ،متفرق صفحات )۔
مارچ1946ء میں 50سے زائد علما و مشائخ نے اپنے دستخطوں سے مسلم لیگ کی حمایت میں فتویٰ جاری کیا( عکس فتوی، محمد جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس،سعید برادران گجرات،1999ء،صفحہ208)
30-27اپریل 1946ء کو بنارس میں عظیم الشان سنی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں دو ہزار سے زائد علماء و مشائخ اور 60ہزار کے قریب عام مسلمان شریک ہوئے(پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری، ’’ فاضل ِ بریلوی کا سیاسی کردار ، صفحہ136 اور خواجہ رضی حیدر قائد اعظم کے 72سال)
کانفرنس میں تنظیمی ،تربیتی، سیاسی اور تبلیغی نوعیت کے مختلف فیصلے کیے گئے۔ نیزبھرپور انداز میں مطالبۂ پاکستان کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ کو ہر ممکن حمایت کا یقین دلایا گیا۔اس موقع پر پاکستان کا دستور بنانے کے لیے ممتاز علماء کرام پر مشتمل 13رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی( محمد جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس، صفحہ238،260)۔
پاکستان کی حمایت کرنے کے وجہ سے مختلف علماء و مشائخ کی بھی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ پیر سید امین الحسنات ( مانکی شریف)، پیر صاحب زکوڑی شریف، خواجہ قمر الدین سیالوی، پیر صاحب گولڑہ شریف، مولانا ابراہیم چشتی ، پیر آف تونسہ شریف ، پیر صاحب مکھڈشریف اور دیگر اکابر پابند سلاسل ہوئے( محمد جلال الدین قادری، تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس، صفحہ301)
اب میں دو ان علما کا بھی تذکرہ کرنا چاہتاہوں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف تھے ،تاکہ حقیقت واضح ہوسکے۔
6۔امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ :
امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ از خود قائد اعظم کے حضور پیش ہو گئے اور فرمانے لگے کہ میرے چند خدشات ہیں، اگر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ وہ دور کر دیں تو میں اُن کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت سے لڑوں گا اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے اپنا تن من دھن پاکستان کی خاطر وار دیا اور لاکھ کوششوں کے باوجود وہ قیامِ پاکستان کے مؤقف سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہ ہٹنے پائے اور اپنی شعلہ نوائی سے مسلمانوں کے دِلوں کو گرماتے رہے اور پاکستان کی محبت کا دَم بھرتے رہے ۔
26؍ اپریل 1946ء کو اردو پارک دہلی میں مجلس احرار اسلام کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں پانچ لاکھ کے قریب لوگ جمع تھے۔ یہ دہلی کی تاریخ کا منفرد اجتماع تھا جس میں اسٹیج پر مولانا ابوالکلام آزاد مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، ماسٹر تاج الدین انصاری اور شیخ حسام الدین رحمہم اﷲ جیسے حضرات موجود تھے۔ حضرت امیر شریعت نے اپنے مخصوص انداز سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ اس وقت تقسیم ہند کی باتیں چل رہی ہیں قطع نظر اس کے کہ اس کا انجام کیا ہوگا مجھے پاکستان بن جانے کا اتناہی یقین ہے جتنا اس بات پر کہ صبح سورج مشرق سے طلوع ہوگا لیکن یاد رکھو یہ وہ پاکستان نہیں ہوگا جو دس کروڑ مسلمانانِ ہند کے ذہن میں ہے ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کل ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ کوئی آج مجھے اس بات کا یقین دلادے کہ کل کو اس کی کسی ایک گلی میں بھی شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہونیوالا ہے تو رب کعبہ کی قسم میں آج ہی اپنا مشن تبدیل کرنے کو تیار ہوں‘‘ (روزنامہ الجمعیت دہلی)۔
جب اکالی لیڈر ماسٹر تارا سنگھ نے تلوار گھما کر مسلمانوں کو خون کی ندیاں بہانے کی دھمکی دی تو حضرت امیر شریعت نے فرمایا:
’’او ماسٹر جی! ہوش کے ناخن لو! کیا کہتے ہو؟ جس قوم کے فرزند خون کے سمندر میں تیرتے ہوں تیری ننھی منی ندیوں سے نہیں ڈرتے‘‘ پھر فرمایا ’’مسٹر محمدعلی جناح کے مقابلے میں تارا سنگھ کی تلوار اٹھے گی تو اس کے مقابلے میں پہلے بخاری آئے گا۔‘‘ (فرموداتِ امیر شریعت،ص75)
ایک موقع پر شاہ جی نے فرمایا:
’’تم میری رائے کو خود فروشی کا نام نہ دو، میری رائے ہار گئی اور اس کہانی کو یہیں دفن کردو۔ اب پاکستان نے جب بھی پکارا واﷲ! باﷲ! میں اس کے ذرے ذرے کی حفاظت کروں گا۔ الغرض یہ صرف رائے کا اختلاف تھا، یہ حضرات فرماتے تھے تھوڑی ہمت اور کر لیں انگریز دم توڑ چکا ہے اور پورے برصغیر کی آزادی ہو ضرر کو دفع کرنا منفعت حاصل کرنے سے پہلے ضروری ہے اگر آگ لگ جائے تو پہلے آگ بجھائیے پھر اپنی زمینوں کو تقسیم کیجئے۔اگر آپ مریض ہیں تو پہلے مرض کو دفع کیجئے پھر تقویت کی فکر کیجئے گا (مکتوبات شیخ الاسلام ، ص:106)
7۔امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد:
تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ قائد اعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد سرحدی پٹھانوں کو یک جا کرنے کے لیے پریشانی کا اظہار کیا تو امام الہندمولانا ابوالکلام آزادؒ نے خان عبدالغفار خانؒ کو زبردستی پاکستان بھیجا کہ پٹھانوں کو اکٹھا کرنے اور پاکستان کا وفادار بنانے کیلئے آپ کی پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت ہے اور وہ مولانا آزادؒ کے مجبور کرنے پرپاکستان چلے آئے اور پاکستان کے وفاداروں میں اپنا نام لکھوایا ۔
ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کے قافلے میں یوں تو مجاہدوں، قائداعظم کے جاں نثاروں، مسلم لیگ کے متوالوں اور آزادی کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والوں کی قربانیوں، شبانہ روز محنت، کاوشوں اور ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ہم نے یہاں فقط چند نام ذکرکیے ہیں جن کے کردار اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے پاکستان کے قیام کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور قائدِ اعظم کی قیادت اور ان کی ہدایت پر علمائے کرام ملک کے طول و عرض میں اپنے ارادت مندوں کو تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے پھیل گئے۔ علمائے کرام نے عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسے، جلوس کے دوران اور عام لوگوں سے ملاقاتیں کرکے ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی جس نے تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔جس طرح دین سے وابستہ افراد،اداروں اور علما ومشائخ نے قیام پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا،اسی طرح ان شاء اللہ ہم استحکام پاکستان میں بھی اپنا کردار پوری تن دہی،اخلاص اور دیانت داری کے ساتھ ادا کرتے رہیں گے۔علماء اور دینی ادارے نہ ماضی میں وطن عزیز کی کسی پکار پر پیچھے رہے ہیں اور نہ مستقبل میں کوئی کمزوری دکھائیں گے۔اس وطن کے دفاع،تحفظ،استحکام اور ترقی کے لیے جہاں دوسروں کا پسینہ بہے گا وہاں علمائے کرام ان شاء اللہ اپنی جان ہتھیلی پر لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کردیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں