پاکستان میں لاپتہ افراد کا سلسلہ 2001 میں 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر شروع ہوا۔ پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ اب تک رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ جہاں جس کا جی چاہتا ہے، اسے دہشت گردی کا نام دے کر غائب کر دیا جاتا ہے
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 30 اگست کو جبری طور پر لاپتہ افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں مختلف سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ فیچرز لیکھے جاتے ہیں، مظلوموں کی فریاد صاحب اقتدار لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شوز اور دیگر پروگراموں میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو مدعو کیا جاتا ہے۔ جو اپنے پیاروں کو دیکھنے کے لیے، ان کی آواز سننے کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں، یا پھر صرف اس لیے تڑپ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں یہی بتا دیا جائے کہ ان کے پیارے کس حال میں ہیں۔ زندہ ہیں یا مار دیے گے ہیں۔ زندہ ہے تو دنیا کے کس کونے میں، مردہ ہیں تو ان کی لاش یا قبر ہی معلوم ہو جائے۔
اقوام متحدہ نے پہلی دفعہ 1992ء میں اپنی قرارداد کے آرٹیکل 21 میں افراد کے لاپتہ ہونے کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا، طویل عرصے چپ رہنے کے بعد پھر 2006ء میں ایک عالمی مسودہ منظور کیا، جس پر اب تک صرف 93 ممالک نے دستخط کیے۔ جس کی حیثیت سوائے ایک کاغذ کے کچھ نہیں۔ پھر 2011 میں اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد نمبر 65/209 کے ذریعے اس دن کو عالمی سطح منانے کا اعلان کیا۔ حیرت کی بات یہ کہ جو سب سے بڑے انسانیت کا قاتل ہیں، وہ ایسی کاغذی کارروائیاں کر کے انسانی حقوق کے چیمپئن بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ جبری گمشدگی انسانی حقوق کی ایسی حق تلفی ہے کہ اس سے متاثر شخص کی شناخت تک چھین لی جاتی ہے، اسے قانونی چارہ جوئی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی پامالیوں میں سب سے کرب ناک اور تشویش ناک معاملہ یہی ہے کہ جب کسی کے باپ، بیٹے، بھائی، شوہر یا کسی عزیز کو غائب کر دیا جاتا ہے۔ مجبور لواحقین بےبسی کی تصویر بنے ہوتے ہیں، ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کی تصویریں گردش کر رہی ہوتی ہیں، ہر خوشی غمی میں ان کی یاد ستاتی ہے۔ وہ جس دروازے پر جائیں انہیں دھتکار دیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں، تشدد کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مرنے والا جتنا بھی عزیز کیوں نہ ہو، چند دن رو لینے کے بعد اس پر صبر آ ہی جاتا ہے مگر جنہیں گم کر دیا جائے، ان پر نہ رو دینے سے صبر آتا ہے، نہ وہ بھلا دینے بھول پاتے ہیں۔ نا ہی ان کی تڑپ سکون سے بیٹھنے دیتی ہے اور نہ ہی بھاگ دوڑ سے کچھ حاصل ہوتا ہے۔ ہمیشہ ان کی یاد ستاتی ہے کہ وہ کس حالت میں ہوں گے؟ بھوکے ہوں گے، کسمپرسی کی زندگی گزرا رہے ہوں گے، ظلم کی سختیاں جھیل رہے ہوں گے، ہر وقت یہی سوچ ستاتی ہے کہ وہ ہماری راہ تک رہے ہوں گے کہ کوئی تو محمد بن قاسم بن کے آ جائے، کوئی تو غیرت مند حکمران آ جائے ، جو انہیں یہاں سے آزادی دلا دے۔ ہمیشہ ان کے آنے کا انتظار رہتا ہے۔ کرب کی اس حالت و کیفیت کا اندازہ اسی کو ہو سکتا ہے، جن کا کوئی پیارا یوں بچھڑا ہو۔ (اللہ احفظنا)
لاپتہ افراد سے متعلق قوانین اور کنونشن عالمی منظرنامے پر اس وقت نظر آئے، جب عالمی طاقتوں نے دوسری جنگ عظیم میں اپنی ہولناکیوں کی تاریخ رقم کر دینے کے بعد سرد جنگ کا آغاز کیا۔ روس کی کیمونسٹ حکومت اپنے انتقام کو پہنچ چکی تھی اور امریکہ نے کیمونزم کا راستہ روکنے کے لیے کئی ممالک پر اپنی دھاک بٹھا دینے کی غرض سے وہاں ایسی آمرنہ حکومتیں قائم کیں، جو ہر معاملے میں امریکہ سے ڈکٹیشن لیتی تھیں۔ جن کا مقصد عوامی طاقتوں کو کچلنا تھا۔ یہیں سے یہ طریقہ واردات متعارف کروایا گیا کہ جس پر کوئی شک ہو، اسے آرام سے اٹھا لیا جائے۔
پہلے پہل تو صرف جنگوں میں ہی افراد لاپتہ ہوتے تھے مگر 80ء کی دہائی کے بعد سرد جنگ کے نتیجے میں یہ رواج عام ہونا شروع ہو گیا۔ لاپتہ افراد کا یہ سلسلہ فلپائن، انڈونیشیا، ویت نام، کوریا، تھائی لینڈ، لائوس، چلی، ارجنٹائن، کولمبیا، برازیل اور کئی مسلم ممالک میں جاری رہا، جس میں ہزاروں افراد غائب کر دیے گئے، برسوں گزرنے کے بعد بھی آج تک ان کے لواحقین اپنے پیاروں کی یاد آنسو بھا رہے ہیں۔ انہی لوگوں سے گوانتاناموبے اور ابوغریب جیسی بدنام زمانہ جیلیں آباد ہوئیں۔
روس کو توڑ لینے کے بعد امریکہ نے مسلم ممالک پر چڑھ دوڑنے کا پروگرام بنایا۔ کئی ممالک میں آگ خون کی ہولی کھیلی۔ جن میں افغانستان اور عراق میں باقاعدہ جنگ جاری رہی۔ اس آگ کی تپش میں سب سے زیادہ پاکستان جھلسا۔ جہاں باقاعدہ جنگ تو نہیں چھڑی مگر نقصان اتنا ہی ہوا۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کا سلسلہ 2001 میں 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر شروع ہوا۔ پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ اب تک رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ جہاں جس کا جی چاہتا ہے، اسے دہشت گردی کا نام دے کر غائب کر دیا جاتا ہے۔ سالوں غائب رکھنے کے بعد کبھی کبھار جب کچھ حاصل نہ ہو تو اسے معذور کر کے گھر والوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے، کبھی کسی خوش قسمت کی کچرے کے ڈھیر پر یا کہیں دور پہاڑوں یا پتھروں میں سے لاش مل جاتی ہے، ورنہ کسی بدقسمت کا پتہ تک نہیں چلتا کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔
پیچھے ان کے بچے، والدین، بہن بھائی سب رل جاتے ہیں۔ سیاست دان بھی فقط بیان بازی سے آگے نہیں بڑھتے، ہر جماعت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے اپنی قوم کے سامنے چند بیان داغ کر چپ سادھ لیتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اداروں کو ان کی مرضی کی قانون سازیاں کر کے دے رہی ہوتی ہیں۔ ان کے جبر اور ظلم کو قانونی حیثیت دلا رہے ہوتے ہیں۔ سوائے چند افراد کے کوئی مخالفت کرنے والا نہیں ہوتا۔ اور مخالفت کرنے والے بھی ایک آدھ آواز اٹھا کر سو جاتے ہیں۔
کسی کمزور کو اٹھا کر لاپتہ کر دینا یہ کوئی طاقت کی علامت نہیں بلکہ یہ ریاست اور قانون کے منہ پر اک زور دار طمانچہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ اور انصاف دینے سے قاصر ہے۔ وہ ظالم کا ہاتھ روکنے سے عاجز ہے، وہ مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے اسے آس دلانے کے قابل بھی نہیں۔ ریاست اور قانون کی پاور یہ ہے کہ مجرم اور ظالم کو کٹہرے میں کھڑا کرے، اسے اس کا جرم اور ظلم بتائے اور سرعام سزا سنائے۔ قانون کی یہ حد بندیاں بھی اسی لیے ہوتی ہیں کہ ہمیشہ ظالم کو قانون کا ڈر رہے اور مظلوم اس کے ظلم سے محفوظ رہے۔ ہمارے ملک میں اگر ظالم کسی کو قتل کر دے، مال کو آگ لگا دے، گلا گھونٹ کر مار دے یا کسی کی عزت بیچ چوراہے نیلام کر دے تو وہ مہنگے وکیلوں اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے بل بوتے پر چند دنوں بعد مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا باہر نکل آتا ہے اور اپنے اگلے شکار کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ لیکن اگر کسی نے صرف ریاست سے سوال کر لینے کی جسارت ہی کرلی تو وہ ایسے غائب کر دیا جاتا ہے کہ نسلیں یاد رکھتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری عدالتیں عالمی رینکنگ میں 140 میں سے 129 ویں نمبر پر ہے۔ کسی بھی اسلامی ملک کے لیے یہ افسوس کا مقام ہے کہ جو ایسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کہلاتے ہیں کہ جنہوں نے عدل و انصاف پر زور دیا، جن کے دربار میں امیر غریب برابر تھے، جن کے ہاں کبھی اپنی ذات سے کسی پر کوئی زیادتی ہو جاتی تو خود کو بدلے کے لیے پیش کر دیتے۔ جن کا غیر مسلم پر ظلم بارے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم پر بھی ظلم کیا تو قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس غیر مسلم کی طرف سے وکیل بن کر آئیں گے۔ مگر افسوس یہاں مسلمان ہی مسلمان کو تکلیف پہنچا رہا ہے ۔