حیرت انگیز بات ہے ناکہ ماں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ،اس کادن جس کے بغیر کوئی دن ،کوئ لمحہ ،کوئ پل نہیں ہوتا ۔ لفظ “ماں” جسے سنتے ،بولتے ہی منہ میں جیسے چاشنی سی گھل جاتی ہے۔دل کو سکون مل جاتا ہے ۔راحت سی محسوس ہوتی ہے ۔ ماں کے لیے لکھوں تو کہاں سے لکھوں ؟ اس کی اس دن کی بے انتہا خوشی سے شروع کروں کہ جب اسے آ پ کے دنیا میں آ نے کی خبر ملی ہو گی اور وہ خوشی اور تشکر سے اپنے پروردگار کے حضور سر بسجود ہو گئ تھی یا پھر وہاں سے جب اس نےاس حالت میں اپنے ہر عمل سے پہلے آپ کا سوچا کہ اس عمل کا آ پ کی صحت پر کیا اثر ہو گا؟ اپنے کھانے پینے سے پہلے،چلنے پھرنے کے انداز میں ،صرف آ پ کا سوچا اس کی اپنی ذات بہت پیچھے رہ گئ اور وہ دن ہے اور آ ج کادن ہے آ پ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس نے آ پ سے پہلے اپنا سوچا ہو گا ۔ یقیناً ایسا نہیں ہوا ہو گا ، آ پ کی صحت کے لیے کیااچھا ہے کیا نہیں ،اس کے مطابق آ پ کی پرورش کی ، کیا آ پ اپنی ماں کی اس کی دن کی خوشی کااندازہ کر سکتے ہیں جب آ پ نے بیٹھنا شروع کیاہو گا ، آ پ نے پہلا قدم لیا ہوگا، آ پ نے بولنا شروع کیا ہو گا ، آ پ کے صدقے واری ہو کر آ پ کا صدقہ اتارا ہو گا ، جب آپ نے دانت نکالے ہو گے آ پ کی ہر تکلیف پر تڑپ گئ ہو گی ، آ پ کے بیمار ہونے پر پوری رات جاگنے کا صلہ دے سکتے ہیں آ پ ؟ کبھی بھی نہیں حتی کہ ایک رات کا بھی نہیں ۔
جب آ پ نے سکول جانا شروع کیا ہو گا تو آپ کو پہلے دن یونیفارم میں دیکھ کر خوشی سے نہال ہوتے ہوئے آ پ کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کر کے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ بھیجا ہو گا اور خود سارا دن پریشانی میں رہی ہو گی کہ کہیں آ پ رو تو نہیں رہے ہوگے ؟ پریشان تو نہیں ہو گے ؟ کچھ کھایا گی ہو گا یا نہیں اور اسی پریشانی میں دروازے کے کئ چکر لگائیں ہو گے۔ آ پ کو قرآن مجید کی تعلیم دلوائی ، دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہرقدم آ پ کے ساتھ رہی ،کبھی آ پ کی ناکامی پر آ پ کی ہمت بنتی ہے ۔ آ پ کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی تیاگ دیتی ہے ۔یہاں تک کہ جو کھانا آ پ کو پسند ہو وہ ہی بنانے لگتی ہے۔ آ پ کو کھاتا دیکھ کر خود سیر ہو جاتی ہے۔ رب العالمین نے محبت کے سو حصوں میں سے ننانوے حصہ میں ماں کی محبت رکھی ہیں۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا
” تم پر سب سے زیادہ حق تمہاری ماں کاہے،یہ بات تین دفعہ دہرائی اور فرمایا تمہارے حسن سلوک کی سب سے زیادہ حق دار تمہا ری ماں ہے”.
ماں سے ہی گھر جنت ہے اور ماں ہی سے اس جہان کی ساری رونقیں ہیں ۔میری اس بات سے آ پ سو فیصد متفق ہو گے کہ اس دنیا میں آ پ کی ماں سے زیادہ خوبصورت مسکراہٹ کسی کی نہیں ہے اور جب وہ مسکراتی ہے تو کائنات جھوم اٹھتی ہیں ۔جو سکون ان کی گود میں ملتا ہے کہیں بھی نہیں مل سکتا ، آ پ کو زندگی میں خوشی کے پل میسر ہو یا دکھ کی گھڑیاں آ پ کی امتحان لیں آ پ کو سب سے پہلے اپنی ماں ہی یاد آ تی ہے۔ ایک بات کا یقین رکھے کہ آ پ کی ماں سے زیادہ آ پ کا خیر خواہ کوئی بھی نہیں ہے ۔ آ پ کی کامیابی ، آ پ کی صحت ، آ پ کی خوشیوں کے لیے دعائیں صرف ماں ہی کرتی ہے ۔ ہم اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں ایک تو اس سے محبت کا تقاضا ہے اور دوسرا جنت کے لیے بھی اور رب العالمین نے جنت کو بھی ماں کے قدموں تلے رکھ کر ماں کی عظمت بتا دی ہے۔
لکھا ہے مصنفوں نے بھی بے حساب ماں پر، اپنے جذبات کو پرویا ہے لفظوں میں شاعروں نےبھی، فلسفیوں نے بھی کہا ہے نہ جانے کیاکیا، بزرگوں اور داناؤں نے بھی عقیدت سے خراج محبت پیش کیاہے ،ا حادیث بھی ہے رہنمائی کے لیے اور قرآن میں بھی پروردگار نے جنت کہاہے ۔
نہ یہ موضوع ایسا ہے کہ احاطہ ممکن ہو نہ یہ رشتہِ محبت ایسا ہے کہ میرے چند لفظوں میں اس کی محبت کاحق اداہو۔ بس زیادہ نہیں اتنا ضرور کہوں گی کہ خداراکبھی یہ مت سوچیے گا کہ آ پ نے اپنی ماں کاحق ادا کردیا ہے ۔ یہ خیال بھی دل میں مت لائیے گا کہ اگر اس نے آ پ کے لیے اتنا کیا تو آ پ نے بھی ان کے لیے کیا اور کبھی بھول کر بھی ان کو یہ بات کہہ مت دیجیے گا کیونکہ پھر ساری زندگی آ پ پچھتاوے کی آگ میں جھلستے رہے گے،اور وجہ بنے گی آ پ کی یہی بات تو کبھی مت کیجئے گا کیونکہ آ پ اس کی کسی بات ،کسی عمل ،کسی تکلیف کا ازالہ نہیں کرسکتے ہیں ۔
قدر کیجئے اس ماں کی جس کے دم سے آ ج آ پ کامیاب ہے،جس کے دم سے مسکراہٹیں آ پ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ جس کی دعائیں آ پ کو تکلیف آ نے سے پہلے ہی ان سے بچا لیتی ہیں ۔ جس کی فکر آ پ کو اہم ہونے کااحساس دیتی ہیں جو کہ آ ج کے دور میں ناپید ہے کیونکہ کوئ کسی کے لیے اہم نہیں ہے ۔ آ پ کے گھر آ نے تک سوتی نہیں ہے ، آ پ سے پہلے کھانا نہیں کھاتی ہے اس خالص محبت کا نام ہے ماں جو کسی اور سے مل ہی نہیں سکتی ۔
میں سلام پیش کرتی ہوں اس جہان کی تمام ماؤں کو جنھوں نے ہمارے لیے اتنی تکالیف برداشت کیں اور ہمیں اس قابل بنایا کہ آ ج ہم کامیاب ہے یہ سب بھلے آ پ کی محنت ہو لیکن پروردگار عالم کی رحمت کے بعد صرف اور صرف آ پ کی ماں کی محنت اور دعاؤوں کا نتیجہ ہے ۔
عزیز احباب من!
اگر آ پ کی ماں حیات ہے تو ان کی اس طرح قدر کریں جیسے اس زندگی کی کرتے ہیں اور اگر خدانخواستہ اس جہان سے پردہ کر چکی ہے تو ان کی بخشش کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیے ان کے لیے تلاوت قرآن مجید کریں اور دعائیں بھی مانگیے کہ ان کو اس کی بہت ضرورت ہے ۔ زندگی دینے والی کو زندگی ہی کی طرح سنبھالے اور اس کی قدر کیجئے ۔۔۔
