انٹرویو حکیم شاکر فاروقی 90

مدائن صالح، ایک بھولی بسری قوم /قصص قرآن 4/ حکیم شاکر فاروقی

مدائن صالح … ایک بھولی بسری قوم کے کھنڈرات

مدینہ منورہ سے تبوک کی جانب ساڑھے چار سو کلومیٹر کی دوری پر ایک چٹیل صحرا ہے، یہ اٹھارہ سے بیس مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ دور سے دیکھنے پر یہاں کچھ پہاڑیاں سی نظر آتی ہیں۔ یہ پہاڑیاں در اصل خوبصورت نقش و نگار سے مزین اجڑے گھر ہیں۔ اس علاقے کو اب مدائن صالح کہا جاتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے یہاں ایک قوم آباد تھی جسے ثمود کہا جاتا تھا۔ یہ قوم عاد کی باقیات تھیں جو عذاب سے بچ کر یہاں پناہ گزین ہوگئی تھیں۔ ڈیل ڈول میں یہ لوگ بھی باقی لوگوں سے ممتاز تھے، چنانچہ گارے مٹی کے مکان ان کے لیے نا کافی ٹھہرے تو انہوں نے پہاڑوں کو کھود کھود کر اپنے گھر بنانے شروع کر دیے۔ شاید انہوں نے عاد کا انجام دیکھتے ہوئے پہاڑوں کو مسکن بنایا ہو کہ یہاں آندھی اور طوفان اثر انداز نہیں ہو سکتے ۔
یہ لوگ مؤمن تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی اپنے رب سے دور ہوتے چلے گئے۔ بالآخر اپنے پیش رو عاد کی طرح اخلاقی و روحانی بیماریوں کا شکار ہو گئے ۔ اللہ تعالی نے ان کی اصلاح کے لیے حضرت صالح علیہ السلام کا انتخاب کیا۔ جو اڑتیس سال کے اسم بامسمی نوجوان تھے۔ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی فن، تعمیر پر غرور، نفس پرستی اور دیگر اخلاقی برائیوں سے روکا۔ حسب سابق آپ علیہ السلام کو بھی گستاخانہ القاب سے نوازا گیا اور مذاق اڑایا گیا۔ آپ نے انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا لیکن چند ایک کے سوا آپ پر کوئی ایمان نہ لایا۔
جب آپ نے قوم کو راہ راست پر لانے کی کوششیں تیز کر دیں تو چند سردار آپ کے پاس آئے اور کہا ” ہمیں اپنے رسول ہونے کی کوئی نشانی دکھا دیں تو ہم ایمان لے آئیں گے ۔“
آپ علیہ السلام نے نشانی بارے پوچھا تو کہنے لگے: “ہمیں کاثبہ نامی پتھر سے اونٹنی نکال کر دکھا دیں تو ہم مان جائیں گے۔”
آپ علیہ السلام نے قریب واقع ایک پہاڑ کے قریب جا کر دو نفل ادا کیے، پھر اللہ تعالی سے دعا مانگی تھوڑی دیر بعد کاثبہ پتھر سے ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے دس ماہ کی گا بھن اونٹنی نکالتی ہے، پھر پتھر پھٹا اور اس میں سے جیتی جاگتی موٹی تازی اونٹنی برآمد ہو گئی جس نے آتے ہی ایک بچہ جن دیا۔ اس عجیب و غریب معجزے کو دیکھ کر جندع بن عمرو نامی سردار فوراً مسلمان ہو گیا۔ قریب تھا کہ باقی لوگ بھی ایمان لے آتے، لیکن بت خانے کے مجاور حباب، ذراب بن عمرو اور دباب بن صخر نے انہیں روک دیا۔ شاید انہیں اس سب سے اپنے نذرانے غارت ہوتے نظر آ رہے تھے۔
یہ اونٹنی عجیب و غریب خلقت کی حامل تھی، جس چرا گاہ میں جاتی، سب کچھ چٹ کر جاتی، جانور اس کی ہیبت سے لرز جاتے۔ البتہ اس کا دودھ ساری قوم پیتی تھی۔ ایک دفعہ چند لوگ بیٹھے شراب پی رہے تھے، اس دوران ایک نو جوان قذار بن سالف کو پانی کی ضرورت محسوس ہوئی، اس نے جب کنویں میں ڈول ڈالا تو پانی کا ایک قطرہ بھی نہ نکلا۔ پتا چلا کہ آج صالح علیہ السلام کی اونٹنی نے پانی پیا ہے۔ اسے بڑا غصہ آیا ، اس نے اعلان کیا کہ اونٹنی کو میں قتل کروں گا۔ یہ ٹھگنے قد زرد رنگ اور نیلی آنکھوں کا حامل تھا، کہا جاتا ہے کہ ثابت النسب بھی نہیں تھا۔ ادھر صدوف بنت حباب نامی امیر کبیر خاتون بھی اونٹنی سے تنگ تھی کہ اس کے جانور بھوکے رہ جاتے تھے۔ اس نے اونٹنی کے قاتل سے خود شادی کا وعدہ کر رکھا تھا۔ عنیزہ بنت غنم نامی خاتون نے بھی اعلان کر رکھا تھا کہ جو اونٹی کو قتل کرے گا، میں اپنی خوب صورت ترین بیٹی کی شادی اس سے کروں گی۔ اس ماحول میں قذار بن سالف کو مزید حوصلہ ہوا۔ اس نے اپنے ساتھ چند مشٹنڈے ملائے اور رات کو حملہ کردیا۔ اس کے ساتھی مصروع اور اس کے بھائی ذاب بن مہر ج نے تیر کے ساتھ اونٹنی کے پیچھے سے وار کیا جبکہ قذار نے تلوار اس کے سینے میں ماری اور مار دیا۔ بچہ یہ دیکھ کر بھاگ گیا اور پہاڑوں میں کہیں غائب ہو گیا۔ ایک روایت کے مطابق ان لوگوں نے اسے بھی مار دیا۔ جب اونٹنی کو مار چکے تو کسی نے کہا جب صالح علیہ السلام کو پتا چلے گا تو وہ بددعا کریں گے، جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ چنانچہ مشورے سے نو آدمیوں کو منتخب کر کے انہیں شہید کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں فرشتوں کو بھیجا جنہوں نے پتھر مار مار کر حملہ آوروں کو کچل دیا۔ ان کی حالت دیکھتے ہوئے بعض لوگوں کو عقل آئی، وہ فورا صالح علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ ہمارا قصور نہیں ہے، لہذا عذاب کا رخ ہماری جانب نہ ہو۔ صالح علیہ السلام نے فرمایا اگر بچے کو ڈھونڈ لاؤ تو شاید تمہاری بخشش ہو جائے۔
وہ لوگ بچے کی تلاش میں نکلے لیکن وہ نہ ملا۔
یہ بدھ رات کا واقعہ ہے۔ کچھ لوگ اب بھی اپنے تکبر میں مبتلا تھے۔ بار بار صالح علیہ السلام سے کہتے ” کہاں ہے وہ عذاب جس سے آپ ہمیں ڈراتے تھے؟“
صالح علیہ السلام نے فرمایا ” عذاب آنے سے پہلے تمہیں اس کا پتا چل جائے گا۔ جمعرات کو تمہارے چہرے زرد ہو جائیں گے، جمعہ کو سرخ اور ہفتہ کو سیاہ ہو جائیں گے۔ اتوار والے دن تباہی تمہارا مقدر ٹھہرے گی۔“
پھر ایسا ہی ہوا، ہر روز ان کا رنگ بدلنے لگا۔ سب کو عذاب کا یقین ہو گیا۔ اتوار والے دن سب نے کفن پہن لیے۔ دوپہر سے پہلے شدید زلزلہ آیا، پھر ایک سخت چیخ سنائی دی جس سے سب کے کلیجے پھٹ گئے اور تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ صرف ایک اپاہج لڑکی ذریعہ بنت سلف زندہ بچی لیکن عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی ٹانگیں کھل گئیں۔ وہ قریبی بستی قرخ کی جانب دوڑی۔ پہنچ کر سارا واقعہ سنایا، پانی پیا اور مرگئی۔ چار ہزار لوگ آن واحد میں ماضی کی گرد بن کر رہ گئے، وہ جن کی صناعیت کے چرچے آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں صفحہ ہستی سے ایسے مٹے کہ آج ان کا نام لیوا پوری دنیا میں کوئی نہیں۔
اس دوران صالح علیہ السلام قریبی قبیلے بنو غنم میں پناہ گزین رہے، پھر اپنے ساتھیوں سمیت حضر موت کی جانب چل دیے۔ یہیں آپ کی وفات ہوئی۔ اسی نسبت سے اس جگہ کو حضر (حضرت) موت کہا جاتا ہے۔ سچ کہتے ہیں: ”بقا کار از فنافی اللہ کی تہہ میں ہی مضمر ہے۔“
کتنے لوگ جو اپنے آپ کو دنیا کے وجود کا باعث سمجھتے تھے ان کا نشان تک موجود نہیں اور جنہیں غریب الدیار سمجھا جاتا تھا، ان کا نام لینا برکت کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ جو پہاڑوں کو تراش کر اپنا گھر بناتے ہوں، آج بھی موجود نہیں ہیں، ان کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے والا بھی کوئی نہیں۔ ان کی یادیں کتابوں کا حصہ ہیں، اس سے آگے رہے نام صرف اللہ کا ، کیونکہ وہی جی اور وہی قیوم ہے۔ اسی کی ذات کو کسی قسم کا زوال نہیں ہے۔
☆☆☆

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں