سردار مظہر
تاریخِ عالم نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے، لیکن دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں اور دنیا کے اہلِ انصاف سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدل پروری کو دیکھ کر جی کھول کر اُن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔
آپ کا نام مبارک عمر، لقب فاروق، کنیت ابوحفص، والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام ختمہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد میں ایک نام کعب ہے۔ کعب کے دو بیٹے تھے مرہ اور عدی۔ مرہ کی اولاد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور عدی کی اولاد سے حضرت عمرؓ ہیں۔ آپ عام الفیل کے تیرہ برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔
آپ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ قد ایسا دراز تھا کہ لوگوں میں کھڑے ایسے دکھائی دیتے تھے جیسے سواری پر سوار ہوں۔ بارعب چہرہ، گھنی داڑھی، گھنا ہوا جسم، شہ زور، خودار اور بلند حوصلہ کے مالک تھے۔ معاملہ فہمی، سپہ گری، پہلوانی اور نسب دانی کے ماہر، انتہائی شجاع اور بہادر تھے۔
آپ کا شمار قریش کے باوجاہت اور شریف لوگوں میں ہوتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں سفارت کا کام انہی کے سپرد تھا جو خاندانی چلا آرہا تھا۔ آپ کا شمار قریش کے ان سترہ افراد میں ہوتا تھا جو بعثت نبوی سے قبل ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔
حضرت عمرؓ کا اسلام قبول کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرؓ کی ہدایت کے لیے بارگاہ رب لم یزل میں کئی بار جھولی پھلا چکے تھے۔ لہذا حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا ثمر بن کر 6ھجری میں چالیسویں نمبر پر مسلمان ہوئے۔
واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ گھر سے (نعوذباللہ) بانی اسلام کا قصہ پاک کرنے کے لیے نکلے تھے، راستے میں بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی اطلاع پاکر ان کے گھر پہنچے اور خوب زد و کوب کیا، بہن کے دین حق پر استقلال اور چہرے سے بہتے خون کو دیکھ کر دل نرم ہوگیا اور ہدایت کے راستے کھل گئے۔ بہن سے وہ صحیفہ منگوایا گھر میں جس کی تلاوت اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری تھا۔ پڑھتے جارہے تھے اور آنکھوں سے ندامت وشرمندگی کے آنسوؤں کی لڑیاں جاری تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے دین حق کے لیے شرح صدر فرما دیا تو فوری مسلمان ہوگئے۔ بعدازاں دارارقم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنے ایمان کا اعلان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر گلے لگایا اور سینے پر ہاتھ پھیر کر دعا دی۔ ”اے اللہ! ان کے دل سے کینہ نکال کر ایمان بھر دیں۔“ جبرئیل امین نے آکر مبارک باد دی اور فرشتوں کی خوشی منانے کی خبر دی۔
حضرت عمرؓ مسلمان ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے بیت اللہ میں نماز پڑھنے کا ذریعہ بنے۔ آپ کا ایمان لانا تھا کہ اسلام کی شان وشوکت میں روز بروز اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے بقیہ سال آپ کے ساتھ رہے اور ہر قسم کے ظلم وستم کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ جب ہجرت کے لیے حکم خداوندی آیا تو آپ نے بلا خوف وخطر اعلانیہ ہجرت کی۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ سب نے ہجرت چھپ چھپ کر کی لیکن جب حضرت عمرؓ نے ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو تلوار گردن میں ڈالی، کمان اور بہت سے تیر ہاتھ میں لیے،اول مسجد میں گئے اور اطمینان سے طواف کیا اور پھر انتہائی اطمینان سے نماز ادا کی، پھر کفار کے مجمعوں میں گئے اور کہا جس کا جی چاہے کہ اس کی ماں اس کو روئے، اس کی بیوی بیوہ ہو اور اس کی اولاد یتیم ہو، وہ مکہ سے باہر آکر میرا مقابلہ کرے۔ یہ مختلف جماعتوں کو سنا کر تشریف لے گئے، کسی ایک میں بھی ہمت نہ ہوئی کہ مقابلہ کرے۔ مدینہ میں قبیلہ بنو سالم کے سردار عتبان بن مالک کے بھائی قرار پائے۔
مدنی زندگی میں بھی حضرت عمرؓ کو قربِ نبوی حاصل رہا۔ تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ غزوہ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔ جب کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کا مطالبہ کیا تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، حتی کہ غزوہ تبوک میں اپنا آدھا مال اللہ کے راستے میں پیش کر دیا۔ آپ کی بیٹی سیدہ حفصہ کو حرم نبوی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جب غیر مسلم عورتوں سے نکاح کی ممانعت نازل ہوئی تو آپ نے اپنی دو غیر مسلم بیویوں کو طلاق دے دی۔ آپ کو خسر پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ داماد علی وفاطمہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
آفتاب نبوت کی ضیاء پاشیوں نے حضرت عمرؓ کے آئینہ قلب کو ایسا صاف وشفاف اور منور کردیا تھا کہ کمالات نبوت کا عکس قلبِ عمرؓ میں جگ مگانے لگا۔ فیض صحبت نے حضرت عمرؓ کو امتیازی خصوصیات سے ایسا نوازا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بے شمار آراء کو قرآن کا حصہ بنا دیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق 25 یا 27 مقامات قرآن کریم میں حضرت عمرؓ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سانحہ ارتحال جب پیش آیا تو تمام صحابہؓ غم سے نڈھال تھے۔ بعض صحابہؓ نے اپنے لیے آنکھوں کی بصارت اور کانوں کی سماعت چلے جانے کی دعائیں بھی کیں جو قبول ہوگئیں، کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو دیکھنا اور کسی اور کی آواز نہیں سننا چاہتے تھے۔ اس موقع پر غم کی وجہ سے سیدنا عمرؓ نے بھی اعلان کیا کہ جس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ محقیق فرماتے ہیں کہ یہ بات جہاں حضرت عمرؓ کے عشق رسول کا پتہ دیتی ہے وہیں آپ کی سیاسی بصیرت کا بھی اظہار کرتی ہے کہ آپ چاہتے تھے یہ خبر مشہور ہونے سے پہلے پہلے مسلمانوں کی ضمام خلافت کسی نہ کسی کے ہاتھ آجائے تاکہ دشمن اس نازک موقع کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد خلیفہ کے انتخاب میں آپ کا کردار ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ سیدنا عمرؓ خلافت کے معاملات میں جانشین پیغمبر حضرت ابوبکرؓ کے مشیر خاص رہے۔ آنے والے فتنوں کی بیخ کنی کے لیے آپ کا کردار تاریخ سے مخفی نہیں ہے۔ عہد صدیقی میں جنگ یمامہ وغیرہ میں جب حفاظ کی بڑی تعداد شہید ہوگئی تو حضرت عمرؓ نے سیدنا ابوبکرؓ صدیق کو قرآن کریم جمع کرنے پر آمادہ کیا اور سیدنا زید بن ثابت کی سربراہی میں کمیٹی بنا کر امت مسلمہ کو کتابی شکل میں قرآن پاک مہیا کیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے مرض الوفات کے ایام میں ہی اکابر صحابہؓ کے مشورے سے حضرت عمرؓ کو خلیفۃ المسلمین مقرر فرما دیا تھا۔ آپ کی خلافت پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ آپ نے حضرت ابوبکرؓ کے انتقال کے بعد باقاعدہ طور پر امور سلطنت سنبھالے۔ ایسا عدل وانصاف قائم کیا کہ عناصر اربعہ بھی آپ کی بات ماننے پر مجبور ہوگئے۔
اسلام کی فتوحات کا آغاز تو حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام سے ہی ہوگیا تھا۔ مسلمانوں کے لیے دونوں قبلوں کا دروازہ اللہ تعالیٰ آپ ہی کے زریعے کھلوایا۔ سیدنا فاروق اعظم کے دور میں دنیا کی دو بڑی سپر پاور طاقتیں ”روم وایران“ اسلام کے زیر نگیں آئیں۔ مصر، عراق اور شام کے وہ علاقے جو عہد صدیقی میں فتح نہیں ہوپائے تھے دور فاروقی میں فتح ہوئے۔ اس کے علاوہ دمشق، قیساریہ، مدائن، بابل، جلولا، حمص، لاذقیہ، قسطنطنیہ اور بیت المقدس پر پرچم اسلام آپ ہی کے دور خلافت میں لہرایا۔ آپ کے دور خلافت میں ایک ہزار چھتیس شہر مضافات سمیت فتح ہوئے۔ آپ کے دور میں چار ہزار مساجد پانچ وقتی نماز کے لیے اور نو سو جامع مسجد بنائی گئیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں بہت سے اچھے کام کیے جن کو ”اولیات عمرؓ“ کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ کام تاریخ میں جن کا آغاز حضرت عمرؓ کے دور میں ہوا۔ ان میں سے چند یہ ہیں۔ اپنی شورٰی کے مشورے سے سن ہجری کا آغاز کیا، عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا، مجاہدین کے وظائف مقرر کیے، جیل خانے بنائے، محکمہ پولیس کا آغاز کیا، ڈاک چوکیاں بنائی، مساجد میں روشنی کا انتظام کرایا اور تمام مساجد میں امام اور مؤذن مقرر کرکے ان کی تنخواہیں جاری فرمائیں۔
دنیا بھر کو نظامت حکومت دینے والا یہ تابندہ ستارہ یکم محرم الحرام 24 ہجری کو ایک مجوسی قاتل کے ہاتھوں جام شہادت پی کر اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ جاملا اور ہمیشہ کے لیے ان کے سائے میں جنت میں آرام فرما ہوگیا۔