( 19 نومبر مردوں کا عالمی دن)
عصرِ حاضر میں مرد انتہائی مظلومیت کی زندگی جی رہا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط تک مرد گھر کا اور عورتوں کا نگران تھا لیکن اب اس کے پاس یہ عہدہ برائے نام رہ گیا ہے۔ تاہم مرد کی ذمہ داریاں وہیں کھڑی ہیں بلکہ اس پر ذمہ داریوں کا مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ معاشرے نے مرد کو ہر طرف سے ظلم کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ آئیے! ایک طائرانہ نظر صورتحال پر ڈالتے ہیں۔
حقوقِ نسواں (Feminism) کی تحریکیں شروع ہونے کے بعد بے شمار تبدیلیاں واقع ہوئیں اور مرد کی زندگی پر بھی اس کا گہرا اثر پڑا۔دین اسلام اور دیگر کئی مذاہب میں شروع دن سے مرد اپنی عورتوں کا محافظ رہا ہے۔ کمانا مرد کی زمہ داری ہی رہی ہے۔ کیونکہ فطری طور پر مرد ہمیشہ مضبوط ثابت ہوا ہے۔ اس کی سوچ، فکر اور طاقت ایسے اوصاف ہیں جن کی بدولت مرد نے ہمیشہ اپنا سکہ منوایا ہے۔ نسائی تحریکوں کے بنیادی مقاصد درست تھے لیکن حقوقِ نسواں کی علمبردار کچھ خواتین نے مرد کی عظمت کی ساکھ کو متاثر کیا۔ جس کا اثر آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پڑھی لکھی کئی خواتین یہ کہتی پھرتی ہیں کہ ہمیں مرد کی ضرورت نہیں رہی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قانونِ فطرت ہے اور نفسیاتی و طبی اعتبار سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ تنہا رہنے سے بے شمار بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جیون ساتھی زندگی جینے کےلیے بے حد ضروری ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عورت بھی بہت مظلوم رہی ہے۔ نسائی تحریکوں نے کافی جد و جہد کر کے اس دنیا میں جینے کا حق حاصل کیا لیکن اس جینے کا اثر ان کے اپنے تک محدود ہوتا تو شاید بہتر ہوتا۔ اس کا اثر مرد کی زندگی پر پڑا ہے۔ اب مرد کا جینا محال ہے۔
اس وقت تقریباً ہر عورت کو ووٹ کا حق حاصل ہے، تعلیم کا حق حاصل ہے، بیشتر علاقوں میں شادی کےلیے اس کی پسند کو ترجیح دی جاتی ہے جو کہ قابلِ مسرت بات ہے۔ لیکن ابھی مرد کی عملی زندگی (practical life) کا آغاز نہیں ہوا ہوتا کہ اس پر مشکلات آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر وہ پڑھا لکھا نہیں ہے تو معاشرہ اسے نکما سمجھتا ہے۔ اگر پڑھا لکھا ہے نوکری یا کاروبار نہیں ہے تو بھی معاشرے کےلیے قابلِ برداشت نہیں ہے۔ اگر یہ بھی ہے رہنے کےلیے اس کے پاس مکان نہیں ہے تو بھی اسے معاشرے کی طرف سے طعنے سہنے پڑتے ہیں۔ اس سب کے بعد اگر اس کی شادی ہو جاتی ہے تو معاشرہ اس پر ذمہ داریوں کا پہاڑ گرا دیتا ہے۔ کچھ جائز ذمہ داریاں تو مرد خود بھی اپنے سر لیتا ہے جیسا کہ بیوی بچوں کےلیے کمانا، بچوں کی تعلیم و تربیت کو دیکھنا، گھر کا سربراہ بننا۔ کمانا کتنا مشکل ہے یہ ایک مرد ہی بہتر سمجھ سکتا ہے۔ عورت کو اتنا پتا ہے کہ اس نے خریداری کرنی ہے تو اسے ہر صورت پیسے چاہییں۔ مرد شہروں میں رات بھر سڑکوں پر سوتا دکھائی دیتا ہے۔ مرد اپنی عورتوں کی خاطر اپنے باس ( Boss) سے بے عزت ہوتا نظر آتا ہے۔ مرد کی انا کو ٹھیس پہنچتی نظر آتی ہے۔ کسی مرد نے اپنی بیٹی کے سپنے پورے کرنے ہوتے ہیں تو کسی نے بہن کی سکول کی فیس دینی ہے۔ کسی مرد نے اپنی ماں کو حج یا عمرہ کروانے کی خواہش دل میں سجائی ہوتی ہے تو کسی نے اپنی روٹھی بیوی کو منانا ہوتا ہے۔ مرد مر گیا ہے وفا نبھاتے نبھاتے۔۔۔ مرد اپنی خواہشات اوائل عمر میں ہی ترک کر دیتا ہے۔ باپ کے پاؤں میں ڈھنگ کا جوتا پہننے کو نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی عورتوں کےلیے جان توڑ محنت کرتا ہے۔ کسی عورت نے مرد کے جذبات کو اپنی شاعری میں نہیں سمویا۔ یقیناً اسے اس چیز کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ اپنی تعریفیں سننے کا شاید قائل ہی نہیں ہے۔ دنیا کا اصول ہے ہر جاندار تعریف کا بھوکا ہوتا ہے۔ آپ کسی جانور کی تربیت کر رہے ہوں تو اس کی بھی تعریف کرنی پڑتی ہے پھر ہی وہ اچھے طریقے سے کارکردگی ( performance) دکھاتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی تعریف کا بھوکا ہوتا ہے مگر مرد کی تعریف کرنے والا شاید اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اسے پتہ ہے کچھ بھی ہو جائے میں اپنے اوپر آئی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔
کچھ عورتیں پڑھ لکھ کر نوکری وغیرہ کرنے لگتی ہیں اور ان کے پاس جب پیسہ آنے لگتا ہے تو عورت مرد سے یہ کہتی نظر آتی ہے کہ آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ ہماری کمائی لے سکیں۔ ان باتوں پر اسلام کا سہارا بھی لیا جاتا ہے جو کہ فقط اپنی مفاد پرستی ہے۔ مرد کو ہی گھر کے تمام اخراجات دیکھنے ہوتے ہیں۔ اس سے تو جینے کا حق بھی شاید کھینچ لیا گیا ہے۔
عورت نے حقوق حاصل کرنے کےلیے تو تحریکیں چلائیں۔ مارچ کیے جو کہ کافی حد تک درست بھی ہیں لیکن کیا کبھی مردوں نے اپنی اس مظلومیت کا رونا رو کر کوئی تحریک چلائی؟ کوئی مارچ کیا ؟ مرد انسان نہیں ہے؟ اس کے جذبات نہیں ہیں؟ اس کی خواہشات نہیں ہیں؟ پھر معاشرہ اتنے دباؤ کے بعد مرد کو رونے کی اجازت بھی نہیں دیتا اور کہہ دیا جاتا ہے ” مرد روتے نہیں ہیں”
عورت محبت کی دیوی ہے مگر مرد بھی دل رکھتا ہے۔ مانا کہ کچھ جگہوں پر مرد محبت نہیں نبھا پاتے لیکن ایسا بھی تو نہیں ہے کہ مرد پتھر دل ہے۔ مرد محبت میں ناکام ہونے کے بعد قیس سے مجنوں بنا دیے گئے، ساغر صدیقی بنا دیے گئے۔۔۔کئی مردوں نے خود کو ختم کر لیا۔۔۔کچھ نے خود کو ایک زندہ لاش کی طرح اس دنیا میں رکھا۔۔۔ ا
مگر ہائے افسوس !!! مرد اب بھی بے وفا ٹھہرا ۔۔۔