فلسطین روئے زمین کا وہ ٹکڑا ہے جو تاریخی، جغرافیائی اور مذہبی ہر اعتبار سے تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے۔ اسے اللہ تعالٰی نے کئی مادی اور روحانی برکات سے مالا مال فرمایا ہے۔
مشہور یہ ہے کہ فلسطین حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کے وقت سے آباد تھا لیکن درحقیقت یہ اس سے بھی بہت پہلے قدیم انسانی تہذیب کا مرکز ہے۔
یہودیوں کی نافرمانی کے سبب اللہ تعالی نے ان پر مختلف فاتحین کو مسلط کیا جنہوں نے انکو عبرت ناک طریقے سے قتل کیا، غلام بنایا اور باقی ماندہ کو جلا وطن کردیا۔ اس وقت سے آج تک یہ دنیا میں مارے مارے پھرتے تھے۔ زمین کا کوئی ٹکڑا انہیں پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ گذشتہ صدی میں یہ سانحہ پیش آیا کہ یہ ملعون قوم کئی صدیوں بعد اپنے لیے ایک مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ مسلمانوں کے لیے اس میں رنج وغم کی بات یہ ہے کہ یہودی ریاست کےلیے مسلم ممالک کی سرزمین چنی گئی۔ اور ہنستے ہنستے مسلمانوں کو بے دخل کر کے دنیا بھر کے ناپاک یہودیوں کو لابسایا گیا۔
یہودی تسلط:
مسلمانوں نے جب 16 ہجری مطابق 636 عیسوی میں انجیل کی پیشن گوئی کے مطابق فلسطین فتح کرلیا تو اسکے بعد یہ طویل عرصے تک مسلمانوں کے پاس رہا اور انہوں نے یہاں شاندار علمی تہذیبی ورثہ چھوڑا۔ بارہویں صدی عیسوی میں اہل یورپ نے اسے مسلمانوں سے چھیننے کےلیے مشہور صلیبی جنگیں لڑیں اور ایک مرتبہ وہ کامیاب بھی ہوگئے مگر فرزند اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے انہیں زبردست معرکہ آرائی کے بعد یہاں سے نکال باہر کیا اور انبیاء علیھم الصلوة والسلام کی یہ وراثت مسلمانوں کے پاس رہی۔ 1222 ہجری مطابق 1516ء میں فلسطین ترکوں کی علمداری میں آگیا اور پہلی جنگ عظیم کے خاتمے تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید خان تھے۔ یہودیوں نے فلسطین پر ان کی کمزور پڑتی گرفت کے سبب طے کر لیا تھا کہ فلسطین میں صیہونی ریاست تشکیل دینی ہے۔ اس لیے انہوں نے پہلے مال و دولت کے ذریعے اپنا کام نکالنے کی کوشش کی۔ عثمانی کسی بھی حال میں ہوں مگر ان کی رگوں میں فاتحین کا جون دوڑ رہا تھا۔ سلطان عبد الحمید نے اپنے پاوں کے ناخن سے مٹی کھرچی اور یہودیوں کو کورا جواب دیتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ کہے:
“اگر تم اپنا سارا مال و دولت لاکر میرے قدموں میں ڈھیر کردو تو پھر بھی میں فلسطین کی اتنی مٹی بھی نہ دوں گا”
یہودیوں نے مایوس ہوکر کسی عالمی طاقت کو ہمنوا بناکر اس کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ قرآن کریم کی پیش گوئی ہے کہ یہودی کسی طاقت کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ محض اپنے زور بازو پر کچھ کرنے کے قابل نہیں۔
اس زمانے میں پہلی جنگ عظیم جاری تھی۔ امریکا اور برطانیہ اتحادی طاقتوں کے سربراہ تھے۔ برطانیہ کو مختلف محاذوں پر جنگ جا سامنا ہونے کی وجہ سے سرمائے کی شدید ضرورت تھی۔ یہودیوں نے برطانیہ کی مدد کےلیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے اور اسکے عوض انگریزوں سے وعدہ لیا کہ جنگ میں کامیابی کے بعد فلسطین کی حدود میں یہودی ریاست کے قیام میں مدد دی جائے گی۔
جنگ عظیم میں اتحادیوں کی کامیابی کے بعد انگریز 1917ء جنرل ایلن بی کی قیادت میں فلسطین میں داخل ہوگئے اور 9 دسمبر 1917ء کو انہوں نے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ ترکء اور جرمن فوجیں شام کی طرف بٹ گئی اس دن سے فلسطین کی حکومت انگریزوں کے پاس آگئ۔ برطانیہ نے برصغیر مشرق وسطی اور بعض افریقی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم غضب اور جفا کاری کا جو برتاؤ کیا وہ نہایت خوفناک ہے ۔مگر فلسطین میں اس کا کردار اور بھی زیادہ گھناؤنا اور نا قابل ترین ہے ۔
افسوس کہ ہماری آج کی نسل ان تمام ظلم اور زیادتیوں سے ناواقف ہے ۔
جو اس بدخصلت قوم نے ہمارے ساتھ روا رکھیں ۔اس وجہ سے انگریز ہماری سلطنتیں چھیننے اور ہمارے مال و دولت سے اپنا گھر بھرنے کے باوجود مطمئن ہیں کہ کوئی ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچے گا نہ کسی کی نظر انتقام ان کی طرف اٹھے گی۔جنگ اول کے دوران برطانیہ کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب ممالک کی مدد درکار تھی۔اس غرض سے اس نے حاکم مکہ شریف حسین سے گفت وشنید کی۔اس غدار حکمران کے ساتھ اس کا معاہدہ ہوا کہ عرب ممالک برطانوی حکومت کے ساتھ اس صورت میں تعاون کر سکتے ہیں کہ جنگ کے اختتام پر ان کی آزادی خودمختاری کے اعلان کا وعدہ کیا جائے ۔
انگریز کی عیاری دیکھئے کہ ایک طرف وہ یہودیوں سے جزیرۃ العرب میں صہیونی ریاست کی تشکیل کے عوض دولت اینٹھ رہا تھا اور دوسری طرف عرب ممالک سے آزادی اور خود مختاری کے وعدے کرکے ان سے تعاون حاصل کررہا تھا ۔
جنگ جیتنےکے کچھ عرصے بعد اس نے عرب ممالک کو خودمختاری دے کر ان کی سرحدوں کا تعین کردیا ۔
مگر فلسطین کی سر زمین پر چونکہ اسے ایک صہیونی ریاست کا قیام منظور تھا اس لیے اس سوال کو موضوع اختلاف بنا کر کھڑا کردیا گیا کہ آیا فلسطین کو بھی ان علاقوں میں شمار کرنا چاہیے یا نہیں جن کو خود مختاری دی جانی تھی ۔حالانکہ یہ بات سرے سے اختلاف کا باعث ہی نہیں تھی کہ فلسطین بھی عرب حدود میں شامل ہے آزادی کا مستحق ہے ۔
انگریز نے صرف اس وعدہ خلافی اور دغا بازی پر بس نہیں کی بلکہ اپنی نگرانی میں صہیونی مقاصد کا عمل زور شور سے جاری رکھا۔
اس کے لیے ان دو باتوں پر زور دیا۔
1۔ایک تو یہ کہ اسرائیل کو آبادی اور وسائل کے لحاظ سے مضبوط کیا جائے ۔یہودی چونکہ فلسطین میں نہایت قلیل مقدار میں تھے اس لیے غیر محسوس طور پر منصوبہ شروع کیا گیا کہ فلسطینی مسلمانوں کے مکانات اور جائیدادیں خریدی جائیں اور دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر یہاں بسایا جائے ۔اس غرض کے لیے یہودیوں کی تنظیمیں اور سرمایہ دار یہودی سرگرم ہوگئے اور فلسطینی مسلمانوں کی جائیدادیں خریدنے کے لیے پانی کی طرح پیسا بہایا گیا مقامی علماء نے اس کی سخت مخالفت کی اور مسلم عوام کو منع کیا کہ یہودیوں کے ہاتھ مکانات اور زمینیں ہرگز فروخت نہ کریں۔
اس غرض کے لیے انہوں نے ساری دنیا کے سربرآوردہ علمائے کرام مفتیان حضرات سے فتاویٰ بھی طلب کیے ۔ان سب حضرات نے اس امر کو نا جائزو حرام بتلایا ۔اس سلسلے کا ایک فتوی برصغیر کی مشہور علمی وروحانی شخصیت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ سے بھی لیا گیا ۔آپ نے اس کے عدم جواز کا فتوی دیا۔( دیکھئے امداد الفتاوی ج3ص 59)
اس وقت کچھ تو عوام کی غفلت تھی کچھ مسلمانوں کا غربت و افلاس اور کچھ یہودیوں کی عیاری ومکاری کہ علماء کرام کے سختی سے منع کرنے کے باوجود مقامی آبادی سے زمینیں خرید خرید کر یہود اپنے پاوں جماتے گئے اور دھیرے دھیرے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی اس سر زمین میں روس یورپ اور افریقہ سے آئے ہوئے یہودی آباد ہوتے گئے ۔
برطانوی کمشز کی زیر نگرانی چپ چپاتے یہ عمل جاری ریا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ فلسطین کی آبادی کا تناسب دھیرے دھیرے تبدیل ہونے لگا۔
وہی یہودی جو 1914ء میں یہاں کی آبادی کا 9 فیصد تھے 1921ء میں 11 فیصد ہوگئے 1931 ء میں ان کی آبادی بڑھ کر 17 فیصد تک پہنچ گئی اور 1948 ء میں جب مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو تیزی سے بڑھتے ہوئے یہودیوں کی تعداد 8لاکھ 6ہزار تک جا پہنچی تھی۔ایک جائزے کے مطابق 1880 ء اور 1940 کے درمیان پانچ لاکھ یہودی باہر سے آکر مقبوضہ فلسطین میں آباد ہوگئے۔
اسرائیل کے قیام کے بعد تو غضب ہی ہوگیا ۔یہودیوں نے ہر قسم کا تکلف بالائے طاق رکھتے ہوئے دھڑا دھڑ فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کی۔جنگ عظیم دوم میں جرمنی کے رہمنا ہٹلر کی طرف سے یہودیوں کے قتل عام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اس بہانے دنیا کی ہمدردی حاصل کرکے بد فطرت اور سازشی یہودیوں کے لیے الگ وطن کی آواز اٹھائی گئی۔
ماضی کے پس منظر میں آپ دیکھ سکتے ہیں دنیا میں مختلف اقوام کے ہاتھوں اپنے کرتوتوں کی بنا پر مار کھا کھا کہ بکھرے ہوئے یہودیوں کو کس طرح باہر سے لالا کر فلسطین میں آباد کیا گیا۔اب چونکہ یہودی بستیاں کثیر تعداد میں آباد ہوگئی تھیں اس لئے یہودیوں نے زمینیں خریدنے کے بجائے دہشت گردی شروع کردی اور قتل وغارت گری اور فلسطینوں میں خوف وہراس پھیلانے کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ یکم اپریل 1948ء اور 15مئی 1948ء کے درمیان یعنی ڈیڑھ سال میں چار لاکھ مسلمان اور عیسائی فلسطینوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی اور آج وہ پڑوسی ملکوں کے مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔دنیا میں ظلم اور ناانصافی کی بہت بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں لیکن جدید دنیا میں جبکہ ذرائع مواصلات کی تیز رفتاری کی بدولت کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہتی اتنے بڑے ظلم اتنی بھیانک تاریخی بددیانتی اور دنیا کی آنکھوں میں ڈھول جھونکنے کی مثال پوری تاریخ عالم میں نہیں ملے گی ۔ذرا اندازہ تو لگائیں کہ صدیوں سے آباد فلسطینی تو گھر بار سے محروم ہو کر مہاجر کیمپوں میں پناہ لیں جہاں ان کی زندگی صہیونی درندوں کے رحم وکرم پر ہے اور بدکردار قسم کے یہودی ان بے کسوں کے گھروں پر قابض ہو کر داد عیش دیں۔آپ اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقے کس طرح ایک دوسرے سے جدا اور مسلمان بکھرے ہوئے ہیں جبکہ یہودی القدس سمیت دیگر اہم شہروں پر قابض ہو کر اپنی آبادی کو مربوط شکل میں بڑھاتے اور نئی بستیاں تعمیر کرتے جارہے ہیں
2) صہیونی ریاست کے استحکام کے لیے دوسرا امر جس کا اہتمام کیا گیا یہ تھا کہ اسرائیل کو ہر قسم کا اسلحہ اور ٹکنالوجی دے کر اسے مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے ۔چونکہ آج وہ سپر پاور مانا جاتا ہے ۔لیکن اس کے پڑوس میں واقع ممالک کو عسکری اعتبار سے اس کے مد مقابل آنے کے قابل نہ ہونے دیا جائے ۔ بلکہ کوشش کی جائے کہ ہمسایہ ممالک میں ایسی حکومتیں برسر اقتدار ہو جو صہیونی اقتدار میں حائل نہ ہوسکیں ۔اگر کوئی ایسا کرنے کی جرات کرے تو اسے جارحیت کے ذریعے اس قابل نہ چھوڑا جائے ۔عرب ممالک سے اسلامی غیرت اور شوق جہاد کے خاتمے کے لیے ان میں بڑے منظم طریقے سے قوم پرستی کے جراثیم پیدا کیے گئے ۔چناچہ اب اسرائیل پانچ اسلامی ریاستوں کے بیچ میں گھرا ہوا ہے لیکن اسے اپنے صلح پسند پڑوسیوں سے کوئی خطرہ نہیں ۔رہے بےبس فلسطینی مسلمان تو وہ تنہا اپنی آزادی کے لیے جہاد کررہے ہیں ۔کوئی عرب ملک ان بے سہاروں کی پشت پناہی کے لیے تیار نہیں ۔دوسری طرف اسرائیل کی پشت پر مغرب کی بڑی طاقتیں موجود ہیں جو فلسطینوں کے کچلنے میں پوری طرح سے اس کی ہمنوا اور حمایتی ہیں اور
دلیل طاقت کی محتاج ہے ۔
صورتحال روز بروز گھمبیر ہوتی جارہی ہے ۔کچھ لوگ اس کا حل مذاکرات کو قرار دیتے ہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکرات میں تو دلیل سے بات کی جاتی ہے ۔اگر متشدد یہودی دلیل کی زبان مانتے تو آج آگ و خون کا یہ کھیل فلسطین میں جاری ہی کیوں ہوتا ؟؟۔
اگر محض دلیل طاقت سے حقدار کو اس کا حق مل جاتا تو دنیا میں اسلحہ ایجاد ہی نہ ہوتا ۔
لوگ زبان سے کہہ سن کر اپنا حق وصول کرلیتے
حقیقت یہ ہے کہ دلیل جتنی بھی سچی اور کھری ہو اس کے منوانے کے لیے طاقت ضروری ہے۔
انصاف کا حصول اور
حقوق کا تحفظ طاقت کا مرہون منٹ ہے ورنہ امن میں پولیس اور زمانہ جنگ میں فون کی ضرورت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے ۔
لہذا مذاکرات بھی اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب فریقین برابر کی سطح کے ہوں اور ہر فریق کا مزکرات سے ناکامی کی صورت میں دوسرے فریق کے زور دار عمل کا خطرہ ہو
اگر مذاکرات میز پر بیٹھ کر دلائل کی پٹاری کھولنے سے قبل مطلوبہ طاقت مہیا نہ کی جائے تو میزیں سجی رہیں گی لیکن حقوق کی پامالی اور مظلوم و کمزور قوموں کو روندنے کچلنے کا عمل رک نہ سکے گا ۔
اے خدائے واحد پر ایمان لانے والے سادہ لوح مسلمانو !۔بدبخت یہودیوں نے انبیاء کرام کے حقوق کا احترام نہیں کیا۔تو تمہیں تمہارا حق کس طرح دیں گے ۔
ان سے مذاکرات کی میز پر سامنا اس وقت تک بیکار ہے جب تک جنگ کے میدان میں انہیں نیچا دیکھانے کے قابل نہ ہوجاو ۔
بوسیدہ ٹاٹ
۔
حقیقت یہ کہ یہودی موت سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔سورہ بقرہ اور سورہ جمعہ میں بیان کیا گیا ہے ۔اس لیے وہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سخت خوفزدہ رہتے ہیں۔چناچہ ان کی کوشش ہے کہ مجاہدین سے میدان جنگ میں پنجہ آزمائی مول لینے کی بجائے انہیں مذاکرات کے جال میں الجھایا جائے ورنہ کون نہیں جانتا کہ ان کے دلائل پونچھا لگانے کے ٹاٹ سے زیادہ بوسیدہ ہیں مثلا انکا سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ وہ فلسطین کے قدیم ترین اصل باشندوں کی اولاد ہیں۔ان کے آباؤ اجداد نے ہزاروں سال پہلے یہاں یہودی ریاست قائم کی تھی اور بیسویں صدی میں اسی اصلی یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے۔
لیکن اسے کیا کریں کہ مغربی مصنفین سمیت تمام تاریخی ماخذ اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطین میں بسنے والے عربوں کی اکثریت کے آباؤ اجداد اسلامی فتح کے ساتھ فلسطین میں نہیں آئے تھے بلکہ وہ بنیادی طور پر سامی الاصل ہیں جو تین ہزار سال قبل مسیح کے زمانے میں فلسطین میں آباد تھے نیز مورخین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ قدیم عبرانی جن کی اولاد اور وارث ہونے کا آج کے یہودی دعوی کرتے ہیں وہ تو عراق سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے ۔وہ یہاں کے اصل باشندے تھے ہی نہیں ۔
پھر دلچسپ بات یہ کہ یہودی جب جلا وطن ہوکر دنیا میں بکھرے تو بہت سے غلام بنا لئے گئے تھے جن کا نسب محفوظ نہیں رہا اور وہ دوغلی نسل کے ہیں نیز لاتعداد غیر سامی الاصل قبیلوں کی نسل سے ہیں جبکہ فلسطین کے عرب مسلمان ہزارہا سال سے وہیں بس رہے ہیں خالص نسب کی بنا پر یہاں کے قدیم باشندوں کی اصل نسل ہیں۔۔
اگر فرض کرلیا جائے کہ یہودی واقعی فلسطین کے قدیم ترین حکمرانوں کی اولاد ہیں تو ارض فلسطین پر ان ملکیت کا دعوی نہایت کمزور ہے ۔دو ہزار برس پہلے کسی خطے ارض کے منتشر حصوں پر باہر سے آکر قبضہ کرلینا آج یہودیوں کو یہاں کا مالک نہیں بنادیتا۔اگر ایسا ہو تو تمام استعماری ممالک اپنے زیر قبضہ ممالک پر ۔۔۔جو جنگ دوم کے بعد آزاد ہوگئے ۔حق ملکیت جتاسکتے ہیں ۔نیز اس طرح سے اسپین پر مسلمانوں امریکا پر ریڈ انڈین کا اور آسٹریلیا پر ریب اور جینز کا حق بنتا ہے۔کیا یہودیوں کی حمایت کرنے والے یہ ممالک اپنے ملکوں کو دوسروں کا اس طرح کا حق تسلیم کرنے پر تیار ہیں۔
غرض یہودیوں کے دلائل وزن سے اسی طرح خالی ہیں جیسے چیل کا گھونسلہ گوشت سے ۔۔۔۔۔لیکن وہ اور ان کی بدنیت اور جانبدار سرپرست پھر بھی فلسطینی مسلمانوں سے اسلحہ رکھوا کر ان کے ہاتھ میں مذاکرات کے نوٹس بنانے والا قلم تھمانا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جنت کے شیدائی مسلمان اس وقت تک ان کے ناک میں دم کیے رکھیں گے جب تک کہ انہیں شہادت کے راستے ہٹا کر بات چیت کی بھول بھلیوں میں گم نہیں کردیا جاتا۔نئے عالمی نظام میں جب سے برطانیہ کی جگہ امریکا نے لی ہے یہودیوں نے اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور وہ اس یہودی غنڈے کے اشارے پر بانس سے بنے شتونگڑے کی طرح گھومتا اور قلابازیاں کھاتا ہے ۔ان سب کی فلسطینی مجاہدین سے جان نکلتی ہے لہذا انہوں نے سیاسی گروپوں کو آگے کرکے یاسر عرفات جیسے موم لیڈر گھڑ لیے ہیں اور دنیا کو مذاکرات کا جھانسہ دے کر عظیم تر اسرائیل کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
فیصلہ کن معرکہ ۔
ارض فلسطین میں ان کی ریاست کا قیام ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا سنگ میل ہے ۔لیکن جو شخص قرآن وسنت کا مطالعہ کرتا ہو اسے اس بات میں ذرا شک نہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کا اجتماع در حقیقت ان کی آخری اور ابدی شکست بلکہ روئے زمین سے ناپیدگی کا نقطہ آغاز ہے ۔حدیث شریف کی پیش گوئی کے مطابق ارض فلسطین کی طرف دنیا بھر کے یہودیوں کا رجوع اور ان کا یہاں سمٹ آنا دراصل اس آخری اور فیصلہ کن معرکے کا پیش خیمہ ہے جو اس خطے میں اہل ایمان اور خدا رسول کی گستاخی اور مردود یہودی قوم کے درمیان لڑا جائے گا۔اس معرکہ میں سر زمین انبیاء کا ہر پتھر اور درخت مسلمان مجاہدین کو پکارے گا کہ اللہ کے بندے ادھر آ یہاں میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے ۔اس کی تمام شیطنیت اور دجل سمیت اسے اس کے آخری ٹھکانے جہنم کے آخری سرے تک پہنچا دے بمطابق فرمان صادق امین نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف غرقد درخت یہودیوں کی نشاندہی نہ کرے گا چناچہ آج اسرائیلی درالحکومت اور دیگر شہروں میں صحافی حکومت نے غرقد کے لاتعداد درخت جابجا لگوائے ہیں لیکن اس بات کی طرف ان کا دھیان نہیں کیا کہ جب ان کی ہزاروں سال کی نافرمانی اور گستاخی کی سزا قریب آلگے گی تو غرقد کے درخت کب تک انہیں پناہ دیں گے۔
آخری انجام کی تمہید
مسلمانوں کو یہودیوں کے لیے بے پناہ ظلم وستم اور جوروجفا سے خائف ہونے کے بجائے شریعت کے کامل اتباع اور جہاد فی سبیل اللہ پر پختہ اور مضبوط ہوجانا چاہیے ۔مقبوضہ فلسطین کی طرف دنیا بھر سے یہودیوں کی نقل مکانی دراصل ان کے آخری انجام کی تمہید ہے۔
جب ان کی اکثریت یہاں سمٹ آئے اور ان کی حرکات حد سے تجاوز کر جائیں گی اور ان کا فتنہ گروفتنہ پرور رہنما دجال ان کو لے کر مسلمانوں کے خلاف اٹھے گا تو حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت امام مہدی کی قیادت میں مجاہدین کا لشکر ان کی سر کوبی کے لیے دمشق فلسطین کی طرف بڑھے گا تب دجال فرار ہوگا ۔حضرت عیسی علیہ السلام اس کا پیچھا کریں گے اور حدیث شریف کے مطابق مقام “لد” میں اسے جا لیں گے یہاں انسانیت کا یہ مردود ترین فرد ان کے ہاتھ موت کی گھاٹی اترے گا (صحیح مسلم باب ذکر الدجال ج ٢ص٤٠١)
پھر اس کی مردود قوم بھی مجاہدین کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے فنا کی گھاٹی اتر جائے گی ۔
لد نامی مقام آج اسرائیل کے درالحکومت تل ابیب کے قریب ہے ۔کمزور ایمان والے مسلمان دجال کے فتنے میں بہہ جائیں گے ۔لہذا اللہ سے مضبوط تعلق رکھنے والے اور اس کی خاطر جان دینے کا جذبہ رکھنے والے ثابت قدم رہیں گے اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو کر مغفرت اور جنت کے مستحق ہوں گے ۔
اے ایمان والو ۔اپنے اعمال کی جانچ کرو اور اس وقت کی تیاری رکھو جب تمہیں خیروشر میں سے کسی ایک کی خاطر جان دینے کا سامنا کرنا پڑے گا۔