بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
مسجدحرام اور مسجد اقصیٰ دین کے دو اہم مراکز رہے، ان کا انبیاءکرام،ان کی زندگی،اور تعلیمات سے بڑا گہرا ربط رہا جس کی وجہ سے دونوں سے دینی اورجذباتی لگاؤ بھی ہمیشہ برقرار رہا۔
قبلہ اول
مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مسجد اقصی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی , یہود کے موقف کے مطابق اِس جگہ پر پہلے سُلیمانی ہیکل تھی۔ مُسلمانوں کے یروشلیم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی۔حالانکہ کہ قرآن میں سفر معراج کے باب میں اس مسجد کا ذکر ہے۔ گویا یہ مسجدحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت سے بھی پہلے موجود تھی۔ متعدد روایات کے مطابق خانہ کعبہ کے بعد دوسری عبادت گاہ الاقصٰی تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد کا تعلق اللہ کی عبادت سے ہے اور ہر نبی کو عبادت کے لیے مسجد کی ضرورت تھی۔ یہاں تک درست ہے کہ موجودہ دور میں اس مسجد کی معروف نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ہے حتیٰ کہ ایک روایت کے مطابق اس مسجد کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کرایا۔ لیکن اسے کلیتہً ہیکلِ سلیمانی قرار دینا تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔
مسجد اقصٰی کی اہمیت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔
قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالٰی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے. (سورہ الاسرائیل آیت نمبر 1)
احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے, جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : مسجد حرام ( بیت اللہ ) تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرمانے لگے : مسجد اقصیٰ ، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ چالیس سال، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3366، صحیح مسلم حدیث نمبر 520)
مسلم تعمیرات
جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ مسجد اقصٰی سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ مسجداقصٰی کا بانی حضرت یعقوب علیہ السلام کو مانا جاتا ہے اور اس کی تجدید حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔ بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔
عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔
سانحہ بیت المقدس
21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں۔
اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لیے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کر دی۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہو گئی۔
امت مسلمہ کی زمداریاں
جب تک امت مسلمہ باہمی انتشار پر قابو نہیں پائے گی اس وقت تک فلسطین میں مظلوم مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی امت مسلمہ کے مسائل کے بارے میں کاغذی پرزوں سے زیادہ حیثیت نہیں۔ اسرائیل کی جارحیت روکنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ امت مسلمہ اسرائیل اور اس کی مدد گارکمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے۔او آئی سی اور عرب لیگ روایتی خول سے باہر نکل کر فلسطین کے معاملے پرمستقل سفارتی مہم چلائیں ورنہ خطے میں امن قائم ہونا ممکن نہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان کے رہنماوں کو اپنے ذاتی اختلافات اور ملکی مفادات سے بالاتر ہوکر امت مسملہ کی بھاگ دوڑ سنبھالنی چاہیے, اور مظلوم بے کسوں مسلمانوں کو گاجر مولیوں کی طرح کٹنے سے بچانے کے لیے امن کا وہ ہی راستہ اپنایا جائے جو تاریخ اسلام میں سنہری حروف کےساتھ لکھا جاۓ۔ یعنی جہاد فی سبیل اللہ. اگر ہم سچے اور پکے مسلمان بن کر ایک جسم کی مانند ہوجائیں. جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اگر امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہوجائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہم زیر نہیں کر سکتی۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں والہ قصہ بن جائے گا۔
اختتامی طور پر، مسجدِ اقصٰی اور امتِ مسلمہ کی زمداریاں باہم جڑی ہوئی ہیں۔ ہمیں اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ، مسجد اقصٰی کا تحفظ کرنا چاہیے, تاکہ ہم اپنی مقدس میراث کو مستحکم رکھ سکیں اور اسے آنے والی نسلوں تک پہنچا سکیں۔
