89

مسجد اقصی/تحریر/سیدہ فاطمہ طارق

قرآن مجید کی سورة بنی اسرائیل کے آغاز میں ہی اس مقام کو مسجد اقصی کہا گیا ہے۔ اللہ تعالی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی ہیں جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے( سورة بنی اسرائیل-١)
اس مسجد کو حرم قدسی شریف اور بیت المقدس بھی کہتے ہیں۔
القدس، یروشلم کا عربی نام ہے جسے زبان قبل اسلام میں “ایلیا” بھی کہا جاتا تھا۔ ایلیا نام رومیوں نے پہلی صدی ق-م میں یروشلم شہر کو فتح کرنے کے بعد دیا تھا۔ یورپی زبانوں میں یروشلم کو jerusalem کہتے ہیں۔
محل وقوع:
یہ مسجد یروشلم شہر کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ جو یروشلم کے مشرق میں واقع ہے۔ مکة المکرمة سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریبا 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ 35 درجہ عرض شرقی اور 31 درجہ عرض شمالی پر واقع ہے، بحر روم سے اسکی اونچائی 750 میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی 1150 کلو میٹر ہے بحر روم سے اس کا فاصلہ 52 کلو میٹر، بحر مردار سے 22 کلو میٹر اور بحر احمر سے 250 کلو میٹر ہے۔ القدس دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ القدس شہر کا وہ علاقہ جہاں القدس شریف یعنی مسجد اقصی موجود ہے اسے القدس قدیم کہتے ہیں۔
بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے ان ہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہِ صیہون ہے جس پر مسجد اقصی اور قبة الصخرة واقع ہیں۔
تعمیر:
عام طور پر مشہور ہے کہ مسجد اقصی کی پہلی تعمیر حضرت داود و حضرت سلیمان علیھما السلام نے کی لیکن یہ بات صحیح نہیں، مسجد اقصی روئے زمین پر بیت اللہ کے بعد دوسری مسجد ہے جسکو عبادتِ الٰہی کے لیے تعمیر کیا گیا۔ مسجد اقصی ان مساجد میں سے ہے کہ جس کو جلیل القدر انبیاء نے تعمیر کیا۔ بیت المقدس کی پہلی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی اور پھر اس کے بہت عرصے بعد اپنے وقتوں میں حضرت داود و حضرت سلیمان علیھما السلام نے کی۔
القدس کے احاطے کی تعمیر:
حرم قدسی کی چند مشہور تعمیرات جو حرم کی حدود میں موجود ہیں اور عرصی سے ان کو اہلِ فلسطین کے علاوہ دنیا کے کم صاحب توحید لوگوں نے دیکھاہے۔ حرم قدسی مسلمان سلاطین، علمائے کرام، اولیاء عظام اور عامة المسلمین کی عقیدت و محبت کا مرکز رہا ہے۔ سلاطین اسلام نے یہاں تعمیر وترقی کے لحاظ سے نمایاں کام کیے۔
یہاں نمازیوں کی سہولت یا مختلف تاریخی یادگاروں کے حوالے سے تعمیر کی جانے والی متعدد چھوٹی چھوٹی خوبصورت عمارتیں، مدرسے، قبے، چبوترے، مینارے، پانی کی سبیلیں، سائبان اور دھوپ گھڑیاں اپنی خوبصورتی، دلفریبی میں اور ندرت کی وجہ سے فن تعمیر کانادر نمونہ سمجھے جاتے ہیں۔
قبے:
یہ خوبصورت قبے تدریس، ذکر و عبادت کےلیے جائے خلوت، یا تاریخی یادگاروں کے طور پر تعمیر کیے گئے تھے اور آج تک مسجد اقصی کے صحن کی خوبصورتی اور رونق میں اضافہ کررہے ہیں۔ ان قبوں کو مختلف حکمرانوں نے مختلف اغراض کے تحت تعمیر کروایا۔ مسجد اقصی کی طائرانہ تصویر کو غور سے دیکھنے سے یہ اس کے صحن میں تراشیدہ موتیوں کی طرح بکھرے نظر آتے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور قبة المعراج ہے۔
قبة المعراج:
یہ قبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمانوں پر تشریف لے جانے کے عظیم واقعے کی یادگار میں تعمیر کیا گیا۔
چبوترے:
یہ چبوترے گرمیوں میں نماز اور درس و تدریس اور علمی مذاکروں کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ صحن کے فرش سے ذرا اونچے اوت مربع و مستطیل دونوں طرح کے ہو تے تھے۔ انہیں خوبصورت پتھروں سے تعبیر کیا جاتا تھا اور اکثر قبلے کی جانب محراب نما دیوار بھی تعمیر کی جاتی تھی۔
مینارے:
بیت المقدس میں اذان کے لیے چار مینارے تھے جو شمالی اور مغربی جانب تھے کیونکہ شہر کی آبادی اس طرف تھی۔ مسجد اقصی چونکہ قدیم القدس شہر کے جنوب مشرقی کنارے میں نسبتا اونچی جگہ واقع ہے اس لیے اس کے جنوب اور مشرق میں آبادی نہ تھی۔ اب آخری دور میں یہاں رہائشی تعمیرات ہوئی ہیں۔
سبیلیں:
خادمینِ حرم نے نمازیوں اور زائرین کی سہولت کے لیے پانی کا بہت عمدہ انتظام کیا تھا جس کی وجہ سے مسجد کی حدود میں جا بجا میٹھا اور ٹھنڈا پانی کنووں، سبیلوں اور حوضوں میں وافر مقدار میں پایا جاتا تھا۔ حرم شریف میں 25 کنویں تھے جن میں سے سترہ مسجد اقصی کی مرکزی عمارت کے قریب اور آٹھ سنہرے گنبد والی عمارت کے آس پاس تھے۔ نو سبیلیں اس کے علاوہ تھیں “کاس الفوارہ” نامی ایک خوبصورت حوض مسجد کے مرکزی دروازے کے بالکل سامنے تھا۔ اسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے 589 ھ میں تعمیر کروایا تھا۔
شہر کے چند مشہور میٹھے چشموں کا پانی بھی نالیوں کے ذریعے مسجد تک پہنچایا گیا تھا۔
دھوپ گھڑیاں:
مسجد اقصی میں دودھوپ گھڑیاں تھیں۔ جو اوقات نماز پہنچانے کا کام دیتی تھیں۔ ایک مسجد کے بالکل کے سامنے اور ایک چٹان والے گنبد کی دیوار پر۔
تہ خانہ:
مسجد کے مرکزی ہال کے نیچے ایک تہ خانہ بھی ہے جسے صلیبیوں نے اپنے قبضے کے دور میں گھوڑوں کا اصطبل بنا رکھا تھا اور اسے “اصطبل سلیمانی” کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ تہ خانہ ستونوں پر کھڑا ہے اسے “قدیم اقصی” بھی کہتے ہیں۔ آخری دور میں مسجد اقصی کے ایک کمرے میں اسلامی نوادرات بھی رکھے گئے ہیں۔ جن کا تاریخی اشیاء کے شوقین ذوق و شوق سے دیدار کرتے ہیں۔
مسجد اقصی کا اطلاق اس مکمل چار دیواری پر ہوتا ہے۔ جس کو عبادت کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ اس احاطے کے ایک ایک اینٹ اور اس کے اندر کی ایک ایک انچ زمین تاقیامت مسجد کے لیے وقف ہے اور اسکی حفاظت مسلمانوں پر اس وقت تک فرض ہے جب تک ان میں سے ایک آنکھ بھی حرکت کرتی اور ایک دل بھی دھڑکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں