98

معمولات نبوی ﷺ برائے صحت وتندرستی/تحریر/شیخ سیف اللہ

صحت اور تندرستی ایک عظیم نعمت اور عطیہ الہٰی ہے اس کی قدر تب معلوم ہوتی ہے جب انسان بیماری میں مبتلا ہوجائے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو پانچ باتوں کے متعلق نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے ختم ہونے سے قبل ان سے فائدہ اٹھالو ان میں سے دوسری بات بیماری سے پہلے صحت سے فائدہ اٹھانا ہے۔چنانچہ اسلام نے حفظان صحت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت میں ذہنی وجسمانی مسائل سے پاک صحت مندانہ زندگی کا ایک بہترین لائحہ عمل موجود ہے۔لیکن بدقسمتی سے آج اس نعمت کی کماحقہ خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور لوگ عموماً اس سے غفلت برتتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ “صحت اور فراغت دو ایسی نعمتیں ہیں جن کی بہت سے لوگ ناقدری کرتے ہیں”۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ماہرین کے مطابق پچانوے فیصد سے زیادہ لوگوں بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

دنیا میں امراض کی ایک بڑی وجہ ناقص صفائی بتائی جاتی ہے۔دین اسلام نے تو طہارت وصفائی پر بہت زور دیا ہے بلکہ انسان کو ولادت سے وفات تک پاک صاف رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے اور جابجا نظافت اور پاکیزگی کی تعلیم دی ہے خواہ وہ بدن کی پاکیزگی ہو،لباس کی ستھرائی ہو یا مکان اور جگہ کی صفائی ہو۔سنن ترمذی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ”اپنے گھر کے سامنے کا میدان صاف رکھا کرو اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو”جبکہ ہم نے اس تعلیم کو بھولا دی ہے آج ہمارے محلے اور راستے گندگی اور کوڑا کرکٹ کی ڈھیر بنی ہیں۔یہ تو جگہ کی صفائی کے بارے میں آپ کا فرمان مبارک تھا۔بدن کے صفائی کے بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوتے ہیں اور ہاتھ دھونے کے بعد پھر شریعت میں دوسرا حکم یہ ہے جو فتاوی الہندیہ میں بھی ہے کہ جب کھانے کے لیے ہاتھ دھویا جائے تو اس کو کپڑے وغیرہ سے صاف نہ کرو کیونکہ اگر کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کرلیا جائے تو بھی اس کپڑے کی وساطت سے جراثیم دوبارہ ہاتھوں پر منتقل ہوسکتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ اس تولیے پر پہلے سے کچھ جراثیم موجود ہوں اور ہمارے خشک کرنے کے عمل سے وہ ہمارے صاف ہاتھوں سے چمٹ جائیں اور کھانے کے دوران ہمارے جسم میں داخل ہوجائیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے دین نے صفائی کی کافی حد تک تعلیم وترغیب دی ہیں اور ہمیں ہرہر چیز کو صاف ستھرا رکھنے کو بیان فرمایا ہے۔مولانا پیر زوالفقار احمد نقشبندی صاحب نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ بیت الخلاء میں استنجاء یا غسل سے فراغت کے بعد گیلے ہاتھوں سے دروازے کا ہینڈل نہیں پکڑنا چاہیے اس سے ہاتھ ناپاک ہونے کا خطرہ ہوتا ہے کیونکہ گیلے ہاتھ سے اگر ہینڈل کو پکڑلیا جائے تو ہینڈل کی ناپاکی ہاتھ کو بھی ناپاک کردے گی۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک نئی تحقیق کے مطابق دنیا کی تقریباً نصف آبادی کو منہ کی بیماریاں لاحق ہیں اور یہ بیماریاں ذہنی عوارض،دل کی بیماری،ذیابیطس،سانس کی دائمی بیماری اور کینسر سے ذیادہ متاثر ہوتی ہیں۔دراصل میں منہ کی صفائی جتنی ضروری ہے اتنا ہی ہم اس سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم منہ کی صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی مسواک کرتے تھے اور امت کو بھی تاکید سے حکم دی ہے۔ذاد المعاد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات میں سے تھا کہ آپ رات سوتے وقت مسواک کیا کرتے تھے۔آج کے دور میں بھی ماہرین سونے سے پہلے منہ کو صاف کرنے کو بہت ضروری قرار دیتے ہیں کہ اس سے منہ میں موجود بیکٹیریا کم ہوسکتا ہے اور اگر رات کو مسواک نہ کیا جائے تو دانتوں کی خرابی،مسوڑھوں کی بیماری اور سانس کی بدبو کا باعث بن سکتا ہے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ابوداؤد شریف میں ہے کہ آپ رات کو آٹھ کر مسواک کیا کرتے تھے۔نیز کھانا کھانے کے بعد کلی کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت عمل ہے۔دانتوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ دانتوں کی بیماریوں سے چھٹکارا پانے کے لیے خود بھی کلی کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کا عادی بنایا جائے۔ لہذا اگر ہم آج سے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت سمجھتے ہوئے اسی طریقے سے منہ کی صفائی کا اہتمام کریں تو خود سوچے کہ پھر ہمیں منہ کا کوئی بیماری لاحق ہوسکتا ہے؟

ایک تحقیقی جائزے نے یہ ثابت کیا ہے کہ روزانہ دو میل پیدل چلنے سے ایک شخص طویل عمر پاسکتا ہے اور جو لوگ ورزش نہ کرتے ہیں ان میں 25 فیصد کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔یاد رکھنا چاہیے ایک صحت مند زندگی کے لیے ورزش اکسیر کا درجہ رکھتی ہے اس سے دل کی چربی ختم ہوتا ہے،فالج،ہائی بلڈ پریشر،ذیابیطس،کینسر وغیرہ سے نجات مل سکتا ہے۔ہم اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو یہ عیاں ہوگا کہ پیدل چلنا آپ کے سنت مبارکہ میں سے ہے۔آپ باغ کی تفریح کو پسند فرماتے تھے اور اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ سیر کے لیے جایا کرتے تھے،آپ کی چال تیز ہوتی خالی پیٹ ہوتے،اور حضرت عائشہ رض اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ بھی لگایا کرتے تھے۔اور یہی معمولات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بھی تھے۔کتب احادیث اور تاریخ کے مطالعہ سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ صحابہ کرام سبزے اور باغات کی سیر کے لیے جایا کرتے تھے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجاہدانہ زندگی تو ساری ورزش ہی تھی۔خندق کھودنا،جنگل سے لکڑی کاٹ کر لانا،گھر کے کام کاج میں گھر والوں کا ہاتھ بٹانا وغیرہ وہ کام تھے جو مسلمانوں میں ورزش کا کام کرتے تھے۔مزید یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتی اور تیراکی جیسی ورزش میں بھی حصہ لیا ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے پینے کا انداز بھی انتہائی قابل تقلید بلکہ صحت وتندرستی کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔چنانچہ ترمذی شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “کسی انسان نے اپنے پیٹ سے برا برتن کبھی نہیں بھرا۔ابن آدم کے لیے چند نوالے ہی کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو(پیٹ کے) ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے،ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے مختص کردے”۔چنانچہ اطباء کہتے ہیں اگر اس حدیث پر لوگ عمل کرلیا جائے تو بیماریوں سے محفوظ رہیں گے اور ہسپتال اور دوا فروشوں کی دکانیں بے کار ہو جائیں گے۔ایک فلسفی کے سامنے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنایا گیا تو کہنے لگا میں نے اس سے بہتر اور مضبوط بات آج تک نہیں سنی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی ابن ابی الدنیا نے کتاب الجوع میں زکر کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس امت میں سب سے پہلی جو مصیبت(بری عادت)آئی ہے،وہ شکم سیری(پیٹ بھر کر کھانا)کی مصیبت ہے۔یہ واضح اور آشکارہ ہے کہ ضرورت سے زائد کھانا بہت سی بیماریاں کا باعث ہے۔ماہرین کے مطابق زیادہ کھانے کے سبب غذا سے ملنے والی اضافی طاقت یعنی کیلوریز انسانی جسم میں چربی بن کر محفوظ ہونا شروع ہوجاتی ہیں جس کے سبب انسان موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ زیادہ کھانا بدہضمی اور پیٹ کی خرابی اسہال کا باعث بھی بنتی ہے۔کھانا کھاتے ہی سوجانے کے بارے میں زاد المعاد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھاکر سوجانے سے منع فرماتے تھے۔بلاشبہ کھانا کھانے کے فوراً بعد سونا امراض کو دعوت دینا ہے۔فزیالوجی اور پتھالوجی کے ماہرین نے اس سے منع کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کھانے کے بعد حرکت جسمانی بہت ضروری ہے اگر ایسا نہ ہو تو معدے میں پڑے ہوئے غذا متعفن ہوجائے گی اور طرح طرح کے امراض پیدا ہوگے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے آپ کے ہر طریقے پر عمل کرنے کی صورت میں دنیا اور آخرت کے کامیابی اور نجات ہیں۔ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو فرمایا کہ تمہارے بدن کا بھی تم پرحق ہے۔لہذا ہمیں صحت اور تندرستی کے بارے میں ان تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کر کے ان کو اپنا چاہیے تب ہم ایک صحت مندانہ زندگی گزار سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں