94

مغربی دنیا میں قرآن کی بے حرمتی کیوں؟/تحریر/ڈاکٹر عثمان کاظمی

اگرچہ مغربی ممالک میں ماضی میں بھی قرآن کریم کی بے حرمتی کے دلخراش اور کربناک واقعات پیش آتے رہے ہیں- 2010 میں ٹیری جونز کے ہاتھوں قرآن کی بے حرمتی کسے یاد نہیں، 2012 میں بگرام ائیر بیس اور گوانتا ناموبے جیل میں امریکن فوجیوں کے ذریعے قرآن کریم کی بے ادبی کے واقعات منظر عام پر آئے، 2019 میں “اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے” کا نعرہ لگا کر ناروے میں قرآن کو بار بار جلایا گیا، ڈنمارک میں سٹرام کرس نامی سیاسی پارٹی قرآن سوزی کی بدترین حرکتوں میں ملوث رہی- 2020 اور 2022 میں بھی سویڈن اور ڈنمارک میں کبھی قرآنی نسخوں کو جلا کر، کبھی پٹاخوں میں قرآنی اوراق استعمال کر کے اور کبھی قرآن مقدس کو پاؤں تلے روند کر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی لیکن قرآن کی بے ادبی کا حالیہ واقعہ اس لیے سنگین نوعیت کا ہے کہ اس واقعے میں سویڈن کی کورٹ نے باضابطہ طور پر قرآن سوزی کی اجازت دی تھی جس کی بنیاد پر پولیس کی حفاظت میں اسٹاک ہوم کی جامع مسجد کے سامنے سلوان مومیکا نامی ملعون نے کیمیروں کے سامنے قرآن سوزی کی بدترین حرکت کو انجام دیا۔ سویڈن حکومت اور سویڈن کورٹ کے اس طرز عمل نے مغربی دنیا کے دوغلے کردار کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا۔

یہ وہی یورپ ہے کہ جب وہ تاریخ کے تاریک ترین دور سے گزر رہا تھا اس وقت مسلم اسکالرز مختلف علوم میں اپنے جلوے بکھیر رہے تھے اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ تو بہت حد تک ان کی کاوشوں کی مرہون منت ہے اور وہاں کے دیانتدار اسکالرز آج بھی اس کے معترف ہیں۔ برطانیہ کے فاؤنڈیشن فار سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ سولائیزیشن اور نیشنل جیوگرافک سوسائٹی، واشنگٹن کے تعاون سے لکھی گئی ایک کتاب “1001ایجادات اور مسلم تہذیب کی پائیدار وراثت” میں اس کا اعتراف کیا گیا ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں مسلمانوں کی علمی و تہذیبی ترقیات کا بڑا کردار ہے۔ سائنس، طب، علم فلکیات اور ریاضی کے میدان میں مسلم اسکالرز نے جو کاوشیں کیں اور ان کے نتیجہ میں جو علمی سرمایہ وجود میں آیا، ان سب کا محرک دراصل وہ قرآنی آیات ہی تھیں جن میں ضروری علم کے ساتھ ساتھ غور و فکر اور تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی ہے۔

ڈاکٹر موریس جو فرانس کے مشہور ماہر علوم عربیہ ہیں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ “مقاصد کی خوبی اور مطالب کی خوش اسلوبی کے اعتبار سے قرآن تمام آسمانی کتابوں پر فائق ہے۔ اس کی فصاحت و بلاغت کے آگے سارے جہاں کے بڑے بڑے انشاء پرواز و شاعر سر جھکا دیتے ہیں” ایک اور جگہ کہتے ہیں “روم کے عیسائوں کو جو کہ ضلالت کی خندق میں گرے پڑے تھے، کوئی چیز نہیں نکال سکتی تھی، بجز اُس آواز کے جو غار حرا سے نکلی”-

موسیو اوجین کلاقل ایک نامور فرانسییس مستشرق ہیں۔ جنہو ں نے مسلمانوں، یہودیوں اور عیسایئوں کے مذاہب کی تحقیق میں عمر صرف کردی۔ وہ لکھتے ہیں کہ “قرآن مذہبی قواعد و احکام ہی کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ ایک عظیم الشان ملکی اور تمدنی نظام پیش کرتا ہے”۔

انگلستان کے نامور مؤرخ ڈاکٹر گبن اپنی تصنیف ”انحطاط و زوال سلطنت روما” میں لکھتے ہیں کہ “قرآن کی عظمت کو بحر اطلانتک سے لے کر دریائے گنگا تک سب نے مان لیا ہے کہ وہ ایسے دانشمندانہ اصول اور عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب ہوئی کے سارے جہان میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی”۔

یہ تو چند ایک مثالیں ہیں ورنہ الکس لولزون، موسیو سیدلو، موسیو گاسٹن کار، جو ایکمردی بولف، ای ڈی ماریل، مسٹر رچرڈسن اور پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ سمیت سینکڑوں ایسے مستشرقین ہیں جو قرآن کی عظمت کے قائل نظر آتے ہیں-

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مغربی دنیا قرآن کریم کی بے ادبی اور توہین کی مرتکب کیوں ہوتی ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں- یورپ میں مختلف معاشرتی رویوں کے لوگ بستے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ اسلام اور قرآن مجید کے بارے میں درست معلومات نہ ہونے کی بنا پر سخت غلط فہمیوں کا شکار ہیں- ان غلط معلومات کی بنا پر مسلمانوں کو خوفناک اور خطرناک قرار دیا جاتا ہے- وہ قرآن مقدس کی تعلیمات کو اپنے اصولوں اور روایات کے خلاف سمجھ بیٹھتے ہیں اور نتیجتاً وہ اسے تحقیر کا نشانہ بنا کر اپنے نسلی اور مذہبی تعصبات کو تسکین پہنچاتے ہیں- اسلاموفوبیا کے شکار یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے شعائر کو مثبت انداز سے دیکھنے کی بجائے منفی رویوں اور نفرت کو ترجیح دیتے ہیں۔

بعض اوقات قرآن مجید کی بے حرمتی کا سبب یہ بات بھی بنتی ہے کہ یورپ میں اسلام کے مقبول ہونے اور مسلمانوں کی تعداد بڑھنے سے یورپ کے مذہبی اور معاشرتی رویے متاثر ہوں گے- یہ بات اُنہیں بہت زیادہ کھٹکتی ہے اور یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو وہاں پنپ رہی ہے حالانکہ محبت، امن اور بھائی چارے کا جو پیغام قرآن نے پوری انسانیت کو دیا ہے وہ تمام مذاہب عالم میں منفرد حیثیت کا حامل ہے- مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اہداف کے حصول کے لئے بھی قرآن کی بے حرمتی کرتی ہیں۔ مسلم دشمنی کے نام پر اقتدار اور شہرت کا حصول قدرے آسان ہوتا ہے اس لیے یہ لوگ آئے روز ایسی بدتمیزیاں کرتے رہتے ہیں۔

قرآن سوزی کر کے وہ مسلمانوں کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ ان کی مقدس کتاب اور مقدس شخصیات کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ اپنی کتابِ مقدس اور صاحب کتاب کی ناپاک توہین کے خلاف ردعمل کرنا چھوڑ دیں ۔وہ بتدریج مسلمانوں کے دلوں سے شعائر اسلام کا تقدس اور ادب ختم کرنا چاہتے ہیں- مسلمان اگر خاموش رہیں تو ان کی ہمت اور بڑھتی ہے اور اگر ردّ عمل ظاہر کردیں تو شدت پسندی اور دہشت گردی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں ایک انوکھا رد عمل سامنے آیا- ایک شخص کو سٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارتخانے کے باہر تورات جلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس شخص نے مظاہرے کے روز ایسا نہیں کیا اور کہا کہ وہ بتانا چاہتا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں جنھیں مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ جب کوئی مسلمان کسی مذہبی کتاب کو نذر آتش نہيں کرتا، اسے پیروں تلے نہیں روندتا، اس کے اوراق کو پارہ پارہ نہیں کرتا، تو پھرکسی اور شخص کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ قرآن کریم کی بے حرمتی کرے-

یہ آزادی اظہار کا کیسا حق ہے جس سے 1.8 بلین مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو، جس سے نسل پرستی، زینو فوبیا اور عدم برداشت کی بو آتی ہو اور جس سے دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہو- اگرچہ یورپی یونین نے سویڈن میں ہونے والی قرآن کی بے حرمتی کو “ایک اشتعال انگیز عمل” قرار دیا ہے لیکن جب تک وہ آزادی اظہار رائے اور توہین کے مابین ایک واضح لکیر نہیں کھینچ دیتے اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے- مسلم دنیا کے خلاف نفرت سے بھرپور بیانیے کے زہر کو کم کرنے کے لیے جس طرح اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن ڈیکلئر کیا اسی طرح مذہبی منافرت اور قرآن کی توہین کے واقعات کو روکنے کے لیے سخت بین الاقوامی قوانین کا اطلاق بھی ضروری ہو گیا ہے-

اس طرح کے واقعات کے بعد اسلامی ممالک میں حکومتی اور عوامی سطح پر احتجاج کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، وقتی طور پر متعلقہ ملک سے سفارتی شکایت درج کرائی جاتی ہے، اگر ان کے سفیر کو ملک بدر کرنا ممکن نہ ہو تو بطور احتجاج اپنا سفیر واپس بلا لیا جاتا ہے اور اگر اور زیادہ کر لیں تو او آئی سی کا ایک اجلاس بلا کر مذمتی قرارداد پاس کر دی جاتی ہے لیکن اس سب کے باوجود إسلاموفوبيا کے تناسب میں کوئی کمی نہیں آتی تو اس کا مطلب صاف واضح ہے کہ اب ہمیں احتجاج سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنے کی ضرورت ہے- ہمیں قرآن سے عملی وابستگی اختیار کرنے اور غیر مسلموں تک قرآن کے تراجم پہنچانے کی ضرورت ہے- ایک ایسے وقت میں جب مذہبی رواداری کا فروغ اور بین المذاہب ہم آہنگی کا عملی طور پر قیام نا ممکن نظر آ رہا ہے، بین المذاہب مکالمہ جات کو فروغ دیا جائے جہاں غیر مسلموں کے اعتراضات کے جوابات علمی اور عقلی انداز میں دیئے جائیں- تدوین قرآن، نظم قرآن اور اسلوب قرآن پر سیمینارز کا انعقاد اور قرآنی موضوعات پر ڈاکومینٹریز تیار کروانے جیسے اقدامات کر کے مخالفین اسلام کو بہتر انداز میں جواب دیا جا سکتا ہے-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

مغربی دنیا میں قرآن کی بے حرمتی کیوں؟/تحریر/ڈاکٹر عثمان کاظمی“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں