88

مژدہ جانفزا، پاک فضائیہ/تحریر/طاہر ایوب جنجوعہ

دنیا کی عسکری تاریخ گواہ ہے کسی بھی فوج کی اصل طاقت تعداد اور جدید ہتھیار نہیں بلکہ عوام کی اپنی فوج کے لیے لازوال محبت اور غیر متزلزل حمایت ہوتی ہے۔ جنگ ہو یا امن پاکستان کی مسلح افواج نے کسی مشکل کی کسی بھی گھڑی میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑا نہ کبھی عوام اور مسلح افواج کے مابین براہ راست رابطوں میں کسی خلیج کو حائل ہونے دیا ہے۔ آج بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ افواج پاکستان اور خصوصاً فضائی افواج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے ایک مژدہ جانفزا ہے

جدید ریاست کے اجزائے ترکیبی کا ایک لازمی جزو جغرافیہ ہے۔ جس کے بغیر ایک قوم کا وجود ایک طرح سے خلا میں معلق رہتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ نامکمل اور ادھورا ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے مسلمانان برصغیر ہندوؤں اور ا نگریزوں کے ساتھ کئی صدیوں تک ایک قوم کی حیثیت سے تو رہے, لیکن اپنی مذہبی و سیاسی اظہار آزادی اور بحیثیت مسلمان قوم اپنا تہذیبی وجود منوانے میں ناکام رہے۔ یہ اگست 1947 کا معرکہ تھا کہ انہوں نے نہ صرف جغرافیائی سطح پر اپنا تہذیبی وجود منوایا بلکہ دور جدید کے ریاستی تقاضوں پر پورا اترتے ہوئے دنیا کے نقشے پر ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست کا اضافہ کیا۔
جغرافیے کی اس غیر معمولی اہمیت کے پیشِ نظر ، مذہب ہو یا سیکولر نظریہ، سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ریاست کو اپنے جغرافیے کے تحفظ اور دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ اور اس کا یہ حق بھی مسلمہ ہے کہ وہ بیرونی خطرات سے بچنے کے لئے ضروری دفاعی قوت کا اہتمام کرے۔ دفاع کے تصورات, ہتھیار, انداز اور طریقہ کار تمدنی ارتقا کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے مگر انسان کی معلوم تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں کہ قوموں نے اپنے جغرافیائی وجود سے چشم پوشی یا اس کی حفاظت کے اسباب نہ کیے ہوں۔ اور اگر کسی نے کسی موقع پر تساہل یا کمزوری برتی تو یقیناً اسے جارح قوتوں کے ہاتھوں اپنا تہذیبی وجود اور اپنی حقیقی پہچان و شناخت ہمیشہ کے لیے کھونا پڑی۔
انہی جدید ریاستی اصولوں کے پیش نظر افواج پاکستان کو ریاست پاکستان کے دفاع کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ جسے اس دھرتی کے بیٹوں نے آج تک نہ صرف پوری جگرداری سے پورا کیا بلکہ اپنی ہمت جرات اور جواں مردی سے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا لوہا دنیا بھر میں بھی منوایا, یہی وجہ ہے کہ آج دنیا افواج پاکستان کو اس خطہ ارض کی ساتویں بڑی طاقتور فوج کے طور پر جانتی ہے۔
ہمارے دفاعی حصار کا ایک نہایت اہم اور قیمتی جزو پاک فضائیہ ہے۔ فضائی افواج کسی بھی ملک کے دفاع کا ایک ایسا جزو لاینفک ہے جس کے بغیر آج کوئی بھی ملک یا ریاست اپنا آزاد اور خود مختار وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری افواج میں فضائیہ نہ صرف ایک چاک و چوبند مستحکم دفاعی ادارہ ہے بلکہ پاک فضائیہ کی اعلیٰ قیادت نے اپنے تمام سینئر جونیئر افسران، ایئر مینز اور سویلین سٹاف کی پیشہ ورانہ تربیت کو روزِ اول سے ہی بلند اور اعلیٰ معیار پر فائز کر رکھا ہوا ہے۔ جس کا پیہم ثبوت ہر مشکل اور کڑے وقت میں پاکستان کے بلند پرواز سر بکف مجاہدین افلاک شاھینوں نے ہمت جرأت اور استقلال کی صورت میں بارہا پیش کیا۔
پاک فضائیہ کے پائلٹوں کا شمار دنیا کے بہترین پائلٹس میں ہوتا ہے۔ پاکستانی ہوا باز اردن، مصر اور عراق کی فضائیہ کی جانب سے بھی لڑ چکے ہیں, اور اسرائیلی فضائیہ کے 3 جنگی جہازوں کو مار گرانا بھی ان کے کارناموں کی فہرست میں شامل ہے۔ جبکہ اس مشن میں ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا اور اسرائیلی پیش قدمی رکنے کی سب سے بڑی وجہ بھی قرار پائے۔
جنگ ستمبر میں بھارتی فضائیہ کے مقابلے میں پاک فضائیہ کی حیثیت ایک فلائنگ کلب سے زیادہ کی نہ تھی۔ جس کے پاس فضا میں لڑنے کے لئے پرانی طرز کے چند سیبر طیارے تھے وہ بھی اس کی تعداد کے ایک چوتھائی برابر, لیکن ایک ہتھیار ایسا تھا جس کا دشمن تصور بھی نہ کر سکتا تھا اور وہ تھا قرآن میں سورة الانفال کی وہ آیت جس میں مسلمانوں کی کم تعداد پر حوصلہ اور فتح کی بشارت دی گئی ہے۔ جس میں ارشادِ ربُّ العزت ہے کہ ”اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم رہیں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ایک سو آدمی ہوں گے تو ایک ہزار کفار پر غالب رہیں گے۔ بے شک ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔” جنگ شروع ہوتے ہی اس آیت کا ورد شروع ہوا اور اس کی ایک نقل سب شاہینوں کو پڑھنے کے لیے دی گئی۔
یکم ستمبر کو چھمب جوڑیاں کے محاذ پر بھارت نے پوری طاقت کے ساتھ حملہ کیا, چارمسٹیئر اور دوکینبرا پاک فوج کی پیش قدمی روکنے کے لئے بھیجے گئے۔ ادھر سے صرف دو عقاب مقابلے کے لئے نکلے۔ چشم فلک اور دونوں طرف سے لڑتی ہوئی زمینی فوجوں نے دیکھا کہ دو سیبر طیارے کیل کانٹوں سے لیس دشمن کے مقابل، ایسے بے جگری سے لڑے کہ چند لمحوں میں ہی چار مسٹیئر طیاروں کے پرخچے اڑا دیے۔ جب کی دو کینبرا طیارے دُم دبا کر ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا۔۔ اس معرکے نے ہمارے شاہینوں کا مورال اور حوصلہ آسمانوں کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ دو ستمبر کو ایم ایم عالم اور دوسرے شاہینوں نے ایک بار پھر دشمن کو فضا میں دھول چٹائی, تین ستمبر کو دشمن کے چھ جیٹ طیارے پھر چھمب جوڑیاں کے محاذ پر آئے۔ ادھر سے دو سٹار فائٹر F-104 پہنچے تو آمنا سامنا ہونے سے پہلے ہی پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ مگر پھر بھی اُن میں سے ایک کو گھیر کر پسرور میں اُتار لیا گیا۔ جس کا لڑاکا فائٹر سکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ سکند تھا۔ سکند کو پانچ ماہ قیدی رکھ کر چھوڑ دیا گیا۔ جو بعد میں بھارت کا ائیر مارشل بھی بنا۔
چھ ستمبر کو دونوں ملکوں میں کھلی جنگ شروع ہو گئی, لاہور واہگہ بارڈر پر گھمسان کا رن تھا, جہاں پاک فضائیہ کی اشد ضرورت محسوس ہوئی, شاہینوں نے اسی روز ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر بری افواج کی پشت پر پہنچ کر انہیں تحفظ فراہم کیا, اسی شام پاک فضائیہ کی ایک پرواز آدم پور بھیجی گئی جو تین بھارتی طیاروں کو تباہ کر کے آئی۔ اور ساتھ ہی جام نگر کے ہوائی اڈے پر بمباری شروع کردی گئی۔ جس سے وہ اڈہ ملبے کاڈھیر بن گیا۔ اگلے روز B-57 بمبار طیاروں نے آدم پور پر حملہ کیا اور خوب تباہی مچائی۔ بمباروں کی ایک اور پرواز پٹھان کوٹ بھیجی گئی جنہوں نے وہاں کی رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
انڈین ایئر فورس پہلے ہی جھٹکے میں بائیس بمبار لڑاکا طیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی، جس سے پاک فضائیہ کو نہ صرف نفسیاتی برتری حاصل ہوئی بلکہ دشمن کے دل پر ایسی دھاک بٹھائی کے اگلے دن وہ راولپنڈی اورکراچی کے ہوائی اڈوں پر حملوں میں بری طرح پسپا ہوا اور بھاگنے میں عافیت جانی۔ 7 ستمبر کو انڈین ایئر فورس نے مشرقی پاکستان میں ڈھاکا، جیسور اور چاٹ گام پر راکٹ اور بم برسائے لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا جبکہ وہاں پاک فضائیہ کا صرف ایک سکواڈرن تھا، جیسے ہی بھارتی طیارے واپس لوٹے شاہین کلائی کنڈہ کے ہوائی اڈے پر جا کر جھپٹے۔ بھارتی طیارے بڑی ترتیب  میں لقمۂ تر بننے کے لئے تیار کھڑے تھے۔ عقابوں نے ان تمام طیاروں کو حملہ آور ہو کر نیست و نابود کردیا۔ سات ستمبر کو ہی بھارتیوں نے سرگودھا کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا اور بمباری کے لئے اپنے طیاروں کو بار بار بھیجا، اُن میں سے چار مسٹیئر زمینی توپچیوں نے اڑا دیئے اورایک کو F-104 سٹار فائٹر نے زمین بوس کردیا۔ اور پانچ سکواڈرن لیڈر ”ایم ایم عالم” نے صرف ایک منٹ میں گرا کر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ اس دن سے لے کر آج تک انڈین ائیر فورس نے دن کی روشنی میں سرگودھا پر حملہ کرنے کی کبھی جرأت نہیں کی۔
پاک فضائیہ نے نہ صرف فضائی برتری حاصل کی بلکہ زمینی افواج کی پیش قدمی کی راہ بھی ہموار کی۔ 8 ستمبر کو بھارت نے زخمی سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے ایک بکتر بند ڈویژن اور بھاری ٹینکوں کے ساتھ چونڈہ سیکٹر سے سیالکوٹ پر حملہ کیا, اس روز پاک فضائیہ کی تقریباً بیس سے زائد پروازیں ایسے اڑیں کہ پائلٹوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر درختوں کی بلندیوں تک نیچے آ کر بھارتی ٹینکوں اور گاڑیوں پر تاک تاک کر نشانے باندھے اور چونڈہ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا، یہ حقیقت ہے کہ اس روز فضائیہ نہ ہوتی تو دشمن کے اس لوہے اور آگ کے خطرناک سیلاب کو روکنا ناممکنات میں سے تھا۔
20 ستمبر تک یہ حالت ہو چکی تھی کہ شاہینوں کو کئی کئی سو کلومیٹر تک کی پرواز میں بھارتی فضائیہ کا کوئی ایک طیارہ بھی نظر نہ آتا تھا۔ یہاں تک کہ شاہینوں نے ان کی فضائی حدود کے اندر گھس کر ان کے کئی مزید شکار کیے۔
بائیس اور تئیس ستمبر کی درمیانی رات کو صبح تین بجے جنگ بندی ہوگئی۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل نور خان کہا کرتے تھے کہ ” بھارت سے جنگ لڑنے کے بعد پاک فضائیہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گئی۔”
المختصر یہ کہ پاک فضائیہ نے جنگ ستمبر سے لے کر آج تک نہایت محدود وسائل اور بے شمار اندرونی بیرونی چیلنجز کے باوجود ریاست پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاک فضائیہ کی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہماری فضائیہ بالکل گراؤنڈ ہونے کے دہانے پر تھی۔ امریکی پابندیوں کے خوف سے دنیا کا کوئی بھی ملک نہ تو پاکستان کو جنگی طیارے بیچنے پر رضامند تھا نہ پرانے ایف 16 طیاروں کے لیے سپیئر پارٹس مہیا کرنے کو تیار تھا۔ اس بے سرو سامانی کے عالم میں بھی پاک فضائیہ نے نہ صرف ہماری سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنایا بلکہ صرف 8 سال کے قلیل عرصے میں چین کی مدد سے دنیا کا جدید ترین جے ایف تھنڈر 17 طیارہ بنا کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ وہی جے ایف 17 تھنڈر ہے جس کی مدد سے پاکستانی شہبازوں نے 2019 میں اپنے ازلی دشمن کی ایک اور ناپاک جسارت کا ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ جیسے کسی کو زناٹے دار تھپڑ پڑا ہو۔
ملک کو اندرونی سطح پر درہیش مختلف چیلنجز جیسا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پاک فضائیہ نے نہ صرف دیگر فورسز کے شانہ بشانہ قربانیاں دیں, بلکہ کائنیٹک آپریشنز کے ذریعے نہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور انفرا اسٹرکچر کو ختم کیا وہیں سر ویلنس اور ٹارگٹڈ فضائی کارروائیوں میں دہشت گرد گروپوں کی قیادت کو نشانہ بنا کر دہشت گرد عناصرکی کمر توڑ دی۔
دنیا کی عسکری تاریخ گواہ ہے کسی بھی فوج کی اصل طاقت تعداد اور جدید ہتھیار نہیں بلکہ عوام کی اپنی فوج کے لیے لازوال محبت اور غیر متزلزل حمایت ہوتی ہے۔ جنگ ہو یا امن پاکستان کی مسلح افواج نے کسی مشکل کی کسی بھی گھڑی میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑا نہ کبھی عوام اور مسلح افواج کے مابین براہ راست رابطوں میں کسی خلیج کو حائل ہونے دیا ہے۔ آج بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ افواج پاکستان اور خصوصاً فضائی افواج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے ایک مژدہ جانفزا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں