آج ملک میں دیہاڑی دار اور مفلوک الحال طبقہ پٹرول 290 روپے فی لیٹر خرید رہا ہے اور 6،5 لاکھ سے بھی زائد ماہانہ آمدنی والی اشرافیہ کے لیے یہی پٹرول مفت ہے۔
ہمارا مسئلہ ہے کہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہنے کی رسم کا جادُو ٹوٹنا تو دور کی بات بل کہ اس کاجادو،سر چڑھ کر بولنے کی حدود بھی تجاوز کرچکا ہے۔وطنِ عزیز کے نام نہاد سربراہ ہی سوہنی دھرتی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔انھیں نہ معلوم کب اپنی روش بدلنے کا خیال آئے گا؟شاید کوئی کبشہ نامی خاتون آئے گی اور انھیں غیرت کی پڑیا دے گی۔کبشہ کے غیرت دلانے کا پس منظر پڑھیے!!عربی ادب کی معروف کتاب “دیوان حماسہ” میں ہے کہ قبیلہ بنو زبید کے سردار عبد اللہ بن معدیکرب کو مازنی لوگوں نے قتل کردیا،بعد ازاں وہ مقتول کے بھائی عمرو بن معدیکرب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے ایک بے وقوف نے آپ کا بھائی قتل کردیا ہے۔آپ ہم پر رحم کھائیں! قصاص نہ لیں! دیت قبول کرلیں!عمرو کا بھی ارداہ بنا کہ قصاص چھوڑ کر،دیت قبول کرلی جائے۔اس کے ارادے کا کسی طرح اس کی بہن کبشہ کو پتا چل گیا تو اس نے عمرو کو قصاص پر ابھارنے کے لیے کچھ اشعار کہے۔ان میں سے ایک شعر یہ بھی تھا۔ودع عنک عمرا ان عمرا مسالم وھل بطن عمرو غیر شبر لمطعمعمرو کو تو چھوڑ دو! اسے تو صلح کی پڑی ہوئی ہے۔ *کیا اس کا* *شکم کھانے کے لیے ایک* *بالشت سے زائد ہے؟؟* مطلب تھا کہ پیٹ تو ایک بالشت کا ہی ہوتا ہے ،وہ تو ایک وقت کی روٹی سے بھر ہی جاتا ہے۔اتنی دیت لے کر کیا کرے گا؟؟عمرو کو یہ سن کر بڑی غیرت آئی اور اس نے اہل مازن پر ایک بھرپور حملہ کیا اور اپنے بھائی کا بدلہ لے لیا۔آج ملک میں دیہاڑی دار اور مفلوک الحال طبقہ پٹرول 290 روپے فی لیٹر خرید رہا ہے اور 6،5 لاکھ سے بھی زائد ماہانہ آمدنی والی اشرافیہ کے لیے یہی پٹرول مفت ہے۔آج ملک میں مزدور پیشہ افراد بجلی ناقابلِ برداشت حد تک مہنگے داموں میں استعمال کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور سربراہان مملکت “مال مفت دل بے رحم” کا مصداق بنے اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں۔اشیائے خورد و نوش کے آسمانوں سے باتیں کرتے نرخ، عوام کی رات کی نیند اور دن کا سکون کا ختم کرچکے ہیں مگر مجال ہے کہ اس ملک کے وڈیروں کے کان پر جوں تک بھی رینگتی ہو۔پھر صد افسوس تو یہ ہے کہ وہ اس کے باوجود بھی کرپشن جیسی لعنت سے باز آنے کو تیار نہیں ہیں۔ *کیا ان کا شکم کھانے کے لیے ایک بالشت سے زائد ہے؟* خدادارا!! اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات بدلیں،دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کریں،انھی لوگوں کو ریلیف دیں جنھیں ریلیف دینے کی اشد ضرورت ہے اور بجلی کے بلوں سے ظالمانہ ٹیکس ختم کریں اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے مضبوط،پائیدار اور مفید پالیساں وضع کریں!! نہیں تو خاکم بدہن حالات کا بہاؤ اور تناؤ اسی طرح جاری رہا تو صورت حال کسی کے قابو میں نہیں رہے گی۔