ہمارے پرکھوں نے جان مال اور عزت کی قربانیاں دے کر ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تھی،اور پھر ایک نسل وہ تھی جس نے اس نو زائیدہ ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے اپنا تن من دھن قربان کر دیا تھا،
لیکن آج کی نسل اس بات سے نا واقف ہے کہ زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے ہمارے آباؤاجداد نے آگ اور خون کا دریا عبور کیا تھا،
ماؤں نے شیر خوار بچے قربان کئے تھے،
سہاگنوں کے سہاگ لٹے تھے،
جوانوں کی جوانیاں خاک ہوئی تھیں تو تب یہ منزل مراد ملی تھی،
کلمے کی بنیاد پہ یہ خوبصورت خطۂ زمین حاصل کیا گیا تھا،
مقصد اسلامی ریاست کا قیام تھا جہاں ہم اپنی پوری مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں، جہاں اقلیتوں کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو،
یہ خواب تھا اقبال کا اور اسے تعبیر کی صورت محمد علی جناح اور اس وقت کی سیاسی قیادت نے دی،
لیکن بدقسمتی سے آج پاکستان جس موڑ پہ کھڑا ہے وہاں ہم شخصیت پرست بن چکے ہیں،
ہمارے لئے ہمارا لیڈر اہم ہے،لیڈر پہ کوئی حرف نہ آئے،
ہماری سوچ یہ ہے کہ مسند اقتدار پہ صرف ہمارا پسندیدہ لیڈر ہوگا تو ہم محب وطن ہونے کا ثبوت دیں گے ورنہ ہم سب کچھ جلا کر راکھ کر دیں گے،
توڑ پھوڑ کریں گے،املاک کو ملیا میٹ کر دیں گے،
پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں سیاسی استحکام نصیب نہیں ہو سکا،
اور عوام ایک قوم نہیں بن سکے،
سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں،اپنا ایجنڈا ہے،
جب ہم ایک قوم بن کر سوچیں گے تو تب سب سے پہلے پاکستان ہوگا،
حکمرانوں کی بے حسی پہ ماتم کرنے کے بجائے ہم سب سے پہلے اپنے ملک کی ترقی کے لئے سوچیں،اپنے ملک کی بہتری کے لئے کام کریں،
طالب علم ہیں تو دل لگا کر تعلیم حاصل کریں،امتحان میں نقل نہ کریں،
اپنی بھرپور ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر تعلیم حاصل کریں تاکہ ملک کے مفید شہری بن سکیں،
اگر ہم کہیں کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں تو وہاں پہ بھی ہم ایمان داری سے کام کر کے اپنے ملک کی بہتری اور نیک نامی کے لئے کام کر سکتے ہیں،
نہ رشوت لیں اور نہ رشوت دیں،
ہمارے ملک کی ترقی میں رکاوٹ رشوت بھی ہے کیونکہ رشوت کی وجہ سے کبھی بھی حق دار تک اس کا حق نہیں پہنچتا،
ہمارے اداروں میں پھیلی بدنظمی اور بے انصافی کی سب سے بڑی وجہ ہم خود ہیں،
ہمیں چور راستے چاہئیں،
سب سے پہلے مجھے اپنا فرض سمجھنا ہوگا،
پھر فرد،معاشرہ اور قوم کی باری آئے گی،
ہم جہاں بھی ہوں وہاں اپنی ذمہ داری کا احساس ہمیں باوقار بناتا ہے۔۔۔۔!!
ہسپتال میں ہم مریض ہیں تب بھی اور اگر ڈاکٹر یا نرسنگ سٹاف ہیں تب بھی ہمارے کچھ فرائض ہیں،
ہم سڑک پہ چل رہے ہیں تب بھی ہمیں اپنے ملک کا باوقار شہری بننا ہے بدنامی کا باعث نہیں بننا،
کچرا ہمیشہ کچرا دان میں ڈالیں،
سڑک پہ راستوں میں مت تھوکیں،صفائی نصف ایمان ہے اس کا عملی مظاہرہ کریں،
چیخیں چلائیں نہیں،اپنی زبان کا خیال رکھیں،گالم گلوچ نہ کریں،
ٹریفک قوانین کی پابندی ہر حال میں کریں،
تاکہ ہم ایک مہذب اور منظم قوم کے طور پہ اپنے ملک و قوم کی نمائندگی کریں،
دنیا میں ہماری پہچان ہمارا خوب صورت طرز عمل ہو،
پاکستان چاروں موسموں سے مزین خوبصورت خطۂ زمین ہے،
کراچی جیسا ساحلی شہر ہمارا ہے،
آسمان کو چھوتی ہوئی برفانی چوٹیاں ہمیں میسر ہیں،
شمالی علاقہ جات جو قدرتی حسن سے مالا مال ہیں ہمارے وطن کا حصہ ہیں،
پہاڑ دریا جنگل اللہ تعالیٰ نے ہر ہر چیز اس خوبصورت خطۂ زمین کو عطا کی ہے،
ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی آزادی اور اپنے ملک کو اپنی بقاء سمجھیں،
اس وطن کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں،
یہ زمین ہماری پہچان ہے،
یہ وطن ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہونا چاہئے،
اور اگر کبھی کوئ ایسا وقت آ جائے کہ ہمیں قربانی دینی پڑے تو اپنے ملک کے لئے کسی بھی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹیں،
لیڈر پرست نہیں وطن پرست قوم بننا ہو گا،
کیونکہ۔۔۔۔۔!!
میری زمین میرا آخری حوالہ ہے،
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کردے
میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرا خدا
اجاڑ دے میری مٹی کو در بدر کر دے،
پاکستان زندہ باد،پائندہ باد