اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ آقا کریمؐ کا دنیا میں تشریف لانا نعمت کبریٰ ہے اور یہ فطری بات ہے کہ اس پر ہر وہ مخلوق خوشیاں منائے گی جس کو اس نعمت کے ملنے کا احساس اور قدر ہے۔اسلام ہمیں کہیں بھی بے ہدایت نہیں چھوڑتا۔سفر و حضر ہو یاموجِ بحر،فتح و نصرت ہو یارنج و الم اسلام ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ہم مسلمانوں کو ایک تو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ ابھی تک کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ہزار عقلی و شرعی دلیلوں کے باوجود نبیؐ پاک کی ولادت کی خوشی کو نہیں مانتے اور فضول بحث سے اس کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے جلوس کی وجہ سے سڑکیں بند ہو جاتی ہیں،جیسے جھنڈے وغیرہ اور تزئین و آرایش پر خرچ کر کے فضول خرچی ہوتی ہے، اورجیسے یہ کہ نبیؐ پاک کی ولادت با سعادت ۲۱نہیں ۹ ہے یا کوئی کہتا ہے ۸ ہے وغیرہ وغیرہ۔خیر ان کے بڑے مدلل جوابات موجود ہیں اور ایسے ہیں کہ کوئی جاہل ہی رد کر سکتا ہے۔اور یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ سمجھ بوجھ بھی توفیق خداوندی ہے اور ہر ایک کے حصے میں نہیں آتی۔اگر اپنی مرضی کی ہر خوشی اپنے طریقے سے منانے والا حضوؐر سرور کائینات کی آمد کی خوشی کو خوشی نہ سمجھے تو اسے کیا سمجھائیں؟اگرسارا سال دکان کاآدھا سامان باہر لگا کر بازار تنگ کر نے والا اورناجائز تجاوزات کے زریعے راستے روکنے والا اور اس ظلم پر خاموش رہنے والا بھی قومی چھٹی ہونے کے باوجود جلوس کے گذرنے کے مختصر سے دورانیے پر شکوہ کرے تو اسے کیا سمجھائیں؟اگر کوئی تاریخ کے تعین پر جھگڑا کرنے والے کو اس کی مرضی اور تحقیق سے مطابقت رکھنے والے دن میلاد منانے کا کہا جائے اور وہ آئیں بائیں شائیں کرتا ہوا کان لپیٹ کر نکل جائے تو اسے کیا سمجھائیں؟ اس لیے ایسے لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا ہی کر سکتے ہیں اور خاموشی ہی بہتر ین سمجھانا ہے۔اور یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ان کا دماغی مسئلہ ہے لیکن جو بڑا سنگین مسئلہ اب ہمیں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ میلاد منانے والے کچھ نا تربیت یافتہ طبقات جو کہ بد قسمتی سے دینی علوم سے نا آشنا اور علمائے اکرام کی سنگتوں اور محفلوں سے محروم ہیں، کی طرف سے میلاد شریف میں غیر شرعی کاموں اور عجیب و غریب خرافات کا شامل کرنا ہے جو انتہائی توہین آمیز ہیں اور بجائے حصولِ ثواب کے الٹا حصول گناہ کا موجب ہیں اور ہمارادین سختی سے ہمیں ایسے امور سے اجتناب کا حکم دیتا ہے۔اور منکرین میلاد جن کے پاس کوئی اور دلیل تو ہوتی نہیں تو وہ ایسی ہی چند چیزوں کو بنیاد بنا کر سرے سے ہی میلاد شریف کی خوشی منانے کا انکارکر دیتے ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کا مسجد سے جوتا غائب ہو جائے تو وہ کسی فردِ واحد کے فعلِ بد کو برا کہنے کی بجائے مسجد میں جانے کو ہی غلط قرار دے دے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو چیزیں میلاد شریف کے جلوس میں خراب نظر آتی ہیں وہی سارا سال نجانے کہاں کہاں کن کن موقعوں، محفلوں،پارٹیوں،سیاسی جلسوں اور شادیوں پرہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور کئی جگہ تو یہ خود بھی ایسی محفلوں اور پارٹیوں کا حصہ ہوتے ہیں لیکن یہ نام نہاد اسکالرز اور ارسطو طبیعت افرادایک جملہ تو کیا ایک لفظ بھی اعتراض میں نہیں کہتے۔ ان کے اندر کا مُصلح بھی صرف میلاد کے موقع پر ہی زندہ ہوتا ہے۔غلط کو تو ہم سب بھی اور ہمارے اکابرین بھی غلط ہی کہتے ہیں اور یہ کیسی حیرت کی بات ہے کہ انہیں ہامرے علماء کی طرف سے ان کا منع کرنا اور ان خرافات سے اعلان برات کرنا نظر ہی نہیں آتا۔ہمارے علماء ببانگِ دہل یہ سمجھا رہے ہیں کہ یہ ڈھول ڈھمکے،یہ بینڈ باجے،یہ ناچ گانے،یہ گھوڑے نکالنے،یہ مخلوط محفلیں،یہ خواتین کی طرف سے بے پردگی،خواتین کی محافل کے اشتہارات،یہ گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھنا،یہ ریٹ فکس کرنے والے نعت خواں اور بھڑکیلے زنانہ طرز کے لباس پہن کر میوزک کے ساتھ نعتیں پڑھنا سب توہین مذہب ہے اور شدید الفاظ میں ان کی مذمت کی بلکہ اب تو شدید مرمت کی ضرورت ہے۔اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے اسلاف اور اکابرین سب مل کر ایک اجتماعی پریس کانفرنس کریں یا کم از کم اپنے اپنے پلیٹ فارمز اور چینلز سے دو ٹوک الفاظ میں ان سے ایسے اعلان لا تعلقی کریں کہ پوری دنیا میں اہلسنت کا موقف واضح ہو جائے اور پھر کوئی مسلک حق پر کوئی انگلی اٹھائے تو اس کا بھرپور منہ توڑ جواب دیا جائے۔یہ کیا کہ ہر بدعت وخرفت ہمارے ہی کھاتے میں پڑ جاتی ہے۔یاد رہے کہ درباروں پہ سجدے کرنے سے لے کرمیلاد شریف کے جلوس میں ہونے والے ہر غیر شرعی کام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ہمارے علماء بڑے پر خلوص انداز میں اس کی اصلاح کر رہے ہیں اور بہتری کی قوی توقع ہے۔بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ پوری امت نبیؐ پاک کی آمد کی خوشی منانے پر متفق ہو اور آئیں سب مل کر ہم ان خرافات کا خاتمہ کریں۔اوراگر یہ نہیں تو پھر یاد رہے کہ چند غلط کاموں کو بنیاد بنا کر میلاد شریف کا انکار کبھی نہیں ہو سکتا۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل