100

میڈیا کا کردار اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات/تحریر/محمد طاہر علی حیدر/کراچی

ابلاغ کی تعریف:
اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کے عمل کو ابلاغ کہتے ہیں
انگریزی میں ابلاغ کے لیے کمیونیکیشن کا لفظ استعمال ہوا ہے جو لاطینی لفظ کیمونس سے نکلا ہے جس کا مطلب خیالات میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
عربی میں لفظ بلغ آیا ہے جس کے معنی پہنچانے کے ہیں اور اسی سے تبلیغ بنا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ
اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو(سورہ المائدہ۔67)

اردو لغت میں اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے
بات، پیغام، خیالات، عقائد یا علوم وغیرہ دوسرے تک بھیجنے یا پہنچانے کا عمل۔
دوسرے معنی بیان کیے گئے کہ تقریر،تحریر،یا علامت و اشاعت کے ذریعے تبلیغ کرنا۔
انگریزی میں لفظ کمیونیکیشن استعمال ہوا ہے اس کے معنی ہیں
The importing convey or exchange of
Ideas, knowledge, informationetc (what them by speech, writing or signs

Introduction to mass communication
کے مصنف نے ابلاغ کی تعریف یوں کی ہے
Communications is the act of transmitting ideas and attitudes from one person to another

ایک مصنف ابلاغ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
ابلاغ اس ہنر یا علم کا نام ہے جس کے ذریعے کوئی شخص کوئی اطلاع، خیال یا جزبہ کسی دوسرے تک منتقل کرتا ہے،
اسی طرح موثر ابلاغ کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کیا گیا ہے اور اس کو ذرائع ابلاغ کا نام دیا گیا ہے انگریزی میں اس کے لیے لفظ میڈیا استعمال کیا جاتا ہے اور یہی سے میڈیا کی کئی اقسام بھی وجود میں آئی ہیں جیسے پرنٹ میڈیا،الیکٹرانک
میڈیا،اور سوشل میڈیا۔

انسانی تاریخ میں میڈیا کے استعمال کی ابتدا بھی وہیں سے ہوگئی تھی جب سے انسان نے معاشرتی زندگی گزارنے اور ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے کی ابتدا کی اور ادوار کے بدلتے بدلتے ابلاغ کا شعبہ بھی ترقی کرتا گیا اور اس کے ذرائع بھی تبدیل ہوتے گئے، کبھی ہدہد پرندے کے ذریعے اطلاع و ترسیل کا کام لیا گیا تو کبھی عرب جیسے جاہل معاشرے میں بھی پیغام رسانی کے لیے اونٹ کے ناک اور کان کاٹ کر انسان خود اپنے کپڑے چاک کرلیا کرتے تھے تاکہ بات کی اہمیت کو سمجھایا جائے۔
غرض ابلاغ انسان کے فطرت میں داخل ہے لیکن ابلاغ کو اعلی نصب العین کے لیے اسلام نے ہی استعمال کیا ہے یا دوسرے معنی میں اعلی اقدار کا حامل اور صالح بنیادوں پر ابلاغ کی تعمیر و ترقی اسلام نے ہی کی ہے، جس کی مثال عرب کے اسی معاشرے میں ملے گی جس کا بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے، جب اونٹ کے کان کاٹ کر انسان خود کے کپڑے چاک کردیا کرتے تھے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو جمع کیا لیکن نا آپ نے اپنے کپڑے چاک کیے اور نا اونٹ کے کان کاٹے بلکہ آپ نے بلند و بالا پہاڑ صفا پر چڑھ کر ندا لگائی اور جب لوگ جمع ہوگئے تو ایک مثبت پیغام سب کے سامنے
پیش کیا یا دوسری مثال لیجیے
ہد ہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اطلاع اس بات کی دی کے زمین کا ایک خطہ ایسا ہے جہاں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور شئے کی پوجا کی جاتی ہے جو صرف اور صرف ظلم اور زمین میں فساد ہی کا موجب ہے
بہرحال جدید دور ہو یا سابقہ ادوار ہر وقت شعبہ ابلاغ و ترسیل انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔

انسانی زندگی پر میڈیا کے اثرات:
انسانی زندگی میں ابلاغ و ترسیل کے شعبہ کو شہ رگ کی حیثیت حاصل رہی ہے، اپنے خیالات و جزبات، افکار و نظریات کے اظہار کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ موثر نہیں ہے کسی بھی ملک یا سوسائٹی کی تعمیر و ترقی میں میڈیا یا ابلاغ کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے، جب ابلاغ کے ذرائع میں تخریبی عوامل شامل ہوجائیں تو یہی ابلاغ کا شعبہ اس معاشرے کی تباہی و بر بادی کا ضامن بھی ہوگا۔
سیاست کے ایوان ہو یا جنگ کے میدان، معیشت ہو یا تعلیمی نظام ہر جگہ میڈیا یا ابلاغ اپنا مضبوط مقام رکھتا ہے جس کے بغیر زندگی کا ہر شعبہ نا مکمل ہے یہی وجہ ہیکہ ترسیلی شعبہ کے بعض ماہرین نے کسی مہذب انسانی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں انتظامیہ،عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ ذرائع ترسیل و ابلاغ کو چوتھے ستون کی حیثیت دی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے جدید ذرائع:
ایک جدید تحقیق کے مطابق ایک تصویر 500الفاظ کا نعم البدل ہوتی ہے۔ ہم میڈیا کے ذریعے معاشرے کی جو تصویر پیش کرتے ہیں کچھ عرصہ بعد وہی معاشرے کا عکس بن جاتاہے
جی ہاں
سانئس اور ٹکنالوجی کے اس دور میں میڈیا انتہائی اڈوانس ہوچکا ہے جس کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اذہان اور کردار کو بدلا جاتا ہے اسی میڈیا کی جادو گری کے ذریعے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرکے تصویر کا رخ بدلا جاتا ہے میڈیا کی صحر انگیزی میں نا صرف ترقی یافتہ ممالک کی عوام گرفتار ہے بلکہ غریب اور غیر ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک بھی اس کے محتاج ہیں، ابلاغ کے اس جدید ذرائع نے خواندہ اور نا خواندہ سبھی کو نا صرف اپنی جانب متوجہ کرایا بلکہ سبھی کو اپنا استمعال خود ہی سکھادیا۔
اہل اقتدار اپنے مفاد کی خاطر اسی میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں بڑے بڑے انقلابات اسی میڈیا کے مرہون منت ہے اسی میڈیا نے اس وسیع و عریض دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے سرحدیں سمٹ کر ایک چھوٹےسے آلے میں سمائی ہوئی ہیں گویا کہ ایک کوزے میں پورا سمندر سمیٹ لیا گیا ہو اور جس کو ملٹی میڈیا کا نام دیا گیا ہے، ہزاروں میل وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور سرگرمیاں میڈیا کے ذریعے راست دیکھی جا سکتی ہیں کسی بھی تہذیب و تمدن کو دیگر ممالک و اقوام میں اسی میڈیا کے ذریعے متعارف کرایا جاتا ہے اسی میڈیا کے ذریعے جاذب نظر اور آنکھیں خیرہ کرنے والی شعبدہ بازی دکھاکر لوگوں کو اپنی تہذیب کا اپنے رسم و رواج کا گرویدہ بنایا جاتا ہے مختصر یہ کہ فی زمانہ کوئی غیر تعلیم یافتہ اور غیر مہذب انسان بھی میڈیا یا ابلاغ کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔
ابلاغ عامہ کی سہولیات کا حامل چھوٹا سا ایک جدید آلہ موبائل جس پر سوشل میڈیا کے نام پر ایک دوسرے سے رابطہ اور لین دین، خوشی و غم کا اظہار کیا جاتا ہے خیالات و احساسات افکار و نظریات کے فروغ کا بہترین ذریعہ ہے وہی آزادی و خود مختاری کے نام پر، خیالات کی پراگندگی، اباحیت پسندی، جنسی بے راہ روی پر مبنی لٹریچر و ویڈویوز اور کردار کش مواد کا ایک سیلاب ہے جو سوشل میڈیا سائیٹس پر آیا ہوا ہے۔
ایسے میں میڈیا کے حدودو ضوابط،غیر اخلاقی و غیر شائستہ نشریات پر قدغن، اظہار خیال و آزادی اظہار کے تعمیری معیارات طئے کرنا انتہائی ضروری ہے اورغیر جانبدار اور آزادانہ و اخلاقی اقدار کی حامل صحافت و ابلاغ کے لیے ضروری ہیکہ ہم اپنے ذرائع ابلاغ و نشریات کے ادارے قائم کریں اور اس راہ میں فلاحی و رفاہی تنظیموں اور اصلاحی اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل کا کام کرنے والی جماعتوں اور عوام کا تعاون نا گزیر ہے، اسی طرح اس میدان میں صحافت کو اپنا تعمیری مقصد بناکر کام کرنے والوں کی بھی اشد ضرورت ہے تبھی جاکر ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ و صحافت کے طوفان بد تمیزی کو روک پائیں گے اور مثبت و تعمیری اثرات پر مبنی پیغام دے پائیں گے وگرنہ آج میڈیا معاشرے کی جو تصویر ہمیں دکھا رہا ہے مستقل قریب میں وہ معاشرے کا عکس بن جائے گی اور معاشرے اور اس میں بسنے والے انسان زہنی غلامی میں گرفتار اور تعمیری و انقلابی قوتوں سے محروم تباہی و بربادی کا منظر دیکھیں گے۔

انسانی زندگی کے تین ادوار:
آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت پانے والوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا مقصد صرف دولت کمانا ہے، خواہ اپنی ثقافت و اقدار کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
انسانی زندگی تین اہم ادوار پر مشتمل ہوتی ہے:
بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ یہ تینوں ہی ادوار منفرد اور خوبصورت اوصاف کے حامل ہوتے ہیں۔ بچپن میں انسان اپنے معاشرے سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اگر اسے اچھا ماحول میسر آجائے تو وہ نیک اور پار سا ہو جاتا ہے۔ گویا انسان کے بننے اور بگڑنے کا زیادہ تر انحصار اچھے یا برے ماحول پر ہے۔ جوانی کا دور زندگی کا سنہری دور کہلاتا ہے جس میں طاقت اور توانائی سے بھر پور حضرت انسان کا اپنے مقاصد کے حصول کا جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔
بقول شیخ سعدی شیرازی
جوانی توبه کردن شیوه پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم مہ شد پرہیز گار
جبکہ بڑھاپے میں اعضائے جسمانی مضموم ہونے لگتے ہیں اور انسان میدان عمل میں بھر پور حصہ لینے سے قاصر اور عاجزہو جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمان باری تعالیٰ ہے:’’ا ور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس جہانِ فانی میں ہمیں جتنی بھی چیزیں نظر آتی ہیں وہ تمام اس اشرف المخلوقات حضرت انسان کی خدمت کے لئے تخلیق کی گئی ہیں اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و بندگی کیلئے تخلیق فرمایا ہے۔ اس ضمن میں اقبال ؔیوں نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں:
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!
لیکن قارئین کرام ترقی و عروج کی منازل سر کرتے کرتے حضرت انسان اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں ’’آئینہ ایام میں اپنی ادا دیکھ کر ایک جانب اپنی ترقی پر فخر سے سر اٹھاتا ہے تو دوسری جانب یہی سائنسی ترقی :
لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے
فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے
کے مصداق نوع بشر کا سر شرمندگی اور پچھتاوے سے جھکا رہتا ہے۔ ایک جانب تو جدید سائنسی ترقی نے حیات انسانی میں آسائش کے ایسے ایسے باب کھول دیئے ہیں کہ جن کا تصور بھی کرنا مشکل تھا، لیکن جدید سائنسی آلات اور طور طریقوں کو اپناتے ہوئے ہم اس جہانِ فانی میں اپنے وجود پانے کے بنیادی مقصد سے دور ہٹتے چلے جارہے ہیں اور وہ بنیادی مقصد رب تعالی کا یہ فرمان ہے:’’جن و انس کو میں نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔‘‘
فرشتے تو انسانی خواہشات اور بشری تقاضوں سے مبرا ہوتے ہیں اور اس بے نیازی میں ہمہ تن یادِ الٰہی میں مصروف رہتے ہیں۔ انسان کے ساتھ چونکہ بشری تقاضوں اور نفسانی خواہشات کی مجبوریاں ہیں جو ہر لحظہ نفس امارہ کو ابھار کر اسے گمراہ کرنے پر کمربستہ رہتی ہیں اس لیے انسان کی عبادت ملائکہ کی عبادت سے کہیں زیادہ مجاہدے اور محنت والی ہے۔
دور حاضر میں سانس لینے والا انسان اس مذکورہ بالا محنت و مشکل کا سامنا کچھ زیادہ ہی کر رہا ہے۔ کیونکہ عصر حاضر میں موجود سوشل میڈیا کی یلغار نے ہر کس و ناکس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تیز رفتار ذرائع ابلاغ نے بلاشبہ دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے لیکن اعتدال ہر شے میں ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا اعتدال سے ہٹ کر جب نوجوان نسل سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے تو فائدہ کے بجائے نقصان کا سامنا کرنے لگتی ہے۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہیں اور کم عمری اور ناتجربہ کاری کے باعث یہ تمیز کرنا کہ تفریح کا کون سا ذریعہ ان کے لئے مفید ہے اور معلومات کی کون سی حد ان کے لئے ضروری ہے ، مشکل ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب نوجوان طبقے کا ایک بڑا حصہ خدائی احکامات سے رو گردانی کر کے اور اپنی خواہشات کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے لگتا ہے تو پھر ہر طرف فساد برپا ہونے لگتا ہے۔ جہاں اس کی اپنی زندگی میں بے سکونی اور بے چینی و اضطراب پیدا ہو جاتا ہے وہیں پورامعاشرہ بھی بے اعتدالیوں اور دیگر خرابیوں کا حامل ہو جاتا ہے۔
مسلم معاشرہ کی وہ عمدہ صفات جو ایثار، قربانی، ادب و احترام ، انصاف، حقوق کی منصفانہ تقسیم اورصلہ رحمی پرمشتمل ہوا کرتی تھیں اور ہمارے معاشرہ کی ثقافت اور رہن سہن کی بنیاد تھیں وہ آج سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی نذر ہوتی جارہی ہیں۔ ان اثرات نے بزرگوں سے مہذب رویے اور شفقت جیسی خوبصورت صفات چھین لی ہیں اور نوجوانوں سے جذبہ ٔ تعمیر و عمل اور برداشت کے رویوں کو ختم کر دیا ہے۔
مسلم معاشرہ ہو یا کوئی اور گروہ، دین ہر جگہ کچھ اصول و ضوابط لاگو کرتا ہے اور سوشل میڈیا یعنی یوٹیوب چینل، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اب ایسے افراد حاوی ہوتے جارہے ہیں جن کو اخلاقیات، شائستگی اور ذمہ دارانہ رویوں کی کوئی آگا ہی نہیں۔ اس کے بر عکس ماضی میں ذرائع ابلاغ پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور ہر معاشرہ اپنے مہذب اور ثقافتی رجحانات کے اعتبار سے ذرائع ابلاغ کو فروغ دیتا تھا۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو معاشرتی و سماجی بہتری اور نکھار کا یہی ذریعہ تمام ذرائع ابلاغ سے تیز تر ہے۔ لیکن ، یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ’’بندر کے ہاتھ میں چھری‘‘ ہو تو اس کا نفع بخش استعمال نہیں ہوتا۔
آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت پانے والوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا مقصد صرف دولت کمانا ہے ، خواہ اپنی ثقافت و اقدار کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ نپولین نے ایک خوبصورت مثال دے کر سمجھایا تھا کہ ’’اگر ہرنوں کے غول کی قیادت شیر کررہا ہو تو ہرن بھی جنگ کرنا یا لڑنا سیکھ جاتے ہیں ، لیکن اگر شیروں کے گروہ کا لیڈر ہرن ہو تو شیر اپنا دفاع بھول کر ہرنوں کی طرح دوڑنے لگتے ہیں۔‘‘ گویا بہترین معاشرتی ترقی کے لئے یہ احتساب ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر کون لوگ افرادِ معاشرہ کو متاثر کررہے ہیں ۔ بطور ذمہ دار شہری ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا ۔ ہر گھر کے سربراہ کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیر پرورش نسل نو بگڑنے نہ پائے۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی لپیٹ میں صرف نوجوان ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ ان منفی اثرات نے بچوں سے بھی ان کی معصومیت چھین لی ہے ۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا کو زیادہ وقت دینے کے سبب ہم روزمرہ کاموں اور عبادت کو بہتر انداز میں نہیں کررہے ہیں اور ایک عجیب غفلت کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ آخر میں بس یہی توجہ دلانا چاہوں گا:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں