147

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وفات کی تحقیق/تحریر/مفتی عبدالصمد ساجد/رفیق شعبہ تصنیف مجلس صیانۃ المسلمین پاکستان

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال باتفاق اہلِ تاریخ دوشنبہ کے روز ہوا لیکن تاریخ میں اختلاف ہے اکثر مؤرخین کا قول بارہ ربیع الاول کا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ وفات کی تحقیق
بعض خطیب قسم کے احباب یا خطباء کی بے سروپا باتوں پر یقین رکھنے والے احباب یہ کہہ دیتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی تاریخ میں کوئی اختلاف نہیں ہے بالاتفاق وفات بارہ ربیع الاول کو ہوئی، یہ بات خلافِ تحقیق ہے محض سنی سنائی ہے۔ بلکہ فلکیات و حساب کے لحاظ سے بارہ ربیع الاول وفات بنتی ہی نہیں ۔
دو باتوں پر محدثین و مؤرخین کا اتفاق ہے ایک کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیر کے روز ہوئی، دوسرے ربیع الاول میں ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج جو فرمایا اس میں 9 ذوالحجہ یومِ عرفہ جمعہ کا دن تھا اس کے بعد ربیع الاول میں آپ کا وصال ہوا ، ان تین مہینوں ذوالحجہ، محرم اور صفر میں چار امکانات ہیں۔
1 تینوں مہینے 30 کے ہوں۔
2 تینوں 29 کے ہوں۔
3 دو تیس کے ہوں ایک 29 کا ہو۔
4 دو 29 کے ہوں ایک 30 کا ہو۔
ان چاروں صورتوں میں کسی صورت میں بھی 12 ربیع الاول کو پیر نہیں بنتا۔
راجح قول دو ربیع الاول کا ہی ہے، فلکیات کے ماہرین بھی حسابی اصولوں کے مطابق یکم یا دو کو ہی درست قرار دیتے ہیں، اسی 2 ربیع الاول کے قول کو علامہ سہیلی نے روض الانف میں اور علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں راجح قرار دیا ہے۔
مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی مایہ ناز کتاب ” سیرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم” میں تحریر فرماتے ہیں:
” تاریخ وفات میں مشہور یہ ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں؛لیکن حساب سے کسی طرح بھی یہ تاریخ وفات نہیں ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امر ہے کہ وفات دوشنبہ کو ہوئی اور یہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج۹/ ذی الحجہ روزجمعہ کو ہوا،ان دونوں باتوں کے ملانے سے ۱۲/ربیع الاول بروز دوشنبہ میں نہیں پڑتی؛ اسی لیے حافظ ابن حجرنے شرح صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے( ۲ کا ۱۲) اور عربی عبارت میں ”ثاني شهر ربيع الأول” کا “ثاني عشر ربيع الأول” بن گیا۔ حافظ مغلطائی نے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔ (سیرت خاتم الانبیاء:110،ط:مكتبة البشرى)
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی عظیم کتاب “خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی” میں لکھتے ہیں:
” حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال باتفاق اہلِ تاریخ دوشنبہ کے روز ہوا لیکن تاریخ میں اختلاف ہے اکثر مؤرخین کا قول بارہ ربیع الاول کا ہے مگر اس میں ایک نہایت قوی اشکال ہے وہ یہ کہ 10 ھ کی نو ذوالحجہ جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موقع پر عرفات میں تشریف فرما تھے وہ جمعہ کا دن تھا اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے نہ محدثین کا نہ مؤرخین کا، حدیث کی روایات میں بھی کثرت سے اس کی تصریح ہے کہ حضور کا حج یعنی نو ذوالحجہ جمعہ کو ہوئی، اس کے بعد خواہ ذی الحجہ محرم اور صفر تینوں مہینے 30 دن کے ہوں یا 29 دن کے یا بعض مہینے 29 کے اور بعض 30 کے، غرض کسی صورت سے بھی بارہ ربیع الاول دوشنبہ کی نہیں ہوسکتی، اسی لیے بعض محدثین نے دوسرے قول کو ترجیح دی کہ حضور کا وصال دو ربیع الاول کو ہوا، حضور کے مرض کی ابتدا سر کے درد سے ہوئی، اس روز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں تھے، اس کے بعد حضرت میمونہ کی باری کے دن میں مرض میں شدت پیدا ہوئی، اسی حالت میں حضور بیبیوں کی باری تقسیم پوری فرماتے رہے مگر جب مرض میں زیادہ شدت ہوگئی تو حضور کے ایماء پر تمام بیبیوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر بیماری کے ایام گزارنے کو اختیار دے دیا تھا اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دولت کدہ پر حضور کا وصال ہوا، کل مدتِ مرض بارہ یا چودہ یوم ہے اور دوشنبہ کے روز چاشت کے وقت وصال ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وصال دوشنبہ کے روز ہوا اور چاشت کے وقت ہوا، اس کے خلاف جو روایت ہوگی اس کی توجیہ کی ضرورت ہوگی”
(ص366، مکتبۃ الشیخ کراچی)
واللہ اعلم بالصواب


عبدالصمد ساجد
رفیق شعبہ تصنیف مجلس صیانۃ المسلمین پاکستان
استاذ تخصص فی الافتاء ابراہیم اکیڈمی
8 ربیع الاول 1445 ھ
25 ستمبر 2023 ء پیر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں