136

نظریاتی جنگ کے شکست خوردہ مسلم ممالک/تحریر/نجیب اللہ مہترزی

نظریاتی جنگ عسکری جنگ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور اس کی تاثیر بھی عسکری جنگ کی تاثیر سے زیادہ دیرپااور مستحکم ہوتی ہے نظریاتی جنگ کا مقابلہ کرنا بہ نسبت عسکری جنگ کے بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔
نظریاتی جنگ سے مراد وہ جنگ ہے جو مدمقابل بغیر کسی فوجی وسائل کے فریق ثانی کو مسخر کرنے اور ان کے عقائد ،فکر ،رسم ورواج ،اخلاق اور زندگی گزارنے کے ڈھانچے کو یکسر بدلنے کیلئے لڑتے ہیں ۔نظریاتی جنگ میں کسی کے ظاہری وجود کو نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ ان کے دین ،سوچ وفکر ،معاشرتی رسم ورواج اور اخلاق کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے کیونکہ یہ وہ باطنی عوامل ہیں جو کسی قوم کے افراد کو اپنے ظاہری اور معنوی وجود کو بچانے اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کیلئے جنگ کی صف اول میں کھڑا کردیتے ہیں ۔جب ان باطنی قوتوں کو کسی منظم پلان کے ذریعے ختم کیا جائے تو دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کا تصور بھی خود بخود ختم ہو جاتا ہے پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دشمن ہر قسم کے مالی اور جانی نقصان سے محفوظ رہتا ہے اور بغیر جنگ لڑنے کے اسے اپنا مقصود بھی حاصل ہوجاتا ہے ۔
اقوام عالم کو ہمیشہ کیلئے زیر تسلط رکھنے اور بغیر کسی لڑائی کے ان پر قبضہ کرنے کیلئے عسکری جنگ سے زیادہ نظریاتی یلغار مؤثر ہوتی ہے اور تاریخ کے مطالعہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عسکری جنگ کے ذریعے حاصل ہونے والی فتح اور تسلط اس وقت تک پائیدار نہیں رہتا جب تک نظریاتی قبضہ طویل مدت کیلئے باقی نہ رہے ۔
عسکری جنگ میں کسی قوم کا پیچھے رہ جانا اس قوم کے دائمی ختم ہونے کے معنی میں نہیں ہوسکتا اور یہ منظر دنیا نے دیکھا بھی ،جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو افغانستان عسکری لحاظ سے امریکہ سے بہت کمزور تھا لیکن نظریاتی جنگ میں افغانستان نے کھبی شکست نہیں کھائی اور نظریاتی لڑائی مؤثر انداز سے لڑتے ہوئے بالآخر انہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو عسکری جنگ میں بھی شکست دی ۔
لیکن اگر کوئی قوم نظریاتی جنگ میں شکست کھالے اور اپنے فکر وشعور ،عقیدے ،اخلاق ،قومی اقدار اور تاریخ کا دفاع نہ کرسکے تو یہ شکست حقیقت میں اس قوم کی معنوی اور نظریاتی موت کے مترادف ہوتی ہے جس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوتے ہیں ۔
یہی مثال آج اسلامی ممالک کی بھی ہے جو نظریاتی جنگ کے شکست خوردہ ہیں اس وقت تمام کفری ممالک ایک نظریے کے تحت ایک صف میں کھڑے ہوکر اسرائیل کی مالی ،دفاعی مدد کررہے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں جبکہ تمام مسلم ممالک جو مغرب کے مقابلے میں نظریاتی جنگ کے شکست سے دو چار ہیں بڑی تعداد میں جنگی وسائل حتی کہ ایٹم بم موجود ہونے کے باوجود بھی دشمن کے مقابلے میں آنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور جنگ شروع ہونے کے خطرے سے انہوں نے دشمنوں کے سامنے نہ صرف ہتھیار ڈالے ہیں بلکہ انتہائی بے غیرتی اور بے شرمی کی انتہا کرتے ہوئے اپنے دین اور ملت کے خلاف دشمنوں کی صف میں کھڑے ہیں اور انہیں خوش کرنے کیلئے وہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں جو دشمن چاہتا ہے ۔
اسلامی ممالک انگریزوں سے آزاد تو ہوئے ہیں لیکن انگریزیت سے آزاد نہیں ہیں نظریاتی جنگ میں شکست ہی کی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک کے پاس بڑی مقدار میں اسلحہ ،جنگی مہارت ، ایٹم بم ،بھاری تعداد میں فوج ،کثیر مادی وسائل اور مضبوط معیشت ہونے کے باوجود بھی دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی دکھانے اور ان سے دفاع یا مقابلہ کرنے کیلئے میدان عمل میں نہیں آتے بلکہ برائے نام اجلاسوں کو منعقد کرکے مذمتیں کرتے اور بیانات دیتے رہتے ہیں ۔آج تمام مسلم ممالک کی افواج صلیب کے جھنڈے تلے جمع ہوکر اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہب قوموں کے خلاف برسرپیکار ہیں کیونکہ نظریاتی جنگ نے ان کا ایمان ،عقیدہ اور دینی شعور مکمل ختم کردیا ہے۔
آج برائے نام او آئی سی اتحاد تو قائم ہے ستاون اسلامی ممالک اسلامی نام کے ساتھ تو مشہور ہے لیکن ان ممالک میں زندگی کے تمام سیاسی ،نظریاتی ،اخلاقی،معاشرتی، عسکری ،اقتصادی،اور ادبی طور طریقے ،مغربی تصورات اور ترجیحات کی بنیادوں پر قائم ہیں ۔اور ان ممالک کے نام نہاد مسلم حکمران یہ کوششیں کرتے رہتے ہیں کہ کسی طریقے سے اسلامی دنیا اور مسلمان امت کو مغربی خواہشات کے مطابق بنایا جائے اگرچہ اس مقصد کے حصول میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہانے کی ضرورت ہی کیوں نہ پیش آجاۓ ۔
ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کا فرمان ہے
تا کجا بے غیرتِ دیں زیستن
اے مسلمان! مُردن است ایں زیستن
یعنی غیرتِ دین کے بغیر زندگی کہاں تک ممکن ہے اے مسلمان یہ زندگی نہیں بلکہ موت ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں