/شاعر/ضوریز احمد
صدائے قلم نظم نگاری میں فاتح قرار پانے والی نظم
صبحِ آزادی تری رونقِ دائم کے لیے
کتنی جانوں نے صعوبت کے زمانے دیکھے
کتنے جسموں نے کیے تن سے جدا سر اپنے
ظلم کی دست درازی کے بہانے دیکھے
کتنے ہونٹوں نے تبسم کو شکستہ پایا
کتنی آنکھوں نے جدائی کے فسانے دیکھے
دائم آباد رہے فرشِ جہاں پر ترا نقش
سارے عالم میں رہے چاپ قدم کی تیری
کہ تری راہ بچھانے کو جو نکلے تھے قدم
کٹ گئے راہ میں صورت بھی نہ دیکھی تیری
زخمِ تازہ نے بُنا ہے ترا یہ پرچمِ سبز
شبِ دشوار سے پھوٹی ہے سپیدی تیری
کاش یہ رنجِ سفر ہم کو سدا یاد رہیں
صبحِ آزادی تری رونقیں آباد رہیں