87

نواسہ رسول ؐ کا سر مبارک اور راہب کے دس ہزار دینار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔/تحریر/اعجاز خاں میو

60ہجری کی بات ہے جب سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یزید کی بیعت کرنے سے انکار کرنے کے بعد راتوں رات مدینہ منورہ کو چھوڑ کر مکہ مکرمہ تشریف لے آئے ۔ اسی دواران اہل عراق سینکڑوں خطوط کے ذریعے سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں کوفہ تشریف لانے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ لہٰذا عراقیوںکے پر زور اصرار پر 10ذوالحجہ 60 ہجری کوسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے عراق کی جانب روانہ ہو تے ہیں۔جب یزید کو اس روانگی کی خبر پہنچتی ہے تو وہ عراق کے گورنر عبداللہ بن زیادکو حکم نامہ جاری کرتا ہے کہ سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی جائے ۔عبداللہ بن زیاد عمر بن سعد کی سر کردگی میں چار ہزار فوج روانہ کر دیتا ہے ۔عراقی فوج اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا آمنا سامنا میدان کربلا میں ہو جاتا ہے ۔ فوج حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو گھیر لیتی ہے ۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ مجھے واپس جانے دو یا یزید کے پاس جانے دو تاکہ میں اس سے بات کر سکوں ۔‘‘ لیکن فوج نے ان کی ایک نہ سنی اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے 72 ساتھیوںجن میں شیر خوار بچے بھی شامل تھے سمیت میدان کربلا میں شہید کردیا ۔ ابن سعد نے آپ رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو ایک طشت میں رکھ کر خولی کے ہاتھ ابن زیاد کے پاس کوفہ بھیج دیا ۔ اگلے روز خاندان کے باقی افراد کو عورتوں سمیت بھی کوفہ بھیج دیا ۔ کہتے ہیں کہ شہادت کے دو یا تین دن بعد قبیلہ بنو اسد کے لوگوں (جو دریائے فرات کے کنارے رہتے تھے )نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے تن بے سر کو ایک جگہ اور باقی شہدا ء کو دوسری جگہ دفن کر دیا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر انور کو جب خولی لیکر کوفہ پہنچا تو محل کے دروازے بند ہو چکے تھے اس لئے وہ سر انور کو اپنے گھر لے آیا اور ایک برتن کے نیچے ڈھانپ کر رکھ دیا ۔ پھر اپنی بیوی سے کہنے لگا :’’ میں تیرے لئے زمانے بھر کی عزت لایا ہوں ۔ ‘‘ ا س نے پو چھا کیا ہے ؟ خولی نے کہا :’’ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کا سر لیکر آیا ہوں ۔‘‘اس کی بیوی نے کہا : ’’ خدا کی قسم ! میں تیرے اس جرم کی پاداش میں آئندہ کبھی تیرے ساتھ شب باش نہ ہو نگی ۔ ‘ ‘اگلے دن عبداللہ بن زیاد کے دربار میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو لایا گیا تو ابن زیاد نے اپنی چھڑی سے آپ رضی اللہ عنہ کے ہونٹوں کا کریدا ۔ اس وقت دربا ر میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تشریف فرما تھے ۔ انہوں نے ابن زیاد سے کہا : ’’ اپنی چھڑی ہٹائو ۔ قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہو نٹوں کو چوم رہے تھے ۔‘‘ پھر حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ رونے لگے تو ابن زیاد نے کہا: ’’ اللہ تجھے رلائے اگر تو سٹھیایا ہوا بوڑھا نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا ۔ ‘‘ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اٹھ کر چلے گئے ۔ اس کے بعد اہل بیت نبوت کے باقی افراد کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا ۔سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے معمولی لباس پہنا ہوا تھا اور لونڈیوں کے جھرمٹ میں تھیں ۔ اس لئے پہچانی نہیں جاتی تھیں ۔ جب انہیں ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے پو چھا یہ کون ہے ؟ حضرت زینب رضی اللہ عنہاکچھ نہ بولیں۔ اس پر ایک لونڈی نے کہا کہ یہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہا ہیں ۔ ابن زیاد بولا : ’’ اللہ کا شکر ہے جس نے تمہیں رسوا اور قتل کیا اور تمہارے دعوے کو جھوٹا کیا ۔ ‘‘ سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ ان کے لئے شہادت مقدر ہو چکی تھی ۔ اس لئے وہ اپنی شہادت گا ہ کی طرف خود نکل کر آگئے ۔عنقریب اللہ تعالیٰ ان کو اور تجھے ایک جگہ جمع کرے گا ۔اس وقت وہ تیرے خلاف اپنا معاملہ اللہ کی عدالت میں پیش کرینگے ۔ ‘‘ اس پر ابن زیاد بھڑک اٹھا ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا ۔ عمرو بن حریث نے کہا : ’’ اللہ تعالیٰ امیر کی بہتری کرے یہ تو ایک عورت ہے ۔ کیا آپ ایک عورت کی باتوں پر گرفت کریں گے ؟ عورتوں کی باتوں پر مواخذہ نہیں کیا جاتا اور نہ اس کی نادانی پر اسے ملامت کی جاتی ہے ۔ ‘‘اس کے بعد عبداللہ بن زیاد نے تمام لوگوں کو جامع مسجد میں جمع کیا اور منبر پر چڑھ کر کہا : ’’ حسین رضی اللہ عنہ جماعت میں تفرقہ ڈال کر حکومت چھیننا چاہتے تھے ۔ ‘‘ اس پر عبداللہ بن عفیف ازدی رحمۃ اللہ علیہ جو اصحاب علی رضی اللہ عنہ میں سے تھے اور اپنی دونوں آنکھوں کی بینائی کھو چکے تھے ۔ اٹھ کھڑے ہوئے اورکہا : ’’ افسوس ہے ابن زیاد !نبیوں کی اولاد کو قتل کرتے ہو اور صدیقوں جیسی باتیں کرتے ہو۔‘‘ ابن زیاد کے حکم سے انہیں قتل کرکے سولی پر لٹکا دیا گیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو نصب کرکے ابن زیاد کے حکم سے کوفہ کی گلی کو چوں میں پھرایا گیا ۔پھر ابن قیس کی سربراہی میں گھڑ سوار دستہ کی نگرانی میں شام بھیج دیا ۔ جبکہ دیگر شہداء کے سروں اور اسیران اہل بیت کو بدبختوں کی ایک جماعت کے ہمراہ یزید کے پاس اس حالت میں بھیجا کہ سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ ( علی ابن حسین رضی اللہ عنہ ) کے ہاتھ پائوں اور گردن میں زنجیر یں ڈال دی گئیں تھیں اور عورتوں کو اونٹوں کی ننگی پیٹھ پر بٹھا یا گیا تھا ۔ ابن زیاد نے اپنے سپاہیوں کو تاکید کردی تھی کہ وہ راستے میں سروں کو نیزوں پر چڑھا کر لوگوں کو بتاتے ہوئے جائیں کہ یزید کی مخالفت کرنے والے اس انجام سے دو چار ہوئے تاکہ لوگ ڈر کر مخالفت سے باز رہیں ۔ راستے میںقافلے کا قیام ایک گرجے میں ہوا ۔ گرجے کے راہب کو جب حالات کا علم ہوا تو کہنے لگا ـ: ’’ تم لوگ بہت برے ہو کیا کوئی اپنے نبی کی اولاد کے ساتھ بھی ایسا سلوک کرسکتا ہے ۔ جیسا تم نے کیا ہے ۔‘‘ پھر اس راہب نے ان بد بختوں سے کہا : ’’ اگر تم ایک رات کے لئے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کا سر میرے پاس رہنے دو اور مجھے ان عورتوں کی خدمت کا موقع دو تو میں تمہیں دس ہزار دینار اس کے بدلے دوں گا ۔‘‘ انہوں اس پیشکش کو قبول کر لیا ۔ راہب نے اپنے گھر کو خالی کر لیا ۔ ان پردہ دار اور مقدس خواتین کو ایک صاف ستھرا کمرہ رات گزارنے کے لئے دے دیا ۔ اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی چیز کی ضرورت ہے تومجھے بتائو ۔اگر چہ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن میرے دل میں آپ کے خاندان کی بڑی عزت ہے۔ اس نے صبر کی تلقین بھی کی اور کہا :’’ اللہ والوں کو اللہ کی راہ میں بڑی بڑی تکلیفیں اور مصیبتیں آتی ہیں ۔انہوں نے صبر کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں صبر کا بہت اچھا بدلہ دیا ۔ اب تمہارے لئے سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں ہے ۔ ‘‘ اہل بیت کی پاکباز عورتوں نے اس کی ہمدردی کا شکریہ ادا کیا اور دعائیں دیں ۔ راہب نے گرجے کے خادم سے کہا کہ رات بھر ان مقدس خواتین کی خدمت کرو ۔یہ مسلمانوں کے نبی کی بیٹیاں ہیں ۔ راہب نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر انور کو دھو کر صاف کیا اور کافور لگا کر معطر کیا ۔پھر بڑے ادب اور تعظیم کے ساتھ ساری رات سر انور کے سامنے بیٹھا زارو قطار روتا رہا ۔ ایک روایت کے مطابق جب یہ قافلہ یزید کے پاس دمشق میں پہنچا تو دربار میں عام و خواص کو آنے کی اجازت دی گئی ۔ لوگوں نے دیکھا کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر انور یزید کے سامنے رکھا ہوا ہے اور یزید کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے جسے وہ آپ رضی اللہ عنہ کے دندان مبارک پر مارتا ہے ۔ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا تو وہ یہ بے ادبی برداشت نہ کرسکے ۔انہوں نے یزید سے کہا : ’’ اے یزید ! تو اپنی چھڑی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دانتوں پر مار رہا ہے ؟ (اس گستاخی سے با ز آ) میں نے بار بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ہونٹوں کو چومتے ہوئے دیکھا ہے۔ بے شک اے یزید !کل قیامت کے دن جب تو آئے گا تو تیرا شفیع ابن زیاد ہو گا اور حسین رضی اللہ عنہ آئیں گے تو ان کے شفیع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہونگے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے ۔ ایک دوسری روایت کے مطابق جب سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر انور یزید کے پاس لاکر رکھا گیا تو اس نے تمثیلاً یہ اشعار پڑھے ۔ ترجمہ : ’’ اے کاش ! بدر میں قتل ہونے والے میرے اشیاخ بنو خزرج کا نیزوں کی ضربوں سے چیخنا چلانا دیکھتے ۔ ہم نے تمہارے دو گنا اشراف کا قتل کر دیا ہے اور یوم بدر کے میزان کے جھکائو کو برابر کردیا ہے ۔ ‘‘ کہتے ہیں جس وقت اہل بیت کو شہدا کے سروں کے ساتھ یزید کے دربار میں پیش کیا گیا تواس وقت قیصر روم کا سفیر بھی وہاں مو جود تھا ۔وہ یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا ۔ اس نے پوچھا کہ یہ سر کس کا ہے جس کے لبوں پر یزید چھڑی مار رہا ہے ۔ بڑے تفاخر و تمکنت سے کہہ رہا ہے کہ بدر میں مرنے والوں کا بدلہ لے لیا ہے ۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ ہے ۔ عیسائی پر یہ سن کر کپکپی طاری ہو گئی اور وہ کہنے لگا : ’’ ظالمو! مجھے کوئی شبہ نہیں رہا کہ تم قدر ناشناش ، ظالم اور دنیا پرست ہو ۔ ہمارے پاس ایک گرجے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سواری کے پائوں کا ایک نشان محفوظ ہے ۔ہم سال ہا سال سے اس نشان کی تکریم کرتے آرہے ہیں اور جیسے تم کعبہ کی زیارت کو چل کر جاتے ہوہم بھی اس کی زیارت کو چل کر جاتے ہیں ۔ ہم تو اپنے نبی ؑ کی سواری کے پائوں کے نشان کو حرز جاں بنائے ہوئے ہیں اور تم ہو کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کے ساتھ یہ سلوک کررہے ہو! ‘‘ الصواعق المحرقہ میں ہے کہ اس وقت دربار میں ایک یہودی بھی موجود تھا ۔اس نے بتایا : ’’ میں حضرت دائود علیہ السلام کی نسل سے ہوں ۔ اب تک ستر پشتیں گزر چکی ہیں لیکن اس کے باوجود حضرت دائود علیہ السلام کے امتی میری بے حد تعظیم کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو ہی بے دردی سے قتل کردیا اور اس پر اترا رہے ہوجبکہ یہ تمہارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے اور اپنی اس بدبختی پر جتنا بھی تم ماتم کرو کم ہے ۔ ‘‘ یزید کے حکم سے اہل بیت کے قافلے کو دمشق کے بازاروں میں پھرایا گیا ۔شہدا ء کے سروں کی نمائش کی گئی اور نیزوں پر لٹکے ہوئے ان سروں کا جلوس نکالاگیا ۔ جب یہ ستم رسیدہ قافلہ شہر مدینہ میں داخل ہوا تودیکھنے کے تمام اہل مدینہ اپنے گھروں سے نکل پڑے ۔ حضرت ام لقمان بن عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ نکلیں اور یہ اشعار پڑھے ۔ ترجمہ : ’’ لوگو ! کیا جواب دو گے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سے پو چھیں گے کہ تم نے آخری امت ہونے کے باوجود کیا کیا ؟ میں نے تم کو جو نصیحت کی تھی کہ میرے بعد میرے قرابت داروں سے برا سلوک نہ کرنا ، کی جزا یہ تو نہ تھی ۔ ‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں