الحمد للہ، وفاق المدارس کی عاملہ اور شوریٰ کے اجلاس کی میزبانی پر اپنی ناقص کاوشوں سے بھی ہم مطمئن ہیں کیونکہ ہمارے شفیق اکابرین نے ہماری غلطیوں سے صرف نظر بھی کیا، ہمارے منتظمین کو خوب سراہا اور ادارہ علوم اسلامی، اسلام آباد سے خوش بھی گئے ۔
اسباب کے درجہ میں اس کامیابی کی بڑی وجہ ہماری انتظامی ٹیم کے ذمہ دارساتھیوں کا جذبہ اور کام کرنے کا اندازہے۔اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کو جزائےخیر دے، جن کی دعاؤں اور مشوروں کا اس ترتیب میں حصہ ہے، اور ان طلبہ کو بھی بڑی برکتیں دے جو رضا کارانہ طور پر ان محنتوں میں جُڑے رہے (ان کا الگ سے شکریہ ادا کرنا ہے)۔ ابھی چند چیدہ چیدہ ذمہ داران کاانفرادی ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔
ان میں پہلے ادارہ کی آرگنائزنگ کمیٹی کے روح رواں اورسیکرٹری مولانا عبدالرحیم اسدصاحب ہیں۔ ادارے کے لیے ایک نہایت قیمتی اثاثہ ہیں۔ وہ کسی بھی پروگرام کی تیاری شروع ہی تمام کاموں کی ایک فہرست بنانے سے کرتے ہیں ۔ پھر متعلقہ ذمہ داران کو عموماً تحریری طور پر ان کے کام بتاتے ہیں تا کہ سمجھنے سمجھانے میں اونچ نیچ نہ ہو۔
پھر ادارے کے نائب مدیر مولانا توصیف الطاف صاحب (Touseef Altaf)ہیں۔ ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ٹیم میں آ جائیں تو لگتا ہے ایک نہیں، گیارہ لوگ آ گئے۔اس مرتبہ ان کے ذمہ سیکورٹی کا اہم ترین نظم تھا۔اس کے علاوہ بھی کئی معاملات میں ان کا حصہ رہابشمول کیٹرنگ کو سنبھالنا اور جلسہ گاہ کو تیار کرنا۔
ان ہی جیسےایک اور ان تھک اوربےحد قیمتی ساتھی مولانا حضرت بلال صاحب ہیں۔ ان کے ذمہ ایک کام رات قیام کرنے والے مہمانوں کا انتظام تھا۔ انہیں کام دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ بے فکر ہو سکتے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی طلبہ پروگرام ختم ہونے کے بعد تب تک آرام کے لیے نہیں بیٹھے جب تک سب سلسلوں کو سمیٹ نہیں لیا۔
انتظامی اعتبار سے کسی بڑے پروگرام کا ایک دشوار ترین مرحلہ کھانے کی ترتیب ہوتی ہے۔ مہمانوں کی تعداد دیکھتے ہوئے ہماری ترتیب مختلف جگہوں پر نشستیں بنانے کی تھی۔ مرکزی مطعم میں اس مرتبہ مفتی اواب صاحب نے مولانا خواجہ علی عبد الرحمان صاحب کی مدد سے مہمانوں کو کھانا کھِلانے کی ذمہ داری لی۔ میں نے دیکھا کہ دونوں حضرات خود بھی دستانے پہنے انتہائی محنت اور فکرمندی سے مہمانوں کو کھانا پیش کرنے میں مصروف رہے۔ اُن کا اور ان کی طلبہ ٹیم کا انداز 5-سٹار ہوٹلوں سے کم غالباً نہیں تھا ۔ دوسری جگہ مولانا حضرت بلال صاحب اور مولانا ہاشم صاحب نے، جو ادارے میں مطعم کے ذمہ دار بھی ہیں، یہ انتظام چلایا اور ایسا چلایا کہ کسی اور کو وہاں جھانکنے تک کی ضروت نہ رہی اور کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔
ادارے میں قیام کرنے والے مہمانوں کا گیٹ پر استقبال کرنے کے لیے مفتی مصباح الحق صاحب رات گئے تک بیٹھے رہے۔ ایک موقع پر میں نے ان کے سامنے میز پر ایک آم پڑا دیکھا جو کسی مہمان نے ہدیہ کیا تھا۔ پتہ نہیں وہ بالآخر کہاں گیا۔
مولانا عبدالباسط صاحب ویسے بھی ادارے میں ناظم صفائی ہیں۔ انہوں نے پروگرام کے لیے بھی اپنی طلبہ ٹیم کے ذریعے ادارے کی صفائی کا خاص خیال رکھا اورپھر سینکڑوں مہمانوں کی پارکنگ کی ترتیب کوایسا منظم چلایا کہ کوئی رش نہیں بنا،اور اتنے مہمانوں کی آمد کے باوجود دشواری نہیں ہوئی۔ بعد میں انہیں مہمانوں کی دیگر خدمت میں بھی مستعد پایا گیا۔
ہمارے دو اور سینئیر ساتھی بھی کاموں میں پیش پیش رہے۔ پبلک ڈیلنگ کے تجربہ کار ساتھی مولانا ابرار صاحب، جن کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ شاذ ہی کوئی خفاء ہو تا ہو، مرکزی جلسہ گاہ کی سیکورٹی کو بھی دیکھ رہے تھے اور استقبالیہ کو بھی۔ان کی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ ہے جو ارد گرد والوں کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔ دوسرے مولانا تیمور صاحب تھے، جن کا ذہن مسائل کا بڑے زبردست سائنسی انداز میں تجزیہ کرتا ہے۔وہ جلسہ گاہ کے اندر آنے والوں معزز مہمانوں کی خدمت میں لگے رہے۔ گاہے بگاہے مجھے مختلف اہم معاملات کی طرف متوجہ بھی کرتے رہے۔
میں ان قیمتی ساتھیوں پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس جیسی باصلاحیت اور جذبے سے پھرپور ٹیم خریدی نہیں جا سکتی۔اللہ پاک انہیں ادارہ علوم اسلامی، اسلام آباد اور امت کی خدمت سے جوڑے رکھے۔ وہ ہم سب کی مساعی کو قبول فرما لے، ہماری صلاحیتوں میں مزید نکھار عطا فرمادے اور ہمیں خیر کے کاموں سے جوڑے رکھے۔ سلامت رہیں!
