66

وقت بالکل بھی ضائع مت کیجئے/تحریر/ محمد طلحہ تسلیم

*یہ پوسٹ بہت احتیاط سے پڑھیں۔ سمجھیں۔ ہضم کریں اور پھر اپنے اپنے حصے کے کاموں میں فوراً لگ جائیں۔ ابھی یہ وقت بہت قیمتی ہے اس کو ضائع مت کیجئے ۔‼️سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہمیں “پاکستانیوں” کو جگانا پڑ رہا ہے۔ یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ جنگ ہو رہی ہے اور اس میں ہمیں کیا کردار ادا کرنا ہے۔ پھر اس پر مسلسل آتے اعتراضات کا جواب دینا پڑ رہا ہے۔ یعنی جو انرجی اور وقت ہمارا دشمن کو جواب دینے میں لگنا تھا وہ اپنوں کو قائل کرنے میں گزر رہا ہے۔ یہ نقصان ہوتا ہے وحدت نہ ہونے کا۔ قیادت نہ ہونے کا۔ اسی لئے تو خلافت عثمانیہ ختم کی گئی۔ کہ ایک امیر ہوگا تو جب وہ حکم جاری کرے گا تو کوئی متفق ہو یا معترض، اسکے پاس حکم کی بجا آوری کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ پھر جب دیکھا کہ پاک و ہند کے مسلمان اپنے علماء کو وہ ہی مقام دے رہے ہیں جو دینا چاہیے تو علماء کے خلاف بڑی محنت سے منظم پروپیگنڈا کیا گیا۔ برسوں کی محنت کے بعد آج وہ اس مقام پر ہیں کہ نہ مسلمان اپنے علماء کو جانتے ہیں نہ اپنے مذہب کو۔ الٹا متنفر ہیں علم اور علماء سے۔ نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ کون حقیقی عالم ہے اور کون حضور ﷺ کے فرمان پر پورا اتر رہا ہے۔ کیوں کہ ہمارے دل و دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ آخری زمانے میں جھوٹے اور جاہل پیشوا پیدا ہو جائیں گے جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ خیر پوائنٹ پر آتا ہوں۔ پہلا سوال: مسجد اقصیٰ سنہرے گنبد والی ہے یا سرمئی؟ جواب: مسجد اقصیٰ اس پورے کمپاونڈ کا نام ہے جس میں 5 مساجد ہیں۔ آپ کا یہ سوال اور اسکے جواب میں یہ کہنا کہ مسجد اقصی سرمئی گنبد والی ہے اور اس حوالے سے “اس وقت” سوشل میڈیا پر یہ بحث کرنا اس لئے بھی غلط ہے کیونکہ آپ کی پھیلائی سو کالڈ “درست” (غلط) معلومات کی وجہ سے مسلمان سمجھیں گے کہ انہیں صرف سرمئی گنبد والی مسجد ہی پر فوکس کرنا ہے۔ جبکہ اس پورے کمپاونڈ کا چپہ چپہ ہمارے لیے اہم ہے۔ جب آپ ایک حصے کی اہمیت اجاگر کر کے باقی کی اہمیت کم کریں گے تو مسلمان بھی اسے غیر اہم سمجھنے لگیں گے کیونکہ ہم سب ناقص العلم و عقل ہو چکے ہیں اس زمانے میں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مسلمانوں کو یہ سمجھایا جائے کہ پورا کمپاونڈ اہمیت کا حامل ہے اور ہم بطور مسلمان اسکے ایک ذرے سے بھی دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ کیونکہ مسجد اقصی بھلے ہی سرمئی گنبد والی ہو (اسکا اصل نام مسجد قبلی ہے) لیکن مسلمانوں کا قبلہ اول تو گنبد صخراء ہی تھا! (سنہرا گنبد) تو برائے مہربانی فضول بحث سے گریز کریں اور اس “غیر ضروری” انفارمیشن کے بجائے وقت کے تقاضے کے مطابق ضروری چیزوں کو پھیلائیں۔ دوسرا سوال: ہم احتجاج کیوں کریں؟ ڈی پی ایک جیسی کیوں لگائیں؟ ریلیاں کیوں نکالیں؟ اس سے کیا فائدہ ہوگا ہم کو اور دشمن کو کیا نقصان ہوگا ؟ جواب: یاد رکھیں آپ کا دشمن کروڑوں اربوں ڈالر اس وجہ سے خرچ نہیں کررہا ہے کہ وہ پاگل ہے بلکہ وہ اس لئے خرچ کررہا ہے کہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا جائے ۔ آپ ڈی پی اور اسٹیٹس لگا کر کم از کم اپنے اتحاد کا مظاہرہ کر کے انکے دل تو جلا سکتے ہیں؟ ان پر نفسیاتی دباؤ تو ڈال سکتے ہیں کہ اتنے سالوں کی انکی محنت اور اربوں ڈالر بھی مسلمانوں کی حمیت و اتحاد کو نہیں توڑ سکے۔ اور رہی بات ریلیوں کی تو۔۔۔۔ یہ بہت ضروری ہیں۔ اگر ضروری نہ ہوتیں تو فرانس اور جرمنی وغیرہ میں طاقت کے زور پر ان ریلیوں کو کچلا نہ جا رہا ہوتا۔ پر امن مظاہرین کو پرتشدد پولیس گرفتار نہیں کر رہی ہوتی۔ کیونکہ ہمارا دشمن ہماری طرح فضول کاموں میں اپنا وقت اور توانائی ضائع نہیں کرتا۔ ریلیوں اور جلسے جلوس کرنے سے یہ بات تو پتہ چلی کہ اسکا اثر دشمن پر پڑ رہا ہے جب ہی تو وہ اسرائیل کے خلاف نکلنے والےمظاہرین کو منتشر کررہا ہے ۔ تیسرا سوال: ہم بائیکاٹ کیوں کریں؟ کیا بائیکاٹ ایک غیر اسلامی عمل نہیں ہے؟ کونسے صحابی نے کیا ہے بائیکاٹ؟ اور بائیکاٹ سے آپ کے ملک کے لوگوں کو نقصان ہوگا کیوں کہ ان کمپنیوں میں مقامی لوگ کام کرتے ہیں۔ وہ مشکل میں آجائیں گے۔ آپ کا مذہب آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ یہ پاکستانیوں کا پسندیدہ طریقہ اعتراض ہوتا ہے۔ کوئی بات پسند نہیں آرہی تو مذہب کی اپنی مرضی کی شرح کر کے اسکی آڑ میں اس بات کو مشکوک بنا دو۔ عوام تو ویسے ہی علماء کے پاس نہیں جاتی ہے۔ اور مدلل علم اکثریت کے پاس موجود نہیں۔ لہذا دل میں شک آ جائے گا کہ ہاں بات تو ٹھیک ہے۔ اب کیا کریں؟! پھر جو جوش و جذبہ تھا وہ ماند پڑ جائے گا اور آپ کے دشمن اور شیطان کو ٹھنڈ پڑ جائے گی۔سو عرض ہے کہ معاشرتی اور اقتصادی بائیکاٹ مکمل طور پر شرعی ہے! اور نا صرف شرعی ہے بلکہ جنگ کے دوران ایک بہت ہی معروف، قدیم اور موثر ہتھیار ہے۔ کفار نے حضورﷺ کا بائیکاٹ کیا۔ شعب ابی طالب کی تین سالہ داستان سے یقینا آپ واقف ہوں گے۔ اسلام و کفر کے پہلے معرکے اور عظیم الشان غزوہ بدر کی ابتدا ہی معاشی ناکہ بندی سے کی گئی تھی۔ ابو سفیان قریش کا ایک بڑا تجارتی قافلہ منافع کے ساتھ واپس مکہ لے جا رہے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کو خبر ملی تو چونکہ معلوم تھا کہ یہ مال مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوگا لہذا اس قافلے پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ جس کی وجہ جنگ بدر کی نوبت آئی۔ (ایک اور مثال پہلے کمنٹ میں ورنہ تحریر لمبی ہو جائے گی) سو جان لیجیے کہ یہ عین شریعت کے مطابق ہے۔ اور اسکی تسلی کے لئے ی ہی دلیل کافی ہونی چاہیے کہ ملک کے بڑے بڑے علماء کرام کی طرف سے اس کی اپیل کی جا رہی ہے۔ یقینا وہ اسلام کو آپ کے سوشل میڈیا مفتیان سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اور رہی یہ بات کہ اس سے مقامی افراد متاثر ہوں گے تو یاد رکھیں ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اور جنگ میں بڑے فائدے کو مد نظر رکھتے ہوئے چھوٹے نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں اور یہ ہر شخص کی اخلاقی اور مذہبی بلکہ انسانی ذمہ داری ہے کہ وہ ظالم کے خلاف جو کر سکتا ہے کرے اور اس راہ میں ملے چھوٹے موٹے نقصانات کو خاطر میں نہ لائے۔ علماء بھی تو یہ بات جانتے ہیں کہ مقامی افراد متاثر ہوں گے لیکن پھر بھی وہ اپیل کر رہے ہیں تو آپ کو آخر کیوں علماء پر بھروسہ نہیں ہے اپنی شریعت کے معاملات کو لے؟ کیا اپنے ڈاکٹر کی باتوں کو بھی اتنی ہی غیر سنجیدگی سے لیتے ہیں؟ ظاہر ہے پاکستان والے اسرائیل جا کر تو ان برینڈز کا بائیکاٹ کریں گے نہیں۔ بائیکاٹ کی اپیل کا یہ ہی مطلب ہے نا کہ اپنے ملک میں کیا جائے بائیکاٹ۔ تو سوچ سمجھ کر کہا جا رہا ہے آپ سے یہ۔ اور یہ مسئلہ صرف پاکستانیوں کے ساتھ ہے۔ باقی دنیا والے” یہ” “کیوں” “کیا” جیسے فضول سوال نہیں کرتی۔ ان میں عقل ہے ۔ سیاست اور جنگی حکمت عملیوں کو سمجھتے ہیں اور جذبات میں نہیں فیصلے کرتے۔ ساری دنیا نے دو دن میک ڈونلڈ کا بائیکاٹ کیا اور اسکا نتیجہ آپ دیکھ لیں کہ انہیں فورا پسپا ہونا پڑا۔ ساری دنیا میں وضاحتی بیانات جاری کرنے پڑے کہ انکا اسرائیل سے تعلق نہیں اور وہ مقامی ہیں۔ (ویسے تو یہ جھوٹ ہے کیونکہ براہ راست واسطہ نہ بھی ہو لیکن ان سب کے پرافٹ کا ایک مخصوص حصہ لازمی طور پر اسرائیل کو جاتا ہے ہمیشہ سے!) اور دوسری بات کہ ترکیہ میں میک ڈونلڈ نے غزہ کیلیے ایک ملین ڈالر کی امداد جاری کر دی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ دیگر ممالک میں بھی میک ڈونلڈ نے بھاری امداد کا اعلان کیا ہے۔ یہ ہوتا ہے موثر جنگی حکمت عملی کا نتیجہ! ساری دنیا اس وقت فلسطینیوں کے لئے کچھ نہ کچھ کر رہی ہے۔ واحد پاکستانی ہیں جو بیٹھے ہوئے یا تو میچ دیکھ رہے ہیں ( یہ بے غیرتی اور بے شرمی کی انتہا ہے) یا پھر (“کیوں” “کیا” “کیسے”) جیسے سوالات کر کے لوگوں کو پریشان اور بد دل کر رہے ہیں۔ ⚠️⚠️ اور آپ سب اس کے ذمہ دار ہیں جو ان باتوں کو سمجھ رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر کسی بھی وجہ سے اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کرا رہے ہیں۔ اپنے لوگوں کو فضول باتیں کرتے دیکھ کر یا لہو و لعب میں لگے دیکھ کر اپنی طرف سے انہیں یاد دہانی نہیں کرا رہے۔یاد رکھیں! صرف پوسٹس شئیر کر دینا کافی نہیں ہے۔ آپ میں سے ہر وہ شخص جو اس مسئلے کی سنگین نوعیت کو سمجھتا ہے اسکی اخلاقی اور دینی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام لا یعنی میں لگے بڑے بڑے انفلوئیسرز کی پوسٹس پر جا کر انہیں فلسطین کے بارے میں بات کرنے کی تلقین کرے۔ (اچھے طریقے سے) ہم میں سے ہر ایک معترض کو (“کیوں” “کیا” “کیسے”) جیسے اعتراضات والی پوسٹ پر حتی المقدور مناسب جواب دینے کی کوشش کرے۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ مجرم ہیں۔ جواب دہ ہیں۔‼️‼️ اسکے علاوہ ایک اپیل یہ کروں گا کہ خدا کے واسطے چند دن کی عیاشی کم کر دیں اگر مکمل چھوڑ نہیں سکتے تو۔ گانے بالکل نہیں سنیں۔ گناہوں سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کریں تاکہ ہم سے روٹھی رب کی رحمت واپس ہماری طرف آ جائے۔ تہجد میں اٹھنے کا اہتمام کریں کہ تہجد کی دعائیں رد نہیں ہوتیں۔ وہ لوگ ہمیں پکار رہے ہیں۔ مرنے سے پہلے یہ لکھ کر جا رہے ہیں کہ ہم کسی کو معاف نہیں کریں گے۔ کیا اب ہمیں آخرت کا خوف بھی ختم ہو گیا ہے کہ اللّٰه کو جواب دینا ہے اور کیا ہمیں اب مظلوم کی آہ سے بھی ڈر نہیں لگ رہا؟ اتنے جری اور بے باک ہو گئے ہیں ہم؟ جاگ جاؤ پاکستانیو! قبل اسکے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ساری دنیا تم پر سبقت لے گئی ہے اس بار مظلوموں کی داد رسی میں اور تم بے حمیت بنے بیٹھے زندگی انجوائے کر رہے ہو حالانکہ تم پر سب سے زیادہ نظریں لگی ہیں منتظر مظلوموں کی اور ان کی امید اللّٰه کے بعد پاکستانیوں تم ہو۔ ہم لوگ بروز قیامت اپنے اللّٰه کو اور ان مظلوم فلسطینیوں کو کیا جواب دیں گے ؟ ہے کوئی جواب ؟ یا پھر وہاں بھی اللّٰه سے (“کیوں” “کیسے” “کیا” ) جیسے سوالات کروگے؟خدا کے لئے اپنی آنکھیں کھولو۔😭😭😭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں