102

ویلنٹائن ڈے ایک غیر اسلامی تہوار/تحریر/حفصہ اکبر علی

ہر سال 14 فروری کو دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔ جسے عرفِ عام میں محبت کا دن سمجھا جاتا ہے۔ افسوس! کہ غیروں کی پر تعفن تہذیب کا یہ دن اقوام اسلام میں بھی مقبول ہو گیا ہے۔ خاص کر جوان بچے بچیاں, اس دن لال لباس پہننے، لآل گلابوں کے گل دستے لیے، ایک دوسرے کو ٹیڈی بئیر اور چاکلیٹس کا تحفہ دیتے ہیں، جس سے ان کی مراد ایک دوسرے کو پرپوز کرنا ہوتا ہے۔ پھر چاہے یہ پرپوزل شادی کے لیے ہو یا صرف چند ایک بار کی خفیہ خلوت کے لیے۔
اس دن کی مناسبت سے چند روایات عام ہیں ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دن رومی دورِ حکومت میں مقرر کیا گیا ۔ اور کچھ لوگ اسے کرسچن پادری ویلنٹائن سے منسوب کرتے ہیں جس نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ اگر فوج کو شادی سے روکا جارہا ہے تو انہیں کم از کم اپنے جذبات پورے کرنے کے لیے ڈیٹنگ کی اجازت دی جائے ۔ اس کے مطابق پیار میں حلال وحرام کی کوئی تمیز نہیں ۔ بعد ازاں اس کا قتل یا طبعی موت 14 فروری کو واقع ہوئی اور اس دن کو اس کی یاد میں محبت کا دن سمجھ کر منایا جانے لگا۔
اب دیکھتے ہیں کہ کیا اسلام اس فرسودہ تہوار کو منانے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ؟؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ یہودی اور عیسائیوں کی تقلید و مشابہت سے بچو۔
جو جس کی مشابہت کرے گا قیامت میں اسی کے ساتھ ہو گا۔ اور نبی کریم نے یہ بھی پیشِ گوئی کی تھی کہ عنقریب مسلم غیر مسلم کی تقلید کریں گے۔
مشابہت کو ایک طرف رکھ کر اگر اس معاملے میں فقہی رائے لی جائے تو فقہ الاسلام کا کلیہ ہے کہ
درءالمفاسد اولی من جلب المصالح

مفسد کام کو روکنا نیکی کے کام کو کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
اور مفسد وہ چیز ہے جو چلتے چلتے حرام کے دلدل میں دھنسا دیتی ہے۔
جیسے ویلنٹائن ڈے پر تحفے تحائف کا تبادلہ ، آپس میں صنفِ مخالف سے دوستی یا آشنائی، جو بعد میں بدکاری کی طرف لے کر جاتی ہے۔
میں حیران ہوں! ان نوجوانوں کی سوچ پر، جو یہ کہتے ہیں کہ ہماری محبت بعد میں نکاح تک جائے گی، شادی سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھنے میں یہ محبت مدد گار ثابت ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں یہ بات دعوے سے کہتی ہوں کہ یہ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا کلچر صرف اور صرف شیطان کا رچایا ہوا خوش نما کھیل ہے۔ وہ محبت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس کی بنیاد ہوس اور بے حیائی پر رکھی گئی ہو۔
قرآن تو کہتا ہے کہ شیطان تمہیں مفلسی کا ڈراوا دے کہ فحاشی کروائے گا۔ کچھ لڑکیاں اچھا رشتہ نا ملنے کے خوف سے کسی نا کسی کو اپنا مہر و ماہ سمجھ بیٹھتی ہیں اور آخر میں ہاتھ کیا آتا ہے؟ پہلے بے وفائی اور پھر رسوائی! قرآن اچھی لڑکیوں کی تعریف ان الفاظ سے بیان کرتا ہے

“کہ وہ چھپے دوست بنانے والیاں نا ہوں اور عفت قائم کرنے والیاں ہوں۔”

میں پوچھتی ہوں کہ جس کے پیچھے چل رہے ہو وہ ہماری تہذیب ہے؟ یا ہم ہنس کی چال چلتے چلتے ، اپنی چال بھی بھول گئے ہیں ؟؟؟
ہم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں خاتون میرے دادا ابو کی گرل فرینڈ تھی؟ یا فلاں بندہ میری نآنی امآں کا بوائے فرینڈ تھا، یا ہم اپنی نسلوں کو بتا سکتے ہیں کہ بیٹا جب مپں بائیس سآل کی یونیورسٹی سٹوڈنٹ تھی مجھے پچاس لڑکوں نے سرخ گلاب دیئے تھے؟؟؟ ہماری تہذیب اماں فاطمۃ الزہراء کی اور رابعہ بصری کی پآک دامنی اور حیاء سے معمور ہے۔ تاریخ اللہ کی بندیوں کو جھنجھوڑ کر پوچھتی ہے کہ قیامت کے دن بی بی زہراء کو کیا منہ دکھاؤ گی؟ بی بی سکینہ اور آماں زینب کی چادر کی قسم! یہ فحاشی ہماری تہذیب نہیں ہے۔ یہ دجالی فتنہ اور دلفریب قیامت اس امت کی جڑیں کاٹ رہی ہے۔ پھر نور مقدم جیسے واقعات ہوں گے۔ ہوا کی انمول بیٹیاں غیروں کے ہاتھوں کا کھلونا بنیں گی۔ جنسی درندگی عام ہو گی۔ کاش! یہ بات ہر لڑکی سمجھ لے کہ وہ بابا کی راج دلاری, پاپا کی پری ہونے کے ساتھ ساتھ باپ کی دستار بھی ہے۔ دنیا کا کوئی شخص چاہیے آسمان سے تارے بھی توڑ لائے باپ جتنی محبت و شفقت نہیں کر سکتا ۔
ماں باپ پائی پائی جوڑ کر اپنے بچوں کو اونچے مقام پر دیکھنے کے خواب بنتے ہیں اور بچے یونی کپل کے نام پر ہنی مون جیسی زندگی گذار رہے ہوتے ہیں۔ کیا درس گاہوں کا کوئی وقار نہیں بچا؟ جہاں صداقت و عدالت کا سبق پڑھنا تھا وہاں کسی لڑکی کو کیسے پٹانا ہے؟ کس کو کتنے پھول ملے؟ کس کا بوائے فرینڈ سب سے لڑ جاتا ہے اس کی خاطر ؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی چند باتیں رہ گئی ہیں؟ یہی وجہ ہے آج یونیورسٹی سے جابر بن حیان، البیرونی، الخوارزمی، الزہراوی اور فارابی نہیں بلکہ ویلنٹائن کے پیروکار برگر لڑکے لڑکیاں تیار ہو کر نکل رہے ہیں۔ جن کی کل کائنات پری پیکر اور پری زاد بننے تک محدود ہے۔ جن کو سوزِ امت نہپں بریک اپ رلاتا ہے۔ افسوس! جن کی وضع میں شبیری و حیدری دکھائی دینی تھی، جن کی تیغ جہاں دار و جہآں گیر ہونی تھی، جن کی ہیبت سے کفار سہمے ہوئے رہتے تھے ، جن کے دم سے اقوام کی تقدیر تھی, جو ملت کے ستارے تھے، وہ پروانے شمعِ رسالت کے گرد رقصِ بسمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ وہ کفر کی تقلید میں کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین پر رینگ رہے ہیں۔ نا مستقبل کے معمار ہیں نا ملت کے طائرِ لاہوتی ، نا غیرت ہی بچی ہے نا عزت کا پاس ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں