آج ہمارے معاشرے میں جو خرابیاں شدت کے ساتھ جنم لے چکی ہیں، ان میں سے ایک “ناشکری” بھی ہے۔
یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقسیم اور اس کی عطا پر خوش نہیں ہوتے۔
آپ کہیں گے یہ کیسے؟
دیکھیں! ہمارے پاس مال و دولت کی کتنی ہی فراوانی کیوں نہ ہو، دنیاوی آرائش و آسائش کا کتنا ہی سامان ہمیں میسر کیوں نہ ہو مگر ہم خوش نہیں ہوتے، صبر نہیں کرتے اور قناعت نہیں اختیار کرتے۔
یہ تو اللہ کی عطا پر رضا نہ ہوئی نا۔
اور جہاں تک خدائی تقسیم پر خوش نہ رہنے کا معاملہ ہے، اس کے لیے بس اتنی بات ہی کافی ہے کہ ہمارے پاس اور ہمارے بھائیوں، دوستوں، پڑوسیوں اور دیگر لوگوں کے پاس جو نعمتیں ہیں، کسی کے پاس زیادہ اور کسی کے پاس کم،
یہ اللہ ہی کی تقسیم ہے نا مگر کیا ہم کسی کے پاس اچھی گاڑی، اچھا مکان، اچھا کاروبار، اچھا لباس دیکھ کر برداشت کرلیتے ہیں؟ نہیں۔۔۔۔!
اللہ معاف فرمائے! ہم اپنے پاس موجود خالقِ ارض و سما کی بے شمار اور بے بہا نعمتیں بھول کر، اس فکر میں پڑ جاتے ہیں کہ
یہ اس کے پاس کیوں ہے؟
میرے پاس کیوں نہیں؟ کب تک اس کے پاس رہے گی اور کب اس سے چھینی جائے جائے گی؟
ہم کسی کی ذہنی صلاحیت و قابلیت دیکھ کر پیچ و تاب کھانے لگتے ہیں۔ کوئی کسی رفاہی، سیاسی، تعلیمی اور دینی میدان میں کتنی خدمات فراہم کررہا ہے، ہم یہ دیکھ کر بھی بے چین رہتے ہیں۔
یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اگر کوئی نیکی کی راہ پر چلا ہے تو اس پر بھی ہمیں کرب ہوتا ہے کہ یہ نیک ہے، تو کیوں ہے؟
یہ بھی کوئی سوچ ہے؟ کیا یہ بھی کوئی بات ہے؟
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اچھا اگر ہم حسد بھی کرتے ہیں تو اس کا فائدہ کون اٹھاتا ہے اور نقصان کس کے کھاتے میں جا پڑتا ہے؟
یہ بات تو طے ہے کہ “اگر اللہ کریم نہ چاہیں تو ہم کسی کی پاس موجود نعمت ختم نہیں کرسکتے!
جسے نعمتوں سے اللہ تعالیٰ نے نواز رکھا ہے، ہم کون ہوتے ہیں اس نعمت کو فنا کرنے والے؟
سچی بات ہے کہ ہمارے حسد کرنے کا ہمیں ہی نقصان ہوتا ہے محسود تو فائدہ ہی اٹھاتا ہے۔
ہماری جسمانی انرجی خرچ ہوتی ہے، وقت جیسا قیمتی سرمایہ فضول میں گزر جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری نیکیاں ضائع ہوتی ہیں۔
لہذا سوچ بدلیں! اپنا معیار تبدیل کریں اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللّٰہ علیہ کے اس جان دار مقولے پر عمل کریں۔
قیدوا النعم بالشکر
(کتاب الشکر لابن أبی الدنیا)
”اپنی نعمتیں شکر کے ذریعے قید میں رکھیے۔“
اپنی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں تاکہ وہ محفوظ بھی رہیں اور بڑھتی بھی رہیں اور کسی کی نعمتوں کو اللہ کی تقسیم کا منصفانہ عمل سمجھ کر پریشان نہ ہوں۔ سولہ آنے درست بات ہے کہ اگر ہم اس فارمولے پر عمل پیرا ہوجائیں تو ہماری زندگی میں سکون آجائے گا۔
ڈپریشن، ٹینشن، اضطرابی اور ہیجانی کیفیت سے ہماری جان چھوٹ جائے۔
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرح شیخ ابنِ عطار رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے:
”جو نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ گویا کہ خود زوالِ نعمت کے اسباب مہیا کرتا ہے اور جو شکر ادا کرتا ہے، وہ نعمتوں کو اسی سے باندھ کر رکھتا ہے۔“ (التحریر و التنویر جلد 1)
شکر کرنے کی عادت بنائیں کیوں کہ شکر کا بہت اعلی مقام ہے۔ شکر اطاعتِ خداوندی کا ذریعہ ہے اور اس کی بدولت گناہ چھوٹتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہمیں کئی ایک مواقع پر شکر بجا لانے کا کہا گیا ہے۔
چناں چہ سورۂ النحل میں ارشادِ ربانی ہے کہ:
”اگر تم اللہ کی دی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکو گے۔“
پارہ نمبر 2 سورۂ بقرہ میں ہے کہ: ”میرا شکر ادا کرتے رہیے، ناشکری نہ کیجیے۔“
اسی طرح پارہ نمبر 13 سورۂ ابراہیم میں ہے کہ:
”اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم نے ناشکری کا وطیرہ بنایا تو میں تمہیں درد ناک عذاب سے دوچار کروں گا۔“
شکر کی بہت سی صورتیں ہیں۔ شکر صرف زبان سے نہیں، دل سے بھی ہوتا ہے اور دیگر جسمانی اعضاء سے بھی ہوتا ہے۔
ہر ایک چیز کا شکر اپنے شایانِ شان طریقے سے ادا ہوتا ہے۔
اعضاء کے شکر سے مراد ہے کہ خالقِ ارض و سما کی نافرمانی میں ان کا استعمال نہ ہو۔
اور انسان ذکرِ الہی میں رطب اللسان رہے۔
کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ محسن کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ہمارے سب سے بڑے محسن ہمارا رب العالمین اللہ تعالیٰ ہے۔ ہم ہر وقت اس عظیم ذات کی عطا کردہ نعمتوں کے سائے میں رہتے ہیں۔
تو ہمیں ہمہ وقت اپنے قول و فعل سے اس کریم و مہربان ذات کا شکریہ بھی بجا لانا چاہیے۔
نام ور اسلامی اسکالر شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم مرحوم اکثر و بیشتر کہا کرتے تھے:
”یہاں ایک بات اور بھی اہم ہے کہ اگر کسی انسان نے بھی ہم پر احسان کیا ہو یا ہمارا کسی درجے میں بھلا کیا ہو اس کا شکریہ بھی ادا کیا جانا چاہیے۔“
حضرت محمد مصطفیٰ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ:
”جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا وہ اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرسکتا۔“
ناشکری کا مرض بہت سی قباحتوں اور برائیوں کا ضامن ہے۔ یہ مرض، نعمتوں کو دیمک کی طرح چاٹ کھاتا ہے۔ یہ اللہ کی نافرمانی کا موجب ہے۔
ناشکری کئی صورتوں میں کی جاتی ہے۔ مثلاً
حرام کاموں میں مبتلا ہونا، احسان جتلانا، زبان سے گلے شکوے کرنا اور فحش گالیاں دینا، دوسروں کی نعمتیں دیکھ کر حسد کرنا اور ہمارے ناقص خیال میں ناشکری کا سب سے بڑا فطور، اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنا کمال سمجھنا ہے جبکہ ناشکری کے معاملے میں سب سے بڑا دخل “نفسانی خواہشات” کا ہے۔