139

پاکستان میں تعلیمی صورتحال /تحریر/عبدالروف ملک (کمالیہ)

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے ایک نہ ایک دن یہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔ قیامِ پاکستان سے امروز یہ ملک اور اسکی عوام اسی کشمکش میں ہیں کہ اس وطن کے حالات کب ٹھیک ہونگے۔ مبصرین کے تبصرے، بین الاقوامی معیشت دانوں اور انٹرنیشنل میڈیا پہ ہونے والی گفتگو سے جو جواب ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے جو زندگی اور موت کی کشمکش میں آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔
اگر ملک کی سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو صورتحال کافی مایوس کن ہے ایک طرف سیاستدان اختیارات کا رونا رو رہے ہیں دوسری طرف سیاست میں نفرت، عدم تعاون، برداشت کا فقدان، اقتدار کی ہوس اور انتشارپسندی اس حد تک ہے کہ ایک بڑے سیاسی رہنما سے لے کر ایک ادنیٰ ورکر تک تمام کے تمام ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، غدار، سلیکٹیڈ اور نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور عوام بیچاری بےیقینی اور مایوسی کی سی کیفیت میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر عوام کے لیے زندگی بسر کرنا کی بجائے “زندگی کا بوجھ برداشت کرنا” کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کیونکہ کارخانے، برآمدات، صنعتیں اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے بےروزگاری کی شرح میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے نتیجتاً ایک عام آدمی کیلیے عرصہ حیات تنگ ہوچکا ہے۔
تعلیم عوام کا حق اور ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن صد افسوس تعلیمی نظام اور اسکی فراہمی میں بھی ہم بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ دور جدید میں اگر کسی نے تعلیمی پسماندگی کی بدترین مثالیں دیکھنی ہوں تو پاکستان میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ جسے اس ملک کا نظام شاید آثار قدیمہ یا کھنڈرات کی صورت میں زندہ رکھنا چاہتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ تعلیمی پالیسیاں بنانے والے افسران ہمارے زمینی حقائق سے نابلد اندھادھند مغربی پالیسیوں کی اقتدا میں لگے ہوئے ہیں جنکو فالو کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اساتذہ سوائے بچوں کو پڑھانے کے باقی تمام کاموں میں خود کو الجھائے رکھیں۔
حال ہی میں پاکستان بالخصوص پنجاب کے بیشتر اضلاع میں سموگ کا عفریت ایک عذاب بن کر اپنے پر پھیلا چکا ہے اور اس سے بچاؤ کیلیے تعلیمی اداروں میں چھٹیاں کی جارہی ہیں جسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس آفت سے نپٹنے اور اسکے تدارک کیلیے ہمارے اربابِ اختیار کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ چھٹیاں اس مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ بطورِ معلم میں بہتر جانتا ہوں کہ ان دنوں تعلیمی عمل زوروں پہ ہوتا ہے اور طلبا و اساتذہ پورے انہماک سے امتحان کی تیاریوں میں لگے ہوتے ہیں ایسی صورتحال میں تعلیمی عمل میں یہ تعطل سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ بجائے سکولوں میں چھٹیاں کرنے کے سموگ کےمحرکات پہ قابو پائے ناکہ طلبا کا تعلیمی نقصان کرے۔ ویسے بھی گنجان آباد شہروں میں سموگ واقعی ایک سنگین مسئلہ ہے جبکہ چھوٹے شہر اور مضافات اس آفت سے محفوظ ہیں وہاں پہ چھٹیوں کا مطلب سوائے تعلیمی حرج کے کچھ بھی نہیں ہے۔
کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں اور مساوات کے سب سے بڑے علمبردار بھی لیکن باقی معاملات کی طرح ہمارا نظامِ تعلیم بھی اعلیٰ و ادنیٰ کے درجات میں بٹا ہوا ہے۔ ریاست کے تعلیمی ڈھانچے کو امیر وغریب کے لیے یکساں کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔ تعلیم کے حصول میں درجہ بندی یعنی ایک عام شہری اور ایلیٹ کلاس کے بچوں کیلیے الگ الگ نصاب اور سہولیات ریاست کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔ یکساں نصاب تعلیم کا نعرہ تو مختلف ادوار میں لگایا جاتا رہا لیکن افسوس کہ اس کیلیے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ امیر اور غریب کا یہ تفاوت ہماری قوم کیلیے ایک ایسا لاینحل مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کیلیے کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غریب عوام کے بچے ملکی ترقی اور اسکے انتظامی امور میں خاطرخواہ خدمات سرانجام نہیں دے پاتے اور ایلیٹ کلاس کے بچے افسرشاہی نظام کے پروردہ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر سیاہ وسفید کے مالک بن جاتے ہیں جہاں نہ میرٹ ہوتا ہے اور نہ مساوات اور ہمدردی جیسے جذبات۔
یاد رہے کہ کسی بھی قوم کی تعلیمی پسماندگی کا مطلب صرف اسکی شرح خواندگی میں کمی ہی نہیں ہوتا بلکہ اسکا مطلب اسکی اخلاقی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی پسماندگی بھی ہوتا ہے ایسی قومیں نہ صرف اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں بلکہ ادب آداب اور اخلاقیات سے بالکل ناآشنا ہوتی ہیں۔
بدقسمی سے جوں جوں پاکستان میں خواندگی کے شرح بڑھ رہی ہے ہر شعبہ زندگی میں پسماندگی، جہالت اور مادیت پرستی بھی بڑھتی ہی جارہی ہے ہم تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناکامیوں کی سیڑھیاں بھی چڑھتے جارہے ہیں ہماری نوجوان نسلیں اعلیٰ نمبر لے کر ڈگریوں کے حصول کیلیے ہر جائز و ناجائز ذرائع کا بےدریغ استعمال کررہے ہیں۔ افسوس کہ ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ڈگری ہولڈر ہونے کے باوجود اچھی تربیت اور اعلیٰ و مثالی کردار سے محروم ہیں نتیجتاً ہم ڈاکٹرز، بزنس مین، انجینئرز، سیاستدان، بیوروکریٹ اور مبلغ تو بن گئے لیکن اچھے انسان اور معاشرے کیلیے مفید شہری نہ بن سکے۔
آج ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور اپنے تعلیمی نظام میں بہتری کیلیے اصلاحات کریں جو ہمارے زمینی حقائق سے مطابقت رکھتی ہوں جس میں طلبا پر کتابوں کا بوجھ لادنے کی بجائے انکی کردارسازی کی طرف توجہ دی جائے کیونکہ تعلیم کی اصل روح ہی کردارسازی اور تربیت ہے جیسا کہ افلاطون نے کہا تھا کہ
“ریاست شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بنتی بلکہ ریاست انسان کے کردار سے وجود پاتی ہے”۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں