73

پاکستان میں خوف کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے ؟/تحریر/الیاب دت

سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ خوف کیا ہے ؟ اور اس کی وجوہات یا ذرائع کیا ہیں؟

خوف ایک طاقتور اور وسیع جذبہ ہے۔ پاکستان کے تناظر میں، دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں کی طرح، یہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتا ہے، جیسے دہشت گردی کا خوف، امتیازی سلوک کا خوف، یا نامعلوم کا خوف۔ خوف کا خاتمہ اور اتحاد کو فروغ دینا ملک کی ترقی اور بہبود کے لیے ایک اہم کوشش ہے۔ خوف بہت سے ذرائع سے آ سکتا ہے، اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ کئی اہم عوامل اس خوف میں حصہ ڈالتے ہیں جو افراد اور برادریوں کو ہو سکتا ہے:
پاکستان کو دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی سمیت اہم سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ خطرات عوام میں خوف اور بے یقینی پیدا کر سکتے ہیں معاشی عدم استحکام، بے روزگاری، اور غربت کسی کے مستقبل کے بارے میں خوف اور عدم تحفظ کے جذبات کا باعث بن سکتی ہے۔
پاکستان میں مختلف ثقافتوں، زبانوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ تاہم، ان اختلافات کی بنیاد پر تقسیم اور تعصبات خوف پیدا کر سکتے ہیں۔سیاسی غیر یقینی صورتحال ،سیاسی عدم استحکام اور حکمرانی کے مسائل ملک اور اس کے اداروں کے مستقبل کے بارے میں خوف کا باعث بن سکتے ہیں۔
صحت کے بحران واقعات جیسے وبائی امراض ، دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ ، ہسپتالوں میں عدم سہولیات نے بھی صحت اور حفاظت کے حوالے سے خوف اور غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے۔
میڈیا میں جس طرح سے مسائل کو پیش کیا جاتا ہے اس سے خوف بڑھ سکتا ہے۔ سنسنی خیزی اور منفی رپورٹنگ عوامی اضطراب میں حصہ ڈال سکتی ہے۔سٹوڈنٹس میں کالجوں کی فیسوں میں اضافہ ، فراڈ کالجز جیسی صورتحال کی وجہ سے بھی خوف پیدا ہو سکتا ہے

اب سوال یہاں یہ ہے کہ پاکستان میں خوف کم کرنے کی حکمت عملی کیا ہوسکتی ہے؟ پاکستان میں خوف کو کم کرنے اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں افراد، کمیونٹیز اور حکومت شامل ہو۔تعلیم کو فروغ دینا،تعلیم خوف کا مقابلہ کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ معیاری تعلیم تک رسائی کو بہتر بنا کر اور تنقیدی سوچ کو فروغ دے کر، پاکستان اپنے شہریوں کو باخبر فیصلے کرنے اور دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنے کا اختیار دے سکتا ہے۔معاشی عدم تحفظ کو کم کرنا بہت ضروری ہے۔ ملازمت کے مواقع پیدا کرنا، چھوٹے کاروباروں کو سپورٹ کرنا، اور آمدنی میں اضافہ مالی عدم استحکام کے خوف کو کم کر سکتا ہے۔کمیونٹی انگیجمنٹ ، کمیونٹی کی شمولیت اور تعاون کی حوصلہ افزائی اعتماد پیدا کرنے اور خوف کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ کمیونٹی پر مبنی پروگرام آپس میں تعلق اور باہمی تعاون کے احساس کو فروغ دے سکتے ہیں۔بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمہ ، پاکستان کا مختلف مذہبی اور ثقافتی منظر نامہ طاقت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مختلف کمیونٹیز کے درمیان بات چیت اور افہام و تفہیم کی حوصلہ افزائی تقسیم کو ختم کرنے اور خوف کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔
میڈیا کا کردار ، میڈیا عوامی تاثر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ذمہ دارانہ اور غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی سے سنسنی خیزی اور خوف پھیلانے سے لڑنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سیاسی استحکام اور مضبوط حکمرانی تحفظ کا احساس فراہم کر سکتی ہے اور خوف کو کم کر سکتی ہے۔ شفاف اور جوابدہ قیادت ضروری ہے۔
بین الاقوامی تعاون ، پاکستان سلامتی اور اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کر سکتا ہے۔ ہمسایہ ممالک اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ تعاون استحکام میں کردار ادا کر سکتا ہے۔

ایک اور بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں چند لوگوں نے پاکستان کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، پاکستان کو توڑنے کے لیے وہ یہاں بسنے والے لوگوں کو آپس میں مذہب ،برادریوں ، زبان ، پنجابی سندھی ، بلوچی ، پختون میں فرق کرکے ہمیشہ لڑوایا ہے . ایک ایسی ہی مثال ہمیں ملتی ہے جب بنگلادیش ہم سے الگ ہوا تھا.
اتحاد خوف کو کم کرنے اور ایک خوشحال اور ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر میں سنگ بنیاد ہے۔ اختلافات کا احترام، مختلف کمیونٹیز کے درمیان اختلافات کو پہچاننا اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اتحاد کا مطلب یکسانیت نہیں بلکہ بقائے باہمی اور باہمی احترام ہے۔
نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں۔ اتحاد، رواداری اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے والے اقدامات میں انہیں شامل کرنا بہت ضروری ہے۔سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور نچلی سطح کے اقدامات اتحاد کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی کوششوں کی حمایت مثبت اثر ڈال سکتی ہے۔حکومتی پالیسیاں جو مساوات، انصاف اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو فروغ دیتی ہیں اتحاد اور خوف کو کم کرنے میں معاون ہیں۔پاکستان میں خوف کو کم کرنا اور اتحاد کو فروغ دینا ایک مسلسل اور ترقی پذیر عمل ہے۔ اس کے لیے افراد، برادریوں اور حکومت کے عزم کی ضرورت ہے۔ خوف کے ذرائع سے نمٹنے، تعلیم کو فروغ دینے، بات چیت کی حوصلہ افزائی اور اتحاد پر زور دے کر پاکستان مزید پرامن اور خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اتحاد کا مطلب اختلافات کی عدم موجودگی نہیں ہے بلکہ باہمی احترام کے ساتھ معاملات کو حل کرنا ہے۔ اتحاد میں، پاکستان خوف اور تقسیم پر قابو پا سکتا ہے۔خوف کو ختم کرنا اور کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کی تعمیر میں اجتماعی کوشش شامل ہے۔

پاکستانی عوام سے خوف ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری قدم آزادی اظہار رائے دیا جائے عوام کو نہ کہ عوام کی زبان بند کرنے کے لیے گرفتاریاں کی جائے، اس کے بعد عوام کو ان کی مرضی کا حکمران اور حکومت بنانے دی جائے ، عدالتوں کو انصاف پر مبنی فیصلے کرنے چاہیے ہیں ، آئین پر عمل درآمد ہونا لازمی ہے ، اداروں کو اپنی ڈومین / حدود میں رہ کر عوام کے لیے اپنے فرائض انجام دینے چاہیے ہیں ناکہ ان کو سیاست میں مداخلت کرنی چاہیے ، نامعلوم افراد لوگوں کو اغوا کرنے سے پرہیز کریں، کسی ایک سیاسی جماعت کے خلاف انٹرویوز اور پریس کانفرنسز کروانے کی بجائےسانحہ جڑنوالہ اور سانحہ شانتی نگر میں ملوث تشدد پسند عناصر کو قانون کے کہڑے میں کھڑا کیا جائے اور ان کو سزا دی جائے. عوام کے حق میں مہنگائی کم کرنے ، عوام کے لیے روزگار پیدا کرنے اور طلباء پاکستان کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے ، نوجوانوں کو سیاست میں شامل کرنے اور چند خاندانوں کی پاکستان پر سے بادشاہت کو ختم کرنے جیسے اقدامات اُٹھائے جائے.
پاکستانی عوام اپنے ملک میں ہونے والی ناانصافیوں اور جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے احتجاج کی پرامن شکلوں کو فروغ دینا، قانونی ذرائع سے تبدیلی کی وکالت کرنا، اور ناانصافی کے شکار افراد کو وسائل اور مدد فراہم کرنے والی تنظیموں کی حمایت کرنا شامل ہیں۔ کمیونٹی کے احساس کو فروغ دینا اور موجودہ مسائل کے بارے میں مکالمے اور تعلیم کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ضروری ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ظلم و ستم کا مقابلہ کرنا ایک طویل مدتی اور کثیر جہتی کوشش ہے۔ تبدیلی کے لیے اکثر استقامت، تعاون، اور انصاف اور انسانی حقوق کے لیے عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اقدامات اٹھا کر، پاکستانی عوام ایک زیادہ جامع اور روادار معاشرے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں جہاں ظلم و ستم آہستہ آہستہ کم ہوتا ہے اور بالآخر ختم ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں