179

ڈاکٹر زری اشرف اور مزاح نگاری/تحریر/ابوذر علی

ایک مزاح نگار زندگی میں موجود ناہمواریوں کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ تخلیقی سطح پر اس کا اظہار یوں کرتا ہے کہ اس سے ہنسی کو تحریک ملتی ہے۔ طنز اور مزاح میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ ایک مزاح نگار مزاح کا حصہ بن کر اس سے محظوظ ہو رہا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر زری اشرف صاحبہ شعبہ طب سے وابستہ ہیں طب سے مراد کوئی حکمت شکمت نہیں بلکہ انگریزی ڈاکٹر ہیں انگریزی سے مراد ہرگز یہ بھی نہیں کہ آپ مریضوں کو انگریزی سکھاتی ہیں بلکہ آپ ملتان کی ایک منجھی ہوئی Gynecologistہیں گائنا کالوجسٹ کے اسپلینگ ٹھیک لکھے نا؟ کیونکہ میری انگریزی صرف کمزور نہیں بلکہ بہت کمزور ہے شکر پڑھتا ہوں کہ پھر بھی اداکارہ میرا سے میری انگریزی بہتر ہے کیونکہ میرا کی انگریزی پر نہ صرف انگریز ہنستے ہیں بلکہ ہم جیسے پاکستانی بھی ہنستے جو خود انگریزی میں کسی کو impress کرنے کیلئے انگریزی کے چند جملے گوگل ٹرانسلیٹر سے حاصل کرتے ہیں مزے کی بات یہ ہے گوگل بھی محاوروں کے ترجمے میں گوگل ٹرانسلیٹر کافی کمزور ہے، اس ٹول سے جملوں کو ٹرانسلیٹ کرنا بھی اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا ہے ۔پاکستانی مردوں کے لیے اپنی بیوی کو سسرال لینے جانا اتنا مشکل کام نہ ہوگا، جتنا گوگل کےاس ترجمے کو پڑھنا جو ہم اردو سے انگلش کرتے ہیں ، شاید یہ پڑھ کر بیویاں اپنے میکے جانا ہی بند نہ کردیں ٫جب پیار کیا تو ڈرنا کیا’ کا اگر انگریزی میں ترجمہ کریں تو وہ کچھ یوں بنتا ‘why are you scared when you are in love’، تاہم گوگل ٹرانسلیٹر کا ترجمہ سمجھ سے بالاتر ہے گوگل صاحب لکھتے ہیں when love fear تو کیا کریں ہم جیسوں کیلیئے تو یہ گوگل ہم سے ہماری انگریزی ہی چھین رہا ہے۔ انگریز برصغیر سے جاتے ہوئے اپنی اپنی انگریزنیوں کو تو ساتھ لے گئے۔تاہم انگریزی ہمارے واسطے بطور عذاب اور امتحان کے چھوڑ گئے۔ہم ٹھہرے باوقار پاکستانی،اپنی چائے میں مکھی بھی پڑ جائے تو اسے مکمل نچوڑ کر اور کبھی کبھار چوس کر چائے بدر کرتے ہوئے کہیں دور پھینک کر بقیہ چائے یہ کہتے ہوئے پی لیتے ہیں کہ حلال کمائی کی ہے، مگر کسی کی جھوٹی چائے کو تو ہاتھ لگانے کے لئے بھی تیار نہیں کہ کراہت آتی ہے دیکھ لیں ایک طرف سے پکے مسلمان دوسری طرف سے پکے جینٹلمین خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی لوگ کہتے ہیں زبان کو لگام دیں لیکن ہماری نام نہاد دانشوڑی کو لگام چاہیے۔ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ایک سال پہلے ریڈیو پروگرام کیا تھا تو آج فیسبک میموری نے یاد دلایا دوبارہ نشر مکرر طور پر لگا بھی رہا ہوں ڈاکٹر صاحبہ سے باتیں کر کے ہم بھی ہمیشہ محظوظ ہوتے ہیں بہت کم لوگ زندہ دل انسان ہوتے ہیں جن کو سن کر دل کرتا ہے سنتے ہی رہیں ویسے وہی پروگرام دوبارہ آج میں نے خود سنا تو احساس ہوا کہ شاید میں نے ڈاکٹر صاحبہ کو بولنے کا موقع کم مہیا کیا خیر ہے ڈاکٹر صاحبہ کے ہم اپنے ہی بچے ہیں کوئی بڑے وسیم اکرم پلس تو نہیں نا آپ بھی چاہتی ہیں نا کہ بچے زیادہ بولیں ویسے معصومانہ سوال ہے ڈاکٹر صاحبہ وسیم بادامی سے تو کم ہی بولا ہوگا خیر دوبارہ اگر آپ نے محبت و شفقت بانٹی تو زیادہ موقع آپکو دونگا.ڈاکٹر صاحبہ کے طبی خدمات کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا آپ وہ گوگل سرچ بکس میں حقیقی مسیحا یا ڈاکٹر زری اشرف بھی لکھ دینگے تو وہ مضمون نظر آ جائیگا٫لیکن آج ڈاکٹر صاحبہ کے دوسرے پہلو پر مختصراً روشنی ڈالتے ہیں ڈاکٹر صاحبہ کو خالق کائنات نے ایک اور اضافی خوبی سے بھی نواز رکھا ہے کہ آپ کو مزاح یا مزاحیہ میمزز لکھنے پر بھر پور دسترس حاصل ہے آپ نے کوئی کتاب نہیں لکھی اور نہ لکھنا چاہتی ہیں مگر مجھے کوئی پبلشر پڑھ رہا ہے تو گزارش ہے آپکی گزشتہ سال بھر کی وہی میمز اٹھا کر کتابی شکل دی جائے تو لوگوں کا خون بڑھانے والی کتاب بھی مرتب ہو سکتی ہے اور پبلشر کی تجوری میں بھی اضافہ ممکن ہے اصلی دانشور لکھتے ہیں کہ مزاح پڑھنے سے خون بڑھتا ہے تو عوام الناس کیلئے یہ بھلا ضرور ہونا چاہیے۔مختصر مزاح لکھنا بھی طویل اور قدرے گہری سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس میں مزاح نگار اپنے جملوں میں حسن و دلچسپی بڑھانے کیلئیے مبالغہ آرائی سے بھی کام لیتے ہیں ، جو قہقہ ہوتا اسکی عمر عارضی ہوتی ہے جو مسکراہٹ ہے وہ دیرپا ہوتی ہے میرا بھی ذاتی خیال ہے کہ مزاحیہ میمز طویل عرصہ تک زندہ رہتی ہیں٫ تو اسی مضمون کا سہارہ لیتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا وطن عزیز میں طنز و مزاح لکھنے والوں کو نہ انکا جائز مقام ملا اور نہ سنجیدہ لکھنے والوں کو ۔بعض جگہ تو ان کے ساتھ ناروا سلوک بھی ہوا ہے۔ دراصل ادیب شاعروں کو اس بات کا گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہوئی ہیں (جو ظرافت کی نہیں ہوتیں) دراں حالانکہ سارے ملک میں مزاح نگار گنتی کے چند ایک ہیں، جبکہ ادیب شاعر تو سینکڑوں ہزاروں ہیں۔ میدان ظرافت میں خامہ فرصائی کرنے والے بڑا اہم کام کرتے ہیں۔ اس اضطراب اور کشمکش کے دور میں لوگوں کو خوش کرنا عبادت ہے۔ لوگ باگ مزاح کی اچھی کتابیں پڑھ کر کئی دن شاداں و فرحاں رہتے ہیں۔ ویسے مَیں تو ایسی کتابیں پڑھ کر اب تک رقصِ تبسم کر رہا ہوں۔ آج کے پُرآشوب حالات میں اچھا مزاح لکھنا عبادت ہے تو میں سمجھتا ہوں کم از کم مزاح نگاروں کو ہی تو انکے حقوق دیئے جائیں ایک مزاح نگار زندگی میں موجود ناہمواریوں کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ تخلیقی سطح پر اس کا اظہار یوں کرتا ہے کہ اس سے ہنسی کو تحریک ملتی ہے۔ طنز اور مزاح میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ ایک مزاح نگار مزاح کا حصہ بن کر اس سے محظوظ ہو رہا ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں