پاکستان کو قاٸم ہوٸے 76 سال ہو گٸے ہیں۔ اور اتنے ہی عرصے سے پاکستانی حکومت پاکستان کا ہر سال جولاٸی اگست میں پروپیگنڈا سنتے آ رہے ہیں کہ ہندوستان نے پاکستان پر آبی جارحیت کر کے اسے سیلاب میں ڈبو دیا ہے۔ ہر سال پانی چھوڑنا ہندوستان کی مجبوری ہے۔ وہ ایسا نہ کرے تو خود سیلاب میں ڈوب جاٸے۔ وہ خوشی سے ہماری طرف پانی نہیں چھوڑتا۔ اس کی خوشی تو اس میں ہے کہ پاکستان کو پانی کی ایک بوند بھی نہ ملے۔ وہ اپنے دریاٶں پر مسلسل ڈیم بنا کر ہمارا پانی روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ہمارے دریا خشک ہو جاٸیں۔ پاکستان پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسے۔ پانی وہ اسی وقت چھوڑتا ہے جب اسے سنبھال نہیں پاتا۔ بھارت کے ہر سال چھوڑے ہوٸے پانی کو پاکستان بھی ہر سال سنبھالنے سے قاصر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کبھی نچلے یا درمیانے درجے کا اور کبھی اونچے درجے کا سیلاب آ جاتا ہے۔ لوگ گھر سے بےگھر ہو جاتے ہیں۔ سینکڑوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ ہزاروں مویشی پانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے کچے اور پکے مکانات گر جاتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقے کو آفت زدہ قرار دے دیا جاتا ہے اور لوگوں کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لٸے حکومتی سروے شروع ہو جاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کی دادرسی ہو پاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ حکومتی امداد سے محروم ہی رہتے ہیں۔ وہ اپنی مدد آپ کے تحت خود کو بحال کرتے ہیں اور اگلے سال دوبارہ اسی صورتِ حال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سیلاب کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے۔ زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سبزیوں کا ریٹ کٸی گنا بڑھ جاتا ہے۔ تازہ دودھ کی دستیابی میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ سیلابی علاقے قحط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہاں وباٸی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ لاکھوں لوگ گھر سے بےگھر ہو کر کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پورے 76 سال سے یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔ سیلابی پانی ہمارے لٸے ہر سال زحمت بن جاتا ہے مگر کبھی کسی حکومت نے اس زحمت کو نعمت میں بدلنے کا نہیں سوچا۔ کسی نے مخالف ہواٶں کو اونچی اڑان بھرنے کے لٸے مددگار نہیں بنایا۔ سیلاب کو خداٸی عذاب سمجھ کر ہر سال کھربوں روپے کا نقصان برداشت کر لیا جاتا ہے۔ جاپان کا محلِ وقوع اس قسم کا ہے کہ اسے سارا سال زلزلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر جاپانیوں نے یہ نہیں سوچا کہ چونکہ زلزلوں سے بچنا ممکن نہیں لہٰذا ہم پختہ عمارتیں بنانے کی بجاٸے جھونپڑیوں میں رہا کریں گے۔ جاپان والوں نے اس کا حل نکالا۔ اس کے انجنیٸر سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے ایسے گھروں اور بڑی عمارتوں کے نقشے ڈیزاٸن کٸے جوزلزلہ پروف تھے۔ آپ دیکھ لیں، جاپان میں کٸی کٸی منزلہ عمارتیں موجود ہیں۔ وہاں روزانہ زلزلے آتے ہیں مگر ان عمارتوں کو کوٸی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔ جاپانیوں نے ان زلزلوں کے ساتھ رہنا اور ان کے نقصانات سے بچاٶ کا توڑ نکالنا سیکھ لیا۔ ہم نے ہر سال سیلاب کا انتظار کرنے اور پھر اس کا شکار ہونے کے آگے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ ہمارے اس رویّے کے بارے میں ایک مشہور لطیفہ بھی سن لیجٸے۔”فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوٸے اور عرض کی کہ نیویارک کی پندرہ منزلہ عمارت میں آگ لگ گٸی ہے۔ ہمارے لٸے کیا حکم ہے؟ حکم ہوا کہ کوٸی بات نہیں، سیانی قوم ہے۔ آگ پر قابو پالے گی۔چند دن بعد پھر فرشتے حاضر ہوٸے۔ اب کی بار لندن کی کوٸی اونچی عمارت آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں تھی۔ پھر وہی جواب ملا کہ سیانی قوم ہے آگ پر قابو پا لے گی۔کچھ عرصے بعد پھر فرشتے بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوٸے۔ اب کی بار کراچی کی کسی عمارت میں آگ لگی تھی۔ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوا، ”فوراً پہنچو اور آگ بجھا دو، انہوں نے اس آگ کا ذمہ دار مجھے ٹھہرا دینا ہے“کہنے کو یہ ایک لطیفہ ہے لیکن اس میں ہمارے قومی رویّے کی بھوپور عکاسی نظر آتی ہے۔ ہم نے سیلاب کو خداٸی عذاب سمجھ کر اس کی لپیٹ میں آنا اپنا مقدر سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ ڈیم بنا کر یہی سیلابی پانی اس میں ذخیرہ کر کے ملک کو سرسبز وشاداب بنایا جا سکتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کا ہر سال پانی کی تقسیم پر ہونے والا جھگڑا بھی ختم ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے خودغرض سیاستدانوں نے کالا باغ ڈیم پر سیاست کر کے اسے متنازعہ بنا دیا۔ صوبہ کے پی کے سیاستدانوں نے اپنی سیاست بچانے کی خاطر ریاستی مفید کو قربان کر دیا حالانکہ اسے بھی اس ڈیم سے اتنا ہی فاٸدہ پہنچنا تھا جتنا باقی صوبوں کو پہنچتا۔ حکومتوں نے بھی اس پر زیادہ سنجیدگی نہیں دکھاٸی ورنہ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور سوشل میڈیا پر کالا باغ ڈیم بنانے کی ضرورت پر بھرپور مہم چلا کر لوگوں کو اس کی افادیت سے آگاہی دینا اور موٹیویٹ کرنا مشکل کام نہیں ہے۔ چلتے چلتے حسبِ حال ایک اور لطیفہ بھی پڑھ لیجٸے۔ چند ہفتے پہلے ایک بہت بڑا سمندری طوفان آیا تھا۔ خدشہ تھا کہ وہ کراچی کے ساحل سے بھی ٹکراٸے گا مگر خوش قسمتی سے طوفان کا رخ مڑ گیا اور کراچی محفوظ رہا۔ اس پر کسی منچلے نے فقرہ کسا کہ ”طوفان کے نہ آنے سے سندھ حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہو گیا“کہیں ہمارے ہاں ڈیم بنانے نہ بنانے کا مقصد بھی ان غیر ملکی امداد کی صورت میں ملنے والے اربوں ڈالر کی امداد کا نقصان تو نہیں جو سیلاب آنے کی صورت میں ہمیں بطور بھیک ملتے ہیں۔ ورنہ کالا باغ ڈیم فی الحال ممکن نہیں تو کیا اس سے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے درجنوں بلکہ سینکڑوں ڈیم نہیں بناٸے جا سکتے۔ بھارت نے بھی تو اپنے دریاٶں پر ہزاروں ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک رکھا ہے نا۔ ہم ڈیم کیوں نہیں بنا سکتے ؟۔ کیونکہ اس کے لٸے قومی سوچ کی ضرورت ہے مگر ہماری تمام سیاسی لیڈرشپ قوم پر اپنی ذات اور سیاست کو ترجیح دیتی ہے۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل