ایک ایسا موضوع جسے آج کا ہر انسان جانے انجانے میں اس کا شکار ہو جاتا ہے جو کبھی بھی کسی بھی انسان پر آسیب کی مانند وارد ہوتا ہے۔ مزے کی بات ہے ہم جیسے نا فہم لوگ اس کو آسیب، جنات، جادو، تعویز وغیرہ وغیرہ سمجھ لیتے ہیں چونکہ یہ سب بھی سچ ہوتا ہے اس کائنات کی ہر سچائی کی طرح ان سب چیزوں کا وجود بھی سچ ہے لیکن ان سب سے وہموں کی اصل جڑ ہی ٹینشن، ڈیپریشن اور انگزائٹی۔
سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ ڈیپریشن آخر ہے کیا؟
اصل میں ڈیپریشن ایک ایسی کیفیت یا حالت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، ناکام تصور کر لیتا ہے اور یہی سوچ اس میں مزید منفی خیالات کو ابھارنے کا سبب بنتی ہے۔
اس طرح ایک نظر انگزائٹی پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ اصل میں ڈیپریشن اور انگزائٹی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر ڈیپریشن میں انسان کو ناکام ہونے ک احساس ہوتا ہے تو انگزائٹی اس پر مزید انسان کو مایوسیوں اور خوف کی طرف لے جاتی ہے. انہی خوف اور مایوسیوں کی وجہ سے انسان کھوکھلا ہوتا چلا جاتا ہے۔
با ظاہر بلکل ٹھیک نظر آنے والا انسان جب اس کا شکار ہوتا ہے تو وہ ذہنی طور پر ہر اس بیماری کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے جس کا وہ اپنے آس پاس ذکر سنتا ہے اور جب آپ خود کو ذہنی طور پر ہی بیمار تصور کر لیتے ہیں تو وہ بیماری وہ وہم حقیقت کا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ کوئی نا کوئی بات یا کوئی نا کوئی حادثہ انسانی اعصاب پر اس قدر سوار ہو جاتا ہے کہ انسان اپنے اندر بدلتی کیفیت کو خود نہیں سمجھ پاتا اپنے بدلتے رویوں کو نہیں سمجھ پاتا ایموشنلی وہ ایک کمزور شخص ثابت ہونے لگتا ہے۔
اس سے لڑنا، یا اس کو سمجھنا یا س بیماری کہ تہہ تک پہنچنا آسان کام نہیں ہے عام طور پر یہ چیز تب واضح ہوتی ہے جب انسان کو ڈیپریشن کھا جاتا ہے کھوکھلا کر دیتا ہے جیسے کہ دیمک لکڑی کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اس معاشرے میں ہمارے سامنے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک جو اس کو بیماری سمجھتے ہوئے ماہر نفسیات سے رابط کرتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ بابا، عامل وغیرہ کے پاس تشریف لے جاتے ہیں گو کہ اللہ کا کلام بر حق ہے اور شفا بھی لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ دعا کے ساتھ دوا کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ شعور کہ کمی کہ باعث با حثیت معاشرہ ہمیں بہت تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
آج کے جدید دور میں ڈیپریشن اور انگزائٹی کی مختلف وجوہات ہیں جو کہ ہرعمر کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فیصد تک نوٹ کی گئی ہے- اس میں زیادہ تر نوجوان لوگ شامل ہیں۔ کیونکہ 18 سال کی عمر کے بعد نوجوان کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے جس کے لئے وہ اچھی خاصی سوچ بچار کرتے ہیں، ضرورت سے زیادہ سوچنا انسان کو نفسیاتی بنا دیتا ہے۔
خود کو ان تمام ان دیکھی مصیبتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشش کیجئے خود کو جسمانی اور دماغی طور پر صحت مند رکھیں۔ اچھی خوراک اور اچھے ماحول میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں ۔ مثبت لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں۔ اپنی سوچوں کو انسانیت کے لیے فائدہ مند بنائیں۔ ورزش اور صبح کے اوقات میں چہل قدمی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں۔ سوچ بچار میں کم وقت ضائع کریں بلکہ اس کے بدلے خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔ اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ آپکی وجہ سے ہے۔