انسان کے لیے لکھنا ایک تخلیق ہے اور جب وہ اپنے خیالات کو کاغذ پر لکھ کر اپنے لفظوں میں ڈھالتا ہے۔ ان کو تسبیح کے دانوں کی طرح پروتا ہے تو وہ ایک تخلیق کار بن جاتا ہے۔ ایک ایسا لکھاری بن جاتا ہے جس کے لیے لکھنا ایسے ضروری ہوتا ہے جیسے جینے کے لیے سانس لینا ضروری ہوتا ہے۔
انسان کا بہترین دوست ہی اس کا قلم ہوتا ہے جس سے وہ اپنے ہر دکھ درد، غمی خوشی اپنے ہر احساس و جذبات کو کاغذ میں لکھ کے قید کر لیتا ہے۔ ہم اپنے یہ جذبات کسے سے بیان کر ہی نہیں پاتے ہیں۔ کچھ باتیں، کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی زبان تک آتے ہی نہیں ہیں بس دل میں رہ جاتے ہیں۔ تب ہمارا قلم ہمارے ان لفظوں کو، ہمارے جذباتوں کو قلم کے ذریعے بہت خوبصورتی سے لکھتا ہے۔ ان لفظوں میں اتنی جان آ جاتی ہے کہ انسان لکھتے ساتھ ہی خود کو پر سکون محسوس کرتا ہے۔ اس کے دل کا سارا بوجھ ختم ہو جاتا ہے۔
ہمارے الفاظ ہی ہماری پہچان کرواتے ہیں۔ میں ایسی تحریریں لکھنے کی کوشش اور خواہش کرتی ہوں جس سے پڑھ کر سب کو مثبت پیغام مل سکے، ان کی زندگیوں میں سکون، خوشی آسکے اور ان کو کافی سیکھنے کو مل سکے میرے لفظوں سے میری ہر تحریر سب کے دلوں کو چھو جائے۔ اس لیے میرا قلم میرے جذبات میری خواہشوں کو کاغذ پر لکھتا ہے تاکہ اس سے سب مستفید ہو سکیں۔
ہمارا قلم وہ واحد سہارا ہے جو ہر سوچ کو ہر لفظ کو کاغذ پر لکھنے کا ہنر جانتا ہے۔ ہم جتنا مرضی اداس ہوں، خوش ہوں، سب سے پہلے ہمارا قلم ہی ہمارے جذبات کو اپنے قابو میں کرتا ہے اور اس کو ایک کتاب کے صفحے کی زینت بنا دیتا ہے۔ ہمارا قلم، کاغذ ہی ہمارے جذبات اور خواہشوں کو ہمیشہ تھام کہ رکھتے ہیں اور ہمیں جینے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
