98

کرامات سیدنا فاروق اعظم ؄ اعجاز خان میو

مراد رسول ﷺ ، صحابی رسول ﷺسیدناعمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چند ایک کرامات قارئین کی معلومات مں اضافہ کے لئے پیش خدمت ہیں۔ ٭ دوران خطبہ ساریہ کو حکم: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساریہ کو سالار فوج بنا کر روانہ کیا ہوا تھا ۔ ایک دن دوران خطبہ آپ نے تین مرتبہ فرمایاکہ اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف ۔ تھوڑے دنوں بعد ایک سپاہی بار گاہ خلافت میں حاضر ہوا ۔ آپ کے حالات معلوم کرنے پر سپاہی نے کہا ! اے امیر المومنین !ایک مرتبہ ہمیں شکست ہورہی تھی کہ اس موقع پر ہم نے یہ آواز تین مرتبہ سنی :اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف ، چنانچہ ہم پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ نے ہمارے دشمنوں کو شکست دی ، جس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ! تم ٹھیک کہتے ہو! سپہ سالار جس پہاڑ کے پاس مصروف جنگ تھے وہ ایران میں نہاوند شہر کے پاس ہے ۔ ابن مردویہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ والد محترم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمعہ کے خطبہ کے دوران تین مرتبہ فرمایا ! ساریہ ! پہاڑ کی طرف ، اور دشمنان اسلام پر نرمی کرنا جائز نہیں ہے۔یہ سن کر لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے کہا : اب گھمسان کی لڑائی ہوگی ۔چنانچہ خطبہ کے بعد لوگوں کو معلوم کرنے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : مجھے دکھائی دیا کہ مشرک ہمارے مسلمان بھائیوں کو شکست دینے والے ہیں اور وہ پہاڑ کی جانب سے بھر پور حملہ کے لئے تیار ہیں ۔ اگر مسلمان ادھر ادھر متوجہ ہوجائیں تو ایک ایک کو چن چن کر ماریںگیورنہ حلاک ہو جائیں گے ۔ چنانچہ میری زبان سے وہ الفاظ نکلے جنہیں تم نے سنا ۔۔۔ اس واقعہ کے ایک ماہ بشیر نامی شخص مدینہ آیا اور اس نے بھی کہا کہ ہم سب نے فلاں تاریخ کو امیرالمومنین کا یہ حکم نہاوند پہاڑ کے پاس سنا تھا : اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف ۔ چنانچہ حکم کی تعمیل کرنے پر اللہ نے ہمیں فتح فرمائی ۔ ابو نعیم نے عمرو بن حارث کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دے رہے تھے ،اسی دوران میں ایک مرتبہ نیچے اترے اور تین مرتبہ فرمایا : اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف ۔ اس کے بعد پھر منبر پر جا کر خطبہ پڑھنے لگے ۔ یہ کیفیت دیکھ کر بعض حاضرین مسجد نے کہا : انہیں جنون ہو گیا ہے ۔ بعد اختتام نماز عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : آپ نے آج کے خطبہ کے دوران بولے گئے الفاظ سے لوگوں میں باتیں ہو رہی ہیں ،کیونکہ آپ نے بآواز بلند فرمایا : اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف ۔حالانکہ مسجد میں ساریہ و پہار موجود نہ تھے ۔ براہ کرم اس واقعہ کی حقیقت بیان فرمادیجئے ۔آپ نے جواب دیا : میں نے اسلامی دشمنوں کو دیکھا کہ وہ آگے پیچھے سے گھیرا ڈال کر مسلمانوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں ، چنانچہ میں نے ساریہ کو پہاڑکی طرف توجہ کرنے کا حکم دیا ۔آپ ابھی یہ فرما ہی رہے تھے کہ اتنے میں ساریہ کا قاصد بمع رپورٹ جنگ دربار خلافت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : ہم کو شکست ہونے ہی والی تھی کہ جمعہ کے دن ہم نے دو مرتبہ آواز سنی ! اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف ۔چنانچہ ہم لوگوں نے پہاڑ کی طرف رخ کیا اور دشمن کی بہادر فوج کو اللہ نے شکست دی ۔ہم نے ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی بچپن کے دوست نے اس واقعہ کے بعد آپ سے پوچھا کہ ہم بچپن میں اکٹھے ہی اونٹ چرایا کرتے تھے ۔تیرے اونٹ کئی مرتبہ گم ہوئے تمہیں پتہ نہ چلتا تھا اور میں تجھے تلاش کرکے دیتا تھا ،کئی بار تیرے باپ نے تجھے اسی لئے ڈنڈوں سے مارا بھی ۔ذرا یہ تو بتا اب تیری نگاہ سینکڑوں میل دور کس طرح چلی گئی ؟ آپ ؓ نے فرمایا : ’’ اس وقت میں تیرا دوست تھا اور اب محبوب خدا کا دوست ہوں ۔ یہ میری طاقت نہیں جس کے منبر پر بیٹھا ہوں اس کی طاقت ہے ۔‘‘ ٭ گھر جلنے کی اطلاع ابو القاسم بن بشران نے اپنی فوائد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ خلیفہ رسول ﷺ نے ایک شخص سے اس کا نام پوچھا :اس نے کہا: چنگاری ،پھر پوچھا : تمہارے باپ کا نام ؟ اس نے کہا : شعلہ ، پھر پوچھا : کس قبیلہ سے تعلق ہے ؟ اس نے کہا : آگ سے ، پھر پوچھا : کہاں رہتے ہو ؟ کہنے لگا ؟ گرمی میں ۔ اس سے پوچھا : یہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا : بھڑکنے والی ہے ۔یہ تمام جوابات سننے کے بعد فرمایا : جائو اپنے اہل وعیال کی خبر لو ! وہ جل رہے ہیں ۔جب اس شخص نے اپنے گھر جا کر دیکھا تو اس کا گھر جل رہا تھا اور اسکے اہل و عیال جھلس رہے تھے ۔ اس واقعہ کو امام مالک نے اپنے موطا میں یحیٰ وغیرہ کے ذریعہ اور ابن ، درید ابن کلبی وغیرہ نے بیان کیا ہے ۔ ٭دریائے نیل کے نام خط تاریخ الخلفاء میں ہے کہ جب حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصر فتح کر کے عجمیوں کی طرز پر ایک دن دربار عام منعقد کیا ، اس میں بعض لوگوں نے کہا : اے امیرالمومنین ! دریائے نیل کے جاری رکھنے کے لئے ہمارے ہاں پرانے وقتوں سے یہ طریقہ چلا آرہا کہ چاند کی گیارہویں رات کو ہم ایک نوجوان لڑکی کو اس کے والدین کی رضا مندی کے ساتھ بیش بہا کپڑے اورعمدہ زیور پہنا کر اور خوب سنگھار کرکے دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں ۔ اس پر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ گورنر مصر نے جواب دیا : یہ رسمیں تو اسلام ہرگز جائز نہیں اور اسلام غیر شرعی رسوم کو مٹانے آیا ہے ۔ اس سال یہ رسم ادا نہ کی گئی اور دریائے نیل تقریباً سوکھ گیا ،اس طرح اہالیان مصر تک وطن پر مجبور ہوگئے ۔ گورنر مصر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ رسول اللہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حالات وواقعات کی رپورٹ ارسال کی ، جس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ وعنہ نے فرمان جاری کیا : حالات و کوائف اور تمہارا عمل معلوم ہوا ، واقعی اسلام تمام غیر شرعی رسوم کو ختم کرنے آیا ، اسی کے ساتھ ایک اور خط بھی بھیجا جارہا ہے تم اسے دریائے نیل میں ڈال دینا ۔ جب آپ ؓ کا فرمان اور ملفوف خط ملا تو گورنر مصر نے اس ملفوٖ ف خط کو پڑھا جس میں لکھا تھا : منجانب بندہ اللہ عمر امیرالمومنین دریائے نیل کے نا م ! حمد و صلٰوۃ کے بعد معلوم ہو کہ اگر تواپنے اختیارقوت سے بہتا ہے تو ہرگز جاری نہ ہو اور اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رواں جاری ہوتا ہے تو میں اللہ واحد و قہار کی بارگاہ میں دست سوال دراز کرتا ہوں کہ تجھے جاری کردے اور تو رواں ہوجائے ۔ چنانچہ گور نر مصر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ستارہ صلیب نکلنے والی رات سے ایک دن پہلے یہ خط دریائے نیل میں ڈالا اور اہالیان مصر صبح کو خواب سے بیدا ر ہوئے تو دیکھا کہ ایک ہی رات میں اللہ تعالیٰ نے سولہ ہاتھ گہرا پانی دریائے نیل میں جاری کردیا ہے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہالیان مصر کی رسم دختر کشی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم پر اب تک دریائے نیل مسلسل جاری ہے ۔ ٭ حضرت عمر فاروق ؓ اور جھوٹ کی شناخت تاریخ الخلفاء میں ہے کہ کسی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جھوٹی باتیں کیں ۔ آپ ؓ نے فرمایا : خاموش رہو ، اس نے پھر دوسری بات کہی ، جس پر فرمایا: یہ نہ کہو !اس پر اس جھوٹے نے کہا : میں نے کچھ باتیں آپ ؓ سے سچ کہیںلیکن جو بات میں نے جھوٹی کہی ، آپ نے اس پر مجھے خاموشی کا حکم دیا۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جھوٹ بات کی شناخت کرنے والے صرف حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے کہ ہر جھوٹی بات ان کو فوراً معلوم ہوجاتی تھی اور وہ جھوٹے آدمی کو ٹوک بھی دیا کرتے تھے ۔ ٭ اہل عراق کے لئے بد دعا تاریخ الخلفاء کے مطابق جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ چلا کہ اہل عراق نے اپنے مقررہ حاکم کو پتھر مارکر ہلاک کردیا ہے تو یہ سن کر آپ کو غصہ آگیا ،پھر آپ نے نماز پڑھنے کے بعد دعا کی : اے اللہ ! عراقیوں نے مجھے دھوکہ دیا ، اس کی سزا میں ان پر ثقفی نوجوان کو حاکم مقرر کردے ۔ اس حوالے سے جلا ل الدین سیوطی لکھتے ہیں کہ ثقفی نوجوان سے مراد حجاج ہے جس نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جبکہ ابن لہیعہ بیان کرتے ہیں کہ ثقفی جوان تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔ ٭شیروں کے ذریعہ حفاظت : خلافت فاروقی کا زمانہ تھا کہ ایک عجمی شخص مدینہ طیبہ آیااور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلاش کر رہا تھا ۔کسی نے بتایا کہ کہیں آبادی کے باہر سورہے ہونگے ۔ وہ شخص آبادی کے باہر نکل کر آپ کو تلاش کرنے لگا ۔یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کو اس حالت میں پایا کہ وہ زمین پر سر کے نیچے دُرہ رکھے ہوئے سورہے تھے ۔ اس نے دل میں سوچا ساری دنیا میں اس شخص کی وجہ سے فتنہ و فساد برپا ہے ۔ اس لئے اس وقت ایران اور دوسرے ملکوں میں اسلامی فوجوں نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔لہٰذااس کو قتل کردینا ہی مناسب ہے اور آسان بھی ہے ۔ اس لئے کہ آبادی کے باہر سوتے ہوئے شخص کو مار ڈالنا کوئی مشکل بات نہیں ۔ یہ سوچ کر اس نے نیام سے تلوار نکالی اور آپ ؓ کی ذات با برکات پر وار کرنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک دو شیر نمودار ہوئے اور عجمی کی طرف بڑھے ۔ اس منظر کو دیکھ کر وہ چیخ پڑا ۔ اس کی آواز سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جاگ اٹھے ۔ آپ ؓ کے بیدار ہونے پر اس نے سارا واقعہ بیان کیا اور مسلمان ہو گیا ۔ ( سیرت خلفائے راشدین ) یہ بھی آپ ؓ کی کرامت ہے کہ شیر جو انسان کا جان لیوا ہیں وہ آپ کی جان کی حفاظت کے لئے نمودار ہو گئے اور کیوں نہ ہو کہ ’’ جو اللہ تعالیٰ کا ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ہوجاتا ہے اور ہر طرح اسکی حفاظت کرتا ہے ‘‘ ٭ زلزلہ رُک گیا اور سورج کی روشنی ماند پڑ گئی : ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ زلزلہ آگیا ۔ آپ ؓ نے زمین پر عصائے فاروقی مار کر فرمایا : ’’ رک جا کیا تیرے اوپر عمر انصاف نہیں کررہا تو کیوں کانپ رہی ہے ۔‘‘ وہ دن گیا اور یہ آیا آج تک مدینہ منورہ میں زلزلہ نہ آیا ۔ اسی طرح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ایک مرتبہ سورج کی روشنی ماند پڑگئی لوگ آپ ؓ کے پاس آئے اور پوچھا کیا ماجرہ ہے ؟ آپ نے فرمایا ؛ ’’ بس یوں ہی سورج کی دھوپ بہت ستا رہی تھی اور میں نے صرف اس کی طرف دیکھا ہی ہے ۔ (یارانِ مصطفیٰ ) ٭ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خواب : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک روز خواب دیکھا کہ مسجد نبوی میں خود حضور سید عالم ﷺ فجر کی نمازپڑھا رہے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔ سلام پھیرنے کے بعد حضور ﷺ مسجد کی دیوار کے ساتھ محراب کی طرف پشت انور لگا کر بیٹھ گئے ۔اتنے میں ایک عورت کھجوروں کا طباق لے کر حاضر ہوئی اور آپ کے سامنے وہ طباق پیش کیا ۔ حضور ﷺ نے اس میں سے ایک کھجور اٹھائی اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمائی اور باقی کھجوریں دوسرے نمازیوں میں تقسیم کردیں ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھل گئی اور آپ نے دیکھا کہ زبان پر وہی کھجور کا ذائقہ ہے ۔ جب صبح ہوئی تو آپ نماز فجر کے لئے مسجد میں تشریف لائے ۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نیحسب معمول خود نماز پڑھائی ۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی معمول کے مطابق آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کے جماعت میں شامل ہوئے ۔ نماز باجماعت سے فارغ ہو کر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد کی دیوار سے تکیہ لگا کر بیٹھ گئے ۔ بعینہ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رات کو خواب میں سید عالم ﷺ کو دیکھا تھا تھوڑی دیرہوئی تو ایک عورت مسجد کے دروازہ پر آگئی اور اس کے پاس کھجوروں کا طباق تھا ۔ پس وہ آگے بڑھی اور حضر ت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں کھجوروں کا طباق حاضر کر دیا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طباق سے ایک کھجور اٹھائی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منہ میں ڈالی اور باقی سب کھجوریں دوسرے نمازیوں میں تقسیم کر دیں ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک اور کھجور طلب کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ـ: ’’ اگر رات کو حضور ﷺ کی بار گاہ سے اور مل گئی تھی تو میں بھی دے دیتا ہوں ۔ ‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پو چھا گیا آپ کو یہ ساری بات (خواب والی) کس طرح معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : ’’ کیا حضور ﷺ نے فرمایا نہیں کہ مومن کی فراست ایمان سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ۔‘‘ ٭ حجاز میں قحط سالی اور دعائے فاروقی ؓ : ۱۶ ہجری میں مملکت حجاز میں قحط پڑا جسے عربی زبان عام رماۃ کہتے ہیں جس میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ آپ ؓ نے نماز استسقاء پڑھی ۔ ابن سعد نے نیاز اسلمی کے حوالے سے لکھا ہے : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز استسقاء کے لئے تشریف لے گئے تو آپ کے کاندھوں پر سرور عالم ﷺ کی چادر تھی ۔ ابن عون کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پکڑ کے آسمان کی طرف اٹھائے اور اللہ سے دعا کی : ’ ’ اے اللہ !ہم تیرے دربار میں رسول اللہ کے چچا کا وسیلہ لے کر حاضر ہیں ، اے اللہ ! تنگی وخشک سالی دور کردے اور پانی برسادے ۔ ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دعا کے بعد ابھی وہاں سے ہٹے بھی نہ تھے کہ بارش ہو نے لگی اور کئی دن تک جاری رہی اور اسی سال اھواز کا پورا علاقہ فتح ہوا ۔ (تا ریخ الخلفا )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں