100

کرپشن اور اس کی ایک بدتر قسم/تحریر/شکیل احمد ظفر

کرپشن ہماری انفرادی اور اجتماعی ترقی کی راہ کا سب سے بڑا سنگ گراں ہے۔جس شخص میں کرپشن کے جراثیم پھیل جاتے ہیں،وہ حرص و ہوس کا مارا ہوا انسان نما درندہ بن جاتا ہے۔
حرام خوری اور شراب نوشی کی لت جسے ایک بار پڑگئی چھوٹے نہیں چھٹتی۔اس کا دل و دماغ،ذہن و مزاج اور سوچ و ضمیر سب کچھ بدل جاتا ہے۔اندھا دل،اندھی آنکھیں اور بہرے کان،وہ خالق کی دکان کا ایک چلتا پھرتا حیوان ضرور ہوتا ہے لیکن اس سے انسانیت کی توقع ہرگز نہیں رکھی جاسکتی۔

کرپٹ،بد دیانت اور خائن انسان فطرت کے اصولوں کو بھی پامال کرتا ہے۔وہ کیسے؟؟
1: وہ ایسے کہ فطرت کا اصول ہے کہ “دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھو تم خود بھی خوش حال زندگی بسر کرو گے۔”
مگر کرپٹ شخص نہیں دیکھتا کہ دوسرے کے گھر میں کیا بیت رہی ہے،اس سے صرف اپنے مفادات کا حصول اور تحفظ مطلوب ہوتا ہے۔
2: فطرت کا اصول ہے کہ “غربا کا سہارا بنو اور یتیم بچوں پر دست شفقت رکھو،تمہاری زندگی میں سکون آجائے گا”۔
مگر کرپٹ شخص خود،عیش وعشرت بھری زندگی بسر کرتے ہوئے بھی مفلوک الحال لوگوں کا خون چوستا ہے،اس لیے مال و دولت کی فراوانی اور عہدہ و منصب کے باوجود بھی وہ سکون دل کا متلاشی رہتا ہے۔

آہ!! کرپشن کی ایک اقسام ہیں مگر مشترکہ اموال میں جو کرپشن ہوتی ہے،وہ کرپشن کی نہایت بھونڈی،مضر اور بدتر قسم ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں کرپشن کی اسی قسم کا وجود کثرت سے پایا جاتا ہے۔
آج وطن عزیز میں اشیائے خورد و نوش،بجلی،پٹرول کے ہوش ربا نرخ اور ڈالر کی تیسری سینچری کی ایک بڑی وجہ کرپشن کی یہی قسم ہے۔
مشترکہ اموال کی فہرست میں وراثت،حکومتی املاک،چیرٹی فنڈز،رفاہی،تعلیمی اداروں اور مسجد و مدرسے کا چندہ وغیرہ شامل ہیں۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ کسی ایک شخص کے مال میں کرپشن،چوری ڈاکہ اتنا بڑا جرم نہیں جتنا مشترکہ اموال میں بد دیانتی جرم ہے۔
اس کی وجہ،غور طلب ہے کہ ایک آدمی کا چوری کردہ مال ہدیہ کی شکل میں اور چپکے سے واپس بھی کیا جاسکتا ہے اور اس کی معافی تلافی بھی کرائی جاسکتی ہے مگر مشترک مال میں کرپشن تو گلے میں پھانسی کا پھندا بن کر لٹک جاتی ہے۔
یاد رکھیں کہ جو مال،حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو،جب تک ادا نہ کیا جائے تو اسے جان نہیں چھوٹ سکتی مگر جس مال میں درجنوں،سینکڑوں،ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کا حق ہو،وہ
کیسے دیں گے،کس کس کو دیں گے اور کس کس سے معاف کرائیں گے؟؟؟
ہائے کاش!! کہ دنیا کے کرپٹ لوگ کبھی تو یہ سوچیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں