109

کسک/تحریر /انیلہ افضال ایڈووکیٹ

تحریر/انیلہ افضال ایڈووکیٹ

دو ہزار کروڑ کی نیٹ ورتھ کم نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے بزنس ٹائیکونز کا خواب ہوتی ہے یہ نیٹ ورتھ۔ لیکن وہ خوش نصیب تھا جو اس ورتھ کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ منہ میں سونے کا چمچ لے کر تو بہت پیدا ہوئے ہوں گے وہ تو 24 قیراط کے سونے کے چمچ کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی کئی ملازم اس کے حکم کی بجا آوری کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے تھے تو ہوش سنبھالنے کے بعد کیا عالم ہو گا۔ اماں جان نے اس بات کا پورا خیال رکھا تھا کہ وہ بگڑ نہ جائے۔ ابھی ڈھائی برس کا ہی تھا کہ دنیا بھر سے اساتذہ کو جمع کر لیا گیا۔ سات برس کا ہونے تک وہ اردو، انگریزی، فرینچ اور جرمن زبانوں میں بات چیت کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔ ملک کے بہترین قراء اس کی دینی تعلیم کے لیے مہیا کیے گئے تھے۔ یعنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی پورا خیال رکھا گیا تھا۔ ایک بہترین لگژری کار اور مؤدب ڈرائیور بھی میسر تھا۔ ہر ایک چیز اپنی جگہ پرفیکٹ تھی۔ ہر کام کے لیے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مقرر تھا، جسے مرتب کرنے کے لیے نامور ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ سکول کی تعلیم مکمل ہونے تک اس کی دولت کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ بادی کا گارڈز کا ایک بہترین سکواڈ اس کی حفاظت کے لیے تعینات تھا۔ سولہ برس کی عمر میں اس کی تعلیم کے لیے دنیا کی بہترین یونیورسٹی کا انتخاب کیا گیا۔ کیمرج یونیورسٹی میں داخلے کے بعد اماں جان تو اسے ہاسٹل میں رکھنے کی خواہشمند تھیں مگر بابا جان رسل لینے کو تیار نہ تھے۔ میں اپنے بیٹے کی سیفٹی ہر کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتا۔ ہاسٹل لائف اسے مزید آرگنائز کر دے گی۔ اماں جان نے دلیل دی، آپ خود کو ہی دیکھ لیں کس قدر مکمل شخصیت کے مالک ہیں۔ اور اس میں کیمرج ہاسٹل کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔
جو بھی ہو ہم نے اپنے بیٹے کی تربیت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ بابا جان نے کروٹ لیتے ہوئے کہا، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب اس موضوع پر مزید بات نہیں ہو گی۔
اماں جان نے اثبات میں سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
اس کے لیے ایک بہترین گھر شہر کے پوش علاقے میں خریدا گیا اور ملازمین کی فوج بھی مہیا کر دی گئی۔ مزید دیکھ بھال کے لیے اماںبھی اکثر اس کے پاس چلی آیا کرتی تھیں۔
وہ ایک مکمل اور بیلنسڈ شخصیت کی جیتی جاگتی مثال بن چکا تھا۔ تھوڑا سا غصیل تھا جو اس کی شخصیت کو سوٹ بھی کرتا تھا اور تھوڑی سے لاپرواہی اس کا حق بنتی تھی۔ تعلیم مکمل کرتے ہی ایک مکمل اسٹیبلشڈ بزنس اس کا منتظر تھا۔ والدین کی کڑی محنت، بہترین ادارے کے بہترین تعلیمی ماحول اور اور بزنس میں بابا جان کے تجربے اور مہارت نے اسے کامیابیوں کے آسان پر پہنچا دیا۔ بابا جان نے اپنے ہی جیسے ایک دوست کی بیٹی کے ساتھ اس کی نسبت بھی طے کر دی تھی۔ جلد ہی وہ رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہو گیا۔ جلدی ہی دو خوبصورت بچے بھی ہو گئے۔ اور وہ اپنے والدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بچوں کی پرورش کرنے لگا۔ سب کچھ پرفیکٹ تھا۔ غم تو دور اس کی زندگی میں کسی پریشانی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ لیکن! لیکن آپ اسے اپنی ذات میں ایک خلا سا محسوس ہونے لگا تھا۔ جیسے کچھ کمی سی ہے۔ ایک بے کلی سی ہے۔ کوئی کسک ہے جو اسے ادھورے پن کا احساس دلاتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ دین سے دور تھا۔ اس کے والدین نے اس بات کا بھی پورا اہتمام کیا تھا کہ اس کا اور اس کے خالق کا رابطہ برقرار رہے۔ اس کی زندگی میں کوئی کمی نہ تھی۔ تو پھر وہ کیا تھا جس کی کمی اسے کھل رہی تھی۔ کچھ تو مسنگ تھا، مگر کیا؟ اس کے بچے بڑے ہو رہے تھے۔ اللہ کے قانون کے مطابق اس کے والدین جنت کے مکین ہو گئے تھے۔ والدین نے اسے اس بات کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار کر رکھا تھا۔ کہ ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اس پاک پروردگار کی ہے۔ نئے پتوں پر بہار آتی ہے تو پرانے پتے جھڑ جایا کرتے ہیں۔ اللہ کی رضا میں راضی رہنے میں ہی اس کی خوشنودی ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ کمی اسے ماما بابا کے بعد محسوس ہونے لگی تھی۔ یہ تو اکثر اسے کھلتی تھی۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اس خالی پن کی وجہ آخر کیا ہے۔ آس نے کئی ماہرین نفسیات سے بھی بات کی تھی تاکہ اپنی ذات کے اس خالی پن کی وجہ جان سکے۔ سب کچھ بہترین انداز میں چل رہا تھا۔ اس کے دونوں بچے خاندان کی روایت کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ آج دونوں میاں بیوی بچوں کو سرپرائز دینے کے لیے انہیں بنا بتائے برطانیہ جا رہے تھے۔ ابھی وہ ائیر پورٹ تک پہنچے ہی تھے کہ برطانیہ میں تعینات سیکٹری کا فون آگیا کہ اس کے دونوں بچوں کے گاڑی کو حادثہ پیش آگیا ہے۔ اور دونوں بچوں کی حالت کافی سیریئس تھی۔ فلائٹ کا دورانیہ ان دونوں کے لیے خاصا مشکل تھا۔ ائیر پورٹ سے سیدھے اسپتال پہنچے۔ بچوں کو بچا لیا گیا تھا لیکن ڈاکٹرز نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ بڑے بیٹے کا جگر کافی متاثر ہو چکا ہے۔ اور چھوٹے بیٹے کا ایک گردہ مکمل طور پر کچلا گیا ہے۔ چھوٹا تو ایک گردے کے ساتھ سروائیو کر جائے گا لیکن بڑے کا کسی بھی وقت لیور ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اب اسے ایک ڈونر کی ضرورت تھی۔ یورپ کے طبی قوانین سے کون واقف نہیں۔ اس کے دونوں بیٹوں کی زندگی ہائی رسک پر تھی۔ وہ خود عمر کے اس حصے میں تھا کہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اسے ڈونر ہی چاہیئے تھا۔ مگر ڈونر کہاں سے آتا؟ آج اسے اپنی ساری دولت بے کار لگ رہی تھی۔ وہ اپنی ہر کوشش کر چکا تھا ۔ رب کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہا تھا۔ بے شمار صدقات دیئے جا رہے تھے۔ اس کے بیٹے کی زندگی ہائی رسک پر تھی اور وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔
پھلوں کے درختوں پر مامور مالی مہینے میں ایک بار اس وسیع و عریض محل میں آیا کرتا تھا۔ آج بھی وہ محل میں داخل ہوا تو فضا میں چھائی سوگواری اس سے چھپی نہ رہ سکی۔ اس نے لان کے کئیر ٹیکر سے اس بارے میں بات بھی کی۔ کئیر ٹیکر نے جب صاحب کے بیٹے کی حالت کے بارے میں بتایا تو وہ افسردگی سے سر ہلا کر رہ گیا۔ اگلے ہی دن وہ اپنے جواں سال بیٹے کے ساتھ پھر سے محل میں موجود تھا۔ لان کے کئیر ٹیکر نے اسے صاحب سے ملوا دیا تھا۔
صاحب! میرا بیٹا چھوٹے صاحب کو جگر دے گا صاحب۔
یعنی؟؟؟ یعنی!!!! واقعی؟؟؟ اس کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
جی صاحب!
میں، میں ، میں تمہیں بہت ساری دولت دوں گا۔ تمہاری نسلوں کو نہال کر دوں گا۔
نہیں صاحب بندہ ہی بندے کا دارو ہوتا ہے۔( انسان ہی انسان کے کا کام آتا ہے)
صاحب آپ کو تو یاد بھی نہیں ہو گا میرے اس بیٹے کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ آپ نے اپنے اکاؤنٹنٹ سے کہہ کر پرائیویٹ اسپتال میں اس کے علاج کا خرچہ بھرا تھا۔
ایک بات کہوں صاحب؟ بندوں سے براہ راست رابطہ رکھا کریں۔ یہ جو بندے ہیں نا، یہ رب تک پہنچنے کی سیڑھی ہوتے ہیں۔ “میں مالی ہوں صاحب، میں جانتا ہوں کہ درخت درختوں سے باخبر ہوتے ہیں، اور میرا قیاس ہے کہ پتھر بھی پتھروں سے باخبر ہوتے ہوں گے۔ صاحب! اس کائنات کا ہر ایک ذرہ ایک دوسرے کا عاشق ہے۔ صرف یہ انسان ہی ہے جو دوسرے انسان سے بیگانہ ہے۔
آج اسے اپنے دل کی بے کلی کی سمجھ آ گئی تھی۔ آج اسے اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ اپنی کسک کا علاج بھی مل گیا تھا۔ اسے بندوں سے رابطہ رکھنا تھا، براہ راست رابطہ!!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں