98

کیا اپنے گھر کو بچانا دہشت گردی ہے ؟/تحریر/سمیہ شاہد

ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آ پ اپنے گھر میں آ رام کر رہے ہوں اور اچانک کوئی شخص آ کر کہے کہ اس گھر سے نکل جاؤ ۔۔۔یہ میرا ہے۔۔۔
تو آ پ کیا کریں گے ؟
آ پ اس سے پوچھیں گے کہ میں تو یہاں 20-25 سالوں سے رہ رہا ہوں یا یہ گھر ہمارے دادا پردادا کا ہے تو آ پ کا کیسے ہو گیا ؟ آ گے سے وہ شخص کہے کہ تمہارے پردادا سے 2 ہزار سال پہلے اس گھر میں میرے پردادا لکڑ دادا رہتے تھے اس لیے یہ گھر اب بھی میرا ہے تو ۔۔۔۔
آ پ کا کیا رد عمل ہو گا ؟؟
آ پ یقیناً اسے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانے کا ہیں گے ۔۔۔ لیکن۔۔۔
اگر اس دوران وہ اسلحہ نکال لے اور آ پ کو دھمکیاں دے پھر ؟؟؟
آ پ پولیس کو بلائیں گے ، ان کے سامنے صورتحال رکھیں گے یا عدالت میں جائیں گے۔۔۔
چلیں فرض کر لیتے ہیں کہ آ پ عدالت میں چلے گئے تو 2000 سال قدیم ملکیت کو کیا کوئی عدالت تسلیم کرے گی جب کہ اس شخص کے پاس کوئی لیگل ڈاکومنٹ بھی نہ ہوں !!! یقیناً وہ اس شخص کو سرزنش کرے گی ۔۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔
اب وہی شخص عدالت کے حکم کو خاطر میں نہ لائے اور ہر تیسرے روز آ پ کے گھر پر آ کر آپ کو خوفزدہ کرے ، دہشت زدہ کرے پھر ؟؟
اس کے کچھ عرصے بعد زبردستی آ پ سے آ پ کا ہی گھر خالی کرا لے پھر ؟؟؟؟
کیا آ پ اس اقدام کو درست قرار دیں گے ؟؟
اب ایک اور تناظر ۔۔۔
وہ شخص آ پ کو ڈرا دھمکا رہا ہے اور خوفزدہ کر رہا ہے پھر آ گے بڑھ کر  عدالتی حکم کے باوجودحملہ بھی کر رہا ہے ۔۔۔ پھر ؟؟
کیا آ پ چپ رہیں گے یا کوئی جوابی کاروائی کریں گے ؟
چلیں۔۔۔
اگر آ پ اس ظلم پر خاموش ہیں تو آ پ کی مرضی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔اگر آ پ اس ظلم کے خلاف اپنا دفاع کریں گے تو کیا یہ دہشت گردی ہو گی ؟؟؟
اب اس سارے منظر نامے کو فلسطین پر منطبق کر کے دیکھیے۔۔۔
ایک سر زمین وہاں لوگ آ رام سے رہ رہیں ہیں کہ اچانک کچھ افراد وہاں پناہ گزین کی حیثیت داخل ہوتے ہیں۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ وہ یہ کہنا شروع کرتے ہیں کہ یہ زمین تو آ ج سے 5 ہزار سال پہلے ہمارے آ باؤ اجداد کی تھی اس لیے اب ہم یہاں رہیں گے۔۔۔۔
پھر وہ دھونس سے اور سیاسی چالبازیوں سے وہاں کے باسیوں کو ان کے گھروں سے باہر نکالنے لگتے ہیں ۔۔۔ وہاں کے لوگ جب بین الاقوامی اداروں سے رجوع کرتےہیں تو وہاں سے بھی واضح موقف آجاتاہے کہ زبردستی زمین پر قبضہ کرنا قانوناً غلط ہے۔۔۔۔
لیکن باہر سے آ نے والے ، جو پناہ گزین کی حیثیت سے آ ئےتھے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہیں پھر کچھ عرصے بعد باقاعدہ مسلح جنگوں کا آ غاز کر دیتے ہیں اب جب مقبوضہ علاقے کے لوگ اپنا دفاع کرنا شروع کرتے ہیں تو انہیں فوراً دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہےاور واضح دہشت گردی کرنے والے کو کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔۔۔۔
آ ج بھی بین الاقوامی ادارے ، میڈیا ، دو تین ملکوں کو چھوڑ کر باقی تمام ممالک کی ہمدردیاں بھی اسی حقیقی دہشت گرد کے ساتھ ہوگئی ہیں۔۔۔۔اورہم جو خود کو اسلام کا خادم اعلیٰ سمجھتے ہیں ابھی تک چپ سادھے بیٹھے ہیں۔۔۔ اور باقی ممالک بھی سوائے تیونس ، چیچنیا اور لبنان کے سب تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔۔۔
دیکھا جائے تو دنیا کے تمام ممالک کی بیشتر عوام فلسطینیوں کو حق بجانب سمجھتی ہے تاہم ان کے حکمران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟
ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔۔۔۔
سب سے نچلی سطح سے آ غاز کریں تو ہم اپنے دل میں حق کی محبت گہری کر سکتے ہیں ۔ جب محبت ہو گی تو ہی کوئی عملی کام ہو پائے گا۔ اس کے بعد ہم اپنے بچوں کے دلوں میں حق کی محبت کے بیج بو سکتے ہیں۔۔۔آج کل کے بچے سب سمجھتے ہیں ، انہیں آ سان الفاظ میں مسجد اقصیٰ کی اہمیت اور اس سے محبت کرنے کی فرضیت سمجھا سکتے ہیں۔
تھوڑا اوپر جائیں تو اپنے حلقہ احباب میں یہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ حق کو حق کہنا بھی بہت بڑا معرکہ ہے۔ تھوڑا اور اوپر جائیں تو مستند اداروں کو مالی امداد فراہم کر سکتے ہیں۔ تھوڑا اور اوپر جائیں تو سوشل میڈیا کا درست استعمال کرتے ہوئے اپنی اپنی حکومت پر زور ڈال سکتے ہیں کہ وہ کوئی واضح موقف لے۔۔
اور اس سے بھی اوپر استطاعت ہو تو امدادی سامان ہمراہ لے کر خود جائیں اور آ خر میں اگر واقعی ہم میں ہمت اور حوصلہ ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ارض مقدس جا کر اپنا فرض ادا کریں۔۔۔۔۔
آ خر میں میری آ پ سب احباب سے درخواست ہے کہ اس وقت جب حق اور باطل کا معرکہ ہم سب کے سامنے ہے ، ہم اپنی ایک ایک صلاحیت جو خدا نے ہمیں دی ہے اس کا ادراک کریں اور اسے حق پر ثابت قدم افراد کے لیے لگا دیں۔۔۔
اگر آ پ لکھ سکتے ہیں تو لکھیں۔۔۔بول سکتے ہیں تو بولیں۔۔۔سوشل میڈیا ہینڈل کر سکتے ہیں تو منظم کمپین چلائیں ۔۔۔صاحب استطاعت ہیں تو اپنے اسلاف کی مانند جتنا ہو سکے دے ڈالیں۔۔۔کمپیوٹر گرافک ، ویڈیو ایڈیٹنگ کرتے ہیں تو اس موضوع کوہائ لائیٹ کریں۔۔۔اللہ نے آواز کی خوبصورتی عطا فرمائی ہے تو ایمان بڑھا دینے والے اشعار پڑھیں۔۔۔غرض جس قدر ہو سکے اپنی استطاعت کے مطابق اس حق و باطل کے معرکے میں حق کا ساتھ دیں اس کی قوت و طاقت بنیں۔۔۔۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری کوششیں قبول فرمائے آمین!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں