پیارے قارئین!آج کے کالم میں ایک اہم مسئلہ کا تذکرہ مقصود ہے جس نے پاکستانی عوام کے اضطراب میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔بقول شاعر:.
ناظم کہیں بھی ساحل امن و سکوں نہیں
دریا وہ اضطراب کا بہتا ہے شہر میں
ذرا سوچیے !غریب کی زندگی کس قدر داستان غم و الم ہے۔ایک طرف بھوک و افلاس دوسری طرف بجلی کے بلوں کا ناقابل برداشت بوجھ۔۔۔ایسے میں زندہ رہنا کتنا ممکن؟اس نگر کے لوگ کس کرب میں مبتلا ہیں؟ان پر کیا گزر رہی ہے؟آنکھوں میں اشک اور دلوں میں ارمانوں کا تسلسل گویا میری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روۓ کے مترادف توجہ طلب ہے۔ایک اور المیہ جس کا ذکر ضروری خیال کرتا ہوں ۔بجلی کے بلوں کا بھاری بھرکم بوجھ برداشت کرنے سے قاصر افراد میں مایوسی اور نا امیدی اس قدر بڑھ رہی ہے جس سے معاشرتی زندگی میں ایک اضطراب پیدا ہو چکا ہے۔لوگ سراپا احتجاج ہیں۔جگہ جگہ،نگر نگر اور شہر شہر میں بجلی کے بلوں کی بناء پر پریشان کن فضا پیدا ہونے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ تلخی زیست کا یہ عنوان بڑا ہی کربناک ہے۔ہزاروں اور لاکھوں مالیت کے بل غریب لوگ جو پہلے ہی افلاس اور بھوک کا عذاب برداشت کرتے چلے آرہے ہیں اور اب بجلی کے بلوں میں ٹیکسز کے زمرے میں ادائیگی کس قدر مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ غریب زندگی کا سوال لے کر سراپا احتجاج ہے۔اس درد بھری کیفیت پر درد مندانہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔وگرنہ بہت سی مشکلات میں اضافہ ہونے کا احتمال ہے۔ایک سرسری جائزہ لیا جاۓ تو بے پناہ تعلیمی اخراجات،مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں بے پناہ اضافہ غریب کی زندگی پر کس قدر اثرات مرتب کرتے ہیں۔یہ ایک افسردہ داستان سے کم نہیں۔آۓ روز اخبارات اور سوشل میڈیا پر المناک واقعات سامنے آتے ہیں جو تشویش کا باعث ہیں۔اس ضمن میں سنجیدگی سے ان مسائل پر غور کرنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے اور ملک میں پیدا ہونے والی کیفیت کا ازالہ ہو۔لوگوں میں اطمینان پیدا ہو۔زندگی کا یہ کاروان خوبصورتی سے چلتا رہے۔بصورت دیگر بقول شاعر:.
میرے کانوں میں چیخیں بہت گونجتی ہیں
کئی منظر ہیں مجھے روز ڈرانے والے
اس وقت کے حا لات اس قدر نازک ہیں کہ بھاری مالیت کے بجلی کے بل ادا کرنے سے لوگ قاصر ہو چکے ہیں۔احتجاج کی صدائیں بلند ہونا معاملہ فہمی کی ضرورت ہے۔مناسب اقدامات تجویز کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ سماج میں ایک غریب بھی عزت سے زندہ رہ سکے اور سفید پوشی کا بھرم رہ سکے۔ہمارے ملک میں بے شمار قدرتی وسائل ہیں۔ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے ایک عام آدمی کی زندگی پر سکون ہو۔امید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کا کوئی مناسب حل نکالنے کی بھرپور کوشش کی جاۓ گی اور سنجیدہ طور پر عوام کی پریشانی کو مدنظر رکھا جاۓ گا۔تاہم ایک ضروری گذارش یہ بھی کی جاتی ہے کہ بجلی بل کے دوسرے صفحہ پر کچھ ہدایات بھی ہیں ان کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔میٹر ریڈر حضرات بھی وقت پر میٹر ریڈنگ کرنا ضروری سمجھیں تاکہ مسائل کم پیدا ہوں۔یہ سب کہنے کا مدعا یہی ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق عوام کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔تاکہ معاشرتی امن و سکون برقرار رہے اور قوم کے بچے تعلیم حاصل کر پائیں۔مزدور اپنی مزدوری اطمینان سے کر پائیں۔یہ بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف دیا جاۓ۔فری یونٹ سسٹم ختم کیا جاۓ۔تاکہ غریب عوام کا بوجھ کم ہو پاۓ۔پرامن احتجاج ہی کیا جانا چاہیے تاہم احتیاط لازم ہے۔پاکستان بہت پیارا ملک ہے۔اس کا استحکام ہی ہمارے مفاد میں ہے۔اس ملک کے عوام کی مشکلات جس قدر ممکن ہو کم کی جائیں۔گرانی کے دور میں غریب افراد کا احساس کیا جاۓ۔تاکہ وہ ایک اسلامی ملک میں خود کشی کا ارتکاب نہ کر پاۓ۔امید کی جا سکتی ہے کہ مشکلوں کے دور میں بھی قناعت اور برداشت سے کام لیا جاۓ گا۔حالات کی بہتری اور درستگی پر توجہ مرکوز رکھ کر مناسب اور فعال کردار ادا کیا جاۓ گا۔
