
دل و نگاہ کا حاصل قرار ہے اب تک
کہ خواہشات کا من میں مزار ہے اب تک
نظر سے گھونٹ پلایا تھا ہم کو ساقی نے
شرابِ عشق کا باقی خمار ہے اب تک
خرد نے دام بچھائے قدم قدم لیکن
ہمارا اہل جنوں میں شمار ہے اب تک
خزاں گزیدۂ ظاہر پہ غم کریں کیونکر
کہ خانۂ دل میں تو فصلِ بہار ہے اب تک
سبھی مسرتیں آخر کو ساتھ چھوڑ گئیں
وفا شِعار ہے غم، میرا یار ہے اب تک
حیاتِ نو کی ہے خواہش تو سیکھ لے مٹنا
کہ اہل عشق کا رخ سوئے دار ہے اب تک
جو آرزوؤں کو طاعت کے دشت میں بویا
گُلوں میں زیست کے قائم نکھار ہے اب تک
تجھے پرستش مغرب سے کیا ملا آخر
وہاں کی چھوڑ! تُو دنیا میں خوار ہے اب تک
منا لیں خیر فراعینِ مصر و شام و غزہ
چُکے گا قرض سبھی جو ادھار ہے اب تک
ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے خاکِ پائے سلَف
ہمارے دل کا اسی میں قرار ہے اب تک
جہانِ عقل سحر نذرِ حادثات رہا
پہ اُن کے عشق سے دل لالہ زار ہے اب تک
✍🏻 سحر قاسمی