ہم عظیم قوم
لعل ڈنو شنبانی
اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جب جب بھی قدرتی آفتوں اور آزمائشوں کا سامنا کیا ہم سب نے مل کر اس کا مقابلہ کیا،1965 کی جنگ ہو یا 1971 کی،2007 کے زلزلے ہوں یا 2010 کے سیلاب۔بہت سی خامیوں اور خرابیوں کے باوجود قدرت نے ہمیں ہمیشہ ایک دوسرے کو سہارا دینے کی ہمت دی۔ہم جب جب بھی جدا ہوئے قدرت نے ہم اکٹھا کیا۔
2022 کے موجودہ سیلابی صورت حال میں بھی ہم سب اسی جذبے کے ساتھ کھڑے ہیں جس کی ضرورت ہو۔ بارشوں اور طوفانوں نے سب سے پہلے بلوچستان،پھر سندھ،پھر پنجاب اور اب خیبرپختونخوا کا رخ کیا سب نے اس دکھ کی گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور دوبارہ زندہ رہنے کا حوصلہ دے رہے ہیں۔یہ آزمائشیں قوموں کے لیے امتحان ہوتی ہیں۔ جس طرح ہم نے ماضی میں ان امتحانوں کا مقابلہ کیا ان شاء اللہ ایک قوم ایک ملت بن کر ہم اس امتحان کا مقابلہ کریں گے۔
اس مشکل وقت میں ہر امیر و غریب اپنے بہن بھایوں کے مدد کے لیے کوشاں ہے۔ پاک فوج بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر شہریوں کے جان و مال کی حفاظت میں مصروف عمل ہے۔میڈیا نے ابتدا میں سیلاب متاثرین کو کچھ نظرانداز بھی کیا مگر اب میڈیا بھی ہم وطنوں کا حق اچھی طرح ادا کر رہا ہے۔حکومت اور اپوزیشن بھی ہر طرح سے عوام کی مدد کرنے کے لیے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔سابق وزیراعظم عمران نے ایک ٹیلی تھون پروگرام کے زریعے لوگوں کے امداد کے لیے تقریبا 5 ارب روپے چندہ جمع کیا۔ اس مشکل گھڑی میں علماء اور مدارس نے تو جیسے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے,علماء نے لوگوں کے لیے مساجد و مدارس کے دروازے کھول دیے ،چندے کے پیٹیاں اور تنخواہیں ضرورت مندوں کے لیے وقف کردیں۔ وہ مولوی جس کے لیے طنزیہ طور پر کہتے رہے کہ ‘ملاں کی دوڑ مسجد تک’ اس مولوی نے لوگوں کو نفع پہچانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔کئی والدین نے اپنی بچیوں کے جہیز کے لیے جمع کیا ہوا مال قربان کردیا،کئی چنگچی والوں نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی راہ خدا کے نظر کردیا،کئی معصوم بچے بچیوں نے اپنی پاکیٹ منی اور گولک دردمندوں کے نام کر دیے۔بس کسی نے کسر نہیں چھوڑی سب ایک دوسرے کے مدد کے لیے حسب حال شریک ہوئے اور خوب شریک ہوئے۔
یہ دکھ کی گھڑیاں بھی ضرور اختتام پزیر ہوں گی۔ مون سون دنیا کے تمام ممالک میں آتا ہے لیکن اس سے تباہی صرف ہمارے ملک میں ہی آتی ہے۔ اس لیے ہمیں ڈیمز بنانے کے بارے میں سوچنا چاہیے،نالوں کے صفائی کے ساتھ ساتھ پانی کے راستوں میں موجود تجاوزات کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ ہمیں مون سون سے پہلے پانی کے روٹز کا تعین کرنا چاہیے اور شہروں میں بہترین انتظامات کرنے چاہیئں تا کہ ہم دوبارہ ایسی پریشانیوں سے بچ سکیں۔