آج ہم جشن ازادی تو بڑے جوش و جذبے سے مناتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے نہ اس میں غور و خوض کرتے ہیں تو صرف چھوٹے بچوں کی طرف سے چیختے چلاتے ہے اگر ہم تھوڑا سا غور کریں کہ شاعر مشرق اور بابا قوم رحمہ اللہ کہ ارشادات اور فرامین کو پڑھے اور سمجھنے کی کوشش کریں اور سمجھنے کی کوشش کرے تو ازادی ازادی کا اصل مقصد ہمیں سمجھ ا جائے گا اگر ہم 23 مارچ 1940 کو منعقد ہونے والے اس میٹنگ کے خدوخال اور باباۓ قوم رحمہ اللہ علیہ کا ولولہ انگیز اور فکر انگیز تقریر پڑھیں تو ہماری انکھیں کھلی کے کھلی رہ جائے گی کہ ہم نے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے فرامین کے ساتھ غداری کی یا وفاداری کی انہوں نے انگریز کو للکار کے کہا تھا کہ ہمارا مقصد صرف زمین کا ایک چھوٹا سا حصہ حاصل کرنا نہیں بلکہ ہم ایک ایسی سرزمین چاہتے ہیں کہ جہاں پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مطابق قوانین بنا کر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائے لیکن بدقسمتی سے ان فرامین پر عمل کرنا تو بڑی دور کے بعد بلکہ ان کو پس پشت ڈال دیا اور ہم یہ بات ہی بھول گئے کہ ہم نے ازادی کس کی حاصل کی تھی ایک بات یاد رکھیں ہے کہ اگر کوئی راستہ بھول جائے لیکن منزل یاد رہے تو کبھی نہ کبھی اپنے منزل مقصود تک پہنچ جائے گا لیکن اگر منزل ہی بھول جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو یہ نہیں بتا سکتی کہ اس نے جانا کدھر ہے اج ہم اپنی منزل ہے بھول گئے کہ ہم نے یہ ملک کس چیز کے لیے حاصل کیا کہ ہم نے یہ ملک صرف ملی نغموں اور نعروں کے لیے حاصل کیا تھا بلکہ ہم نے تو یہ وعدہ کیا تھا اپنے قائد سے اور اپنے رب سے کہ ہم ایک ایسی مملکت بنائیں گے کہ جہاں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرامین کے مطابق قوانین بنائیں گے اور اس پر عمل کریں گے لیکن اج بدقسمتی سے ہم صرف نعرے لگانے کے لیے اور ملی نغمے گانے کے لیے رہ گئے اور ہم اپنا اصل مقصد ہی بھول گئے جس کی وجہ سے اج ہم ان حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان حالات سے گزر رہے ہیں ہمارا مقصد تو ایک ایسی ریاست کو تشکیل تھا کہ جہاں پر صرف اور صرف اسلامی قوانین ہو لیکن آج ہم صرف نام کے رہ گئے الحمدللہ جتنی مذہبی آزادی پاکستان میں مسلمان کو حاصل ہے اتنی شائد کسی اور اسلامی ملک میں مسلمانوں کو حاصل ہو لیکن جو فلاحی ریاست کا ایک تصور تھا جس ہمارے نوجوان نے قربانیاں دی تھی جس سہانا خواب خواب سجا کر ہم ہندوستان میں اپنی تیار فصلوں چھوڑ دیا آج ہم وہ بھول گۓ آج ہم صرف نعروں والے محب وطن رہ گئے آج ہمارے نوجوان یہ نہیں پتہ کہ ہم ایک الگ وطن کیلئے اتنی جدوجہد کیوں کی
میں چند ایک سوالات اب سے کروں گا کہ کیا ہم نے ازادی اس لیے حاصل کی تھی کہ یہاں پر رقص و سرور کی محفلیں ہو یہاں پر بے دینی ہو اگر یہی سب مقصود تھا کہ رقص و سرور ہو وہاں پر ازادی حاصل کرنے کا کیا مقصد تھا ہمارا یہ تو انگریز کے ہوتے ہوئے اس سے بڑھ کر ہو جاتا ازدی حاصل کرنے کا یہی مقصد تھا کہ بے حیائی نہ ہو رقص و سرور کی یہ محفل ہے وغیرہ یہ ختم ہو جائے شراب نوشی وغیرہ ختم ہو جائے دوسرا سوال بھی قارین محترم میرا اسی کے متعلق ہے کیونکہ ہمارے بزرگوں نے اسی لیے انگریز سے ازادی حاصل کی تھی کہ ان کا کلچر ان کی ان کا معاشرت ان کے ثقافت ہمارے نسلوں میں آۓ و واقعی نہیں ہے انہوں نے انگریز کو نکالا تو اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ ہماری نسل اس سے محفوظ رہے اور تیسرا سوال اگر ان کو یہ پتہ ہوتا کہ بعد میں اس میں سود زنا رشوت خوری یہ سب چیزیں ہوتی تو کیا وہ اپنی جانیں لٹوا کر وہ اپنی عزتیں لٹوا کر یہاں پر اتے چونکہ مقاصد کچھ اور تھے اور اج ہم نے ان کو پورے نہیں کیں ان کی قربانیاں اس چیز کے لیے نہیں تھی کہ ہم یہ سب کریں بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسا وطن ہو جہاں پر یہ سب کچھ ہونا تو دور کے بعد بلکہ یہ سب کچھ سخت ممنوع ہو سوچ لے کے اج ہم کس نہج پر پہنچ چکے ہیں کیا ایا ہم نے اپنے بڑوں سے غداری نہیں کی کہ ہم نے اس وقت اپنے رب سے جو وعدے کیے تھے اپنے قائد سے جو وعدے کیے تھے کہ ہم اس پہ غداری نہیں کی اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے یہ آزادی کس لیے حاصل کی تھی ہم انگریز سے کیوں چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اتنی تگ و دو اور محنت کی بہت ہو گیا یہ 75 سال بہت گزار لی ہے خواب غفلت میں اب ہمیں اٹھنا پڑے گا اور اپنے اس وطن کو سنوارنا پڑے گا اپنے اس وطن کو اس اس مقصد پر لا کر کھڑا کرنا پڑے گا نہیں تو اللہ کا وہ مبارک ارشاد سورہ بقرہ کی ایت ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں نعمت کو بڑھا دوں گا لیکن اگر تم نے شکر کرو گے تو میرا عذاب شدید ترین ہے شکر صرف اس چیز کا نام نہیں کہ ہم دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کرے بلکہ جن وعدوں پر ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا وہ وعدے اب ہمیں پورے کرنے پڑیں گے نہیں تو قران کا یہ واضح پیغام ہم سب کے لیے ہے اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اسلام زندہ باد پاکستان پائندہ باد
