84

یومِ آزادی یا تجدیدِعہد کا دن/تحریر/عبدالرؤف ملک (کمالیہ)

پاکستان دنیا کی واحد مملکت ہے جسکی بنیاد ایک نظریے پر قائم ہے جو “لا الہ الا اللہ” سے وجود میں آیا یہی وہ نظریہ تھا جس نے ہندوستان کے طول وعرض میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ ہندو، سکھ اور انگریزوں کے بے انتہا ظلم وستم کے باوجود ہندوستان کے ہر ذرے سے ایک ہی آواز بلند ہورہی تھی۔
لے کے رہیں گے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان
تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اس آزادی کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے وہ کون سا ظلم تھا جو اس نعرے کو دبانے کیلیے مسلمانوں پر آزمایا نہیں گیا معصوم بچوں کو نیزوں کی انّیوں میں پرویا گیا، بہو بیٹیوں کی عزت و عصمت کو تار تار کیا گیا بوڑھے والدین کی آنکھوں کے سامنے ان کے جگرگوشوں کو ذبح کردیا گیا لیکن یہ صدا بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی آخرکار رحمتِ خداوندی جوش میں آئی اور مملکت خداداد “پاکستان” کرہ ارض پر پوری شان و شوکت کے ساتھ ظہور پذیر ہوا۔
الحمدللہ آج اس عظیم مملکت کو قائم ہوئے 76 برس ہوچکے ہیں دنیا کی وہ کونسی نعمت ہے جو خدائے عزوجل نے اس خطہ پاک کو عطا نہیں کی۔ بہترین سونا، اگلتی زرخیز زمین، محنت کش باسی، معدنیات سے لبریز پہاڑی سلسلے، پانی کی فراوانی اور دنیا کا بہترین آبی نظام، جنت نظیر خوبصورت وادیاں، ہر موسم کا لطف، جغرافیائی اہمیت اور سب سے بڑھ کر دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت۔ یہ تمام چیزیں ہمیں قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہےکہ ہم نے اپنے وطن کو کیا دیا؟ ہمارے اس ملک نے آزادی کے ان گزشتہ سالوں میں کیا کھویا اور کیا پایا؟
سوچنا یہ ہے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں جغرافیائی طور پر تو ہمیں آزاد ہوئے 76 سال ہوگئے لیکن اغیار کی غلامی میں ہم آج بھی بری طرح جکڑے ہوئے ہیں ہم نے اپنی معیشت اور اپنے مفادات اغیار کی رضامندی کے ساتھ وابستہ کرلیے ہیں۔ کبھی IMF کی شرائط تو کبھی دوسرے ممالک کی طرف سے مشروط امداد، کبھی بپھرے ہوئے مافیاز تو کبھی تعصب سے بھرپور اقربا پروری اس صورتحال میں ہم کہاں پہ آزاد ہیں؟
یادرکھیے۔۔۔۔۔قومیں اچانک اور حادثاتی طور پر تشکیل نہیں پاتیں اسکے پیچھے بہت سے محرکات ہوتے ہیں جن میں سالہا سال کی تاریخی روایات اور اسلاف کی قربانیاں شامل ہوتی ہیں۔ عدل، مساوات، ایثار اور دوسروں کے حقوق کا دفاع کرنے کی اعلیٰ معاشرتی اقدار پنہاں ہوتی ہیں جو الحمدللہ ہماری قوم کو بدرجہ اتم وراثت میں ملی ہیں لیکن ہم نے ان اخلاقی ومعاشرتی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا اور نتیجہ آپکے سامنے ہے کہ اس وقت ہمارا ملک کس اخلاقی گراوٹ و پستی، انتشار اور منافرت سے لبریز ہے بددیانتی، بدعنوانی، کرپشن ،رشوت خوری اختیارات کا ناجائز استعمال تو ہمارے وجود میں جیسے رچ بس چکا ہے جس کے پاس جتنے زیادہ اختیارات ہیں وہ اتنا ہی زیادہ ظالم، وحشی اور درندہ بن جاتا ہے جو اپنے ہی لوگوں کو نوچنا شروع کردیتا ہے۔ من حیث القوم ہم بری طرح پست ہوچکے ہیں اپنی معاشرتی و قومی اقدار کھو چکے ہیں ہمارے بہترین قومی ادارے جو کسی بھی ملک کی شان ہوا کرتے ہیں ہماری اشرافیہ نے انکو اپنی جاگیر بنایا ہوا ہے ملک میں بہترین دستور موجودہے لیکن اُس کی ملک میں کوئی حیثیت نہیں ہے ہماری اشرافیہ نے آئین کو دوحصوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے عوام کیلیے قانون اور ہے اور اشرافیہ کیلیے اور۔ ہماری عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اقربا پروری اور ذات برادری کلچر نے اندر سے کھوکھلا کردیا ہے عوام سرمایہ داروں ،تاجروں اور بپھرے ہوئے مافیاز کے رحم و کرم پہ ہے وہ جب چاہتے ہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی بیشی کرلیتے ہیں جس اقتدار کو عوام کی طاقت ہونا چاہیے تھا وہ اقتدار سیاستدانوں کی سیاسی دکان چمکانے میں صرف ہورہا ہے ۔عدل و انصاف کی بین الاقوامی رینکنگ میں 128 میں سے پاکستان کو 120ویں نمبر پہ دیکھ کے دل خون کے آنسو روتا ہے کہ یہ وہ ریاست ہے جس کو اسلام کے نام اور کلمے کی بنیاد پہ حاصل کیا گیا تھا اور ہم وہ منصف ہیں جو خود کو جنت کے وارث کہلاتے ہیں جبکہ عدل و انصاف کی فراہمی اور شفاف میرٹ میں وہ اغیار سرفہرست ہیں جن کو ہم جہنمی اور کافر گردانتے ہیں۔
وہ ملک جو اپنے قیام کے وقت جرمنی جیسی سپر طاقتوں کو امداد دیتا تھا آج کشکول ہاتھ میں تھامے پیسے پیسے کا محتاج ہے معاشی لحاظ سے ہم اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ غیر ملکی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کرنے سے کترا رہی ہیں دنیا کا بہترین اور وسیع آبی نظام رکھنے کے باوجود ہم پانی کی قلت کا شکار ہیں، زرعی پیداوار میں خودکفیل ہونے کے باوجود ٹماٹر پیاز جیسی عام سی سبزیوں کیلیے ہمیں اپنے روایتی حریف انڈیا کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔
اگر ہمارے دلوں میں اس وطن کیلیے کوئی ہمدردی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نظام درست ہو اور ہماری یہ ریاست ہماری قوت اور طاقت بنے تو ہماری قوم کے ہر فرد کو آج تجدیدِعہد کرنا ہوگا اور ماضی میں ہم سے سرزد ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھ کر انکا ازالہ کرنے کیلیے ہمیں اپنے اندر مثبت تبدیلی لانا ہوگی اقتدار و اختیارات کا استعمال امانت سمجھ کے کرنا ہوگا اپنے اسلاف اور اقدار کو مشعلِ راہ بنا کر دن رات کام کرنا ہوگا ہمارے اداروں کو شفاف میرٹ، انصاف کی فراہمی، ملکی وسائل کا درست استعمال، آئین کی بالادستی اور عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم وطن سے محبت کے کھوکھلے نعروں سے نکل کر عملی طور پر اپنے وطن کو کچھ دیں گے اور فرمانِ قائد “کام، کام، کام اور کام” کی عملی تصویر پیش کریں گے اور اپنے اپنے دائرہ اختیار اور فرائض منصبی کی انجام دہی میں دن رات ایک کریں گے تو ان شاءالله وہ دن دور نہیں جب ہم صحیح معنوں میں آزاد فضا میں سانس لے رہے ہونگے۔ ورنہ کوئی چنگیز خاں یا کمانڈر ملاڈچ جیسا خونخوار درندہ دوبارہ سے سقوطِ بغداد اور سرب مسلمانوں کے قتلِ عام جیسا زخم دینے کیلیے گھات لگائے بیٹھا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں