تحریر/بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد (کراچی)
“مجھ سے کوئی بھی پیار نہیں کرتا، کسی کو میری پروا نہیں ہے، میری خوشیوں میرے نازک جذبات کا کسی کو رتی برابر احساس نہیں، ہر وقت بس روک ٹوک، یہ نہ کرو، یہاں نہ جاؤ، وہاں کیوں کھڑی ہو؟ ایسے بیٹھو، یوں نہ چلو، زور سے کیوں ہنسی؟ اس سے کیوں بات کی؟ ہونہہ آخر میں بھی جیتی جاگتی انسان ہوں، میرے بھی احساسات اور جذبات ہیں- اے کاش! کوئی ہو تو جو مجھے سمجھے، مجھ سے میری باتیں کرے میرے خوابوں میرے معصوم جذبوں کا خیال کرے، ہائے کاش..! مجھے بھی کوئی happy valentine کہے،
میرا ویلنٹائن آخر کب ملے گا مجھے۔”
اٹھارہ سالہ آبروئے عائشہ کمبل میں منہ گھسائے خود کلامی کرنے کے ساتھ ساتھ سسکیاں لیتے ہوئے زاروقطار رو بھی رہی تھی، رونے کی آواز دباتے دباتے کمبل کے اندر گُھٹی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے کے لیے کمبل سے اپنا چہرہ ذرا سا باہر نکالتی، تو رات کی سرد خاموشیوں سے گھبرا کر دوبارہ سسکیاں بھرتے ہوئے کمبل میں منہ چھپا کر رونا شروع کر دیتی۔
ننھی سی آبروئے عائشہ نے جب دنیا میں آنکھ کھولی تو اس کی دادی امی بہت خوشی ہوئیں محبت و شفقت سے اللہ کی رحمت کو اپنی گود میں لے کر وفورِ محبت سے بوسہ دیا۔ دادی امی نجیب الطرفین سیدہ تھیں اہلِ بیت کی نسبت انہیں دل و جان سے زیادہ عزیز تر تھی وہ پاکدامن بی بی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہت زیادہ عقیدت رکھتی تھیں- لہٰذا انھوں نے اپنی پہلی پوتی کا نام اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی آبرو کے صدقے میں آبروئے عائشہ رکھا- جو بعد میں پکارنے والوں کے لیے صرف آبرو رہ گیا۔ مگر گھر بھر میں بس ایک دادی امی ہیں، جو اسے اس کے پورے نام سے پکارتی رہیں اللہ سلامت رکھے بڑے بوڑھوں کو جو اپنی نسلوں کی تربیت کا آغاز ان کے بہترین نام رکھ کر کیا کرتے تھے۔ انہیں شرم و حیاء کی گھٹی پلائی جاتی تھی۔
***
آبرو ایک ننھی سی ادھ کھلی کلی جو اٹھارویں سال میں ہی اپنے شباب پر پہنچ گئی ہے۔ جیسے جیسے وہ باغِ دنیا کی رنگینیوں سے آشنا ہو رہی تھی، ویسے ویسے اس کی تشنگی بڑھتی جا رہی تھی، آگاہی کی آگ اسے بھڑکا رہی تھی۔ اس چنگاری کو کس نے ہوا دیکھائی تھی؟ آخر کس نے اس معصوم لڑکی کے نازک جذبات برانگیختہ کیے تھے؟
یہ پچھلے سال 14 فروری کے ویلنٹائن ڈے کی کارستانی ہے۔
تب آبرو میڑک کلاس میں تھی۔ جب اس کی کلاس کی چند آزاد خیال اور بے باک لڑکیوں کے ایک گروپ نے بھولی بھالی اسٹوڈنٹس کے گروپ کے ساتھ مل کر ویلنٹائن ڈے پارٹی منانے کا منصوبہ بنایا۔ گروپ کی ایک تیز طرار لڑکی نے اپنے گھر میں ہلے گلے کا سارا انتظام رکھا۔ تمام لڑکیوں کو تاکید کی گئی کہ وہ سب پارٹی کے دن لازماً سرخ رنگ کا لباس زیب تن کر کے آئیں اور سب کے ہاتھوں میں سرخ گلاب کے پھول ہوں۔ چنانچہ سب ہی لڑکیاں طے شدہ پروگرام کے مطابق 14 فروری کو سرخ لباس میں ملبوس ہو کر مقررہ گھر میں اکٹھی ہوئیں۔ جہاں ان نوخیز بھولی بھالی کلیوں نے انفرادی طور پر پہلی مرتبہ اپنا ویلنٹائن ڈے منانا سیکھا۔ پھر ان سے اپنے موبائل فونز پر بذریعہ واٹس اپ انجان لڑکوں کو ہیپی ویلنٹائن ڈے وش کیا گیا، ایسا کرتے ہوئے سترہ سالہ آبرو کے نرم گرم جذبات بھڑک اُٹھے تھے، اسے یکدم اپنے تمام محرم رشتوں میں خامیاں نظر آنے لگیں، اسے ان سب سے بلاوجہ کی بے شمار شکایتیں لاحق ہونے لگیں۔ اب اس میں کچھ کمی کوتاہی گھر والوں کی بھی رہی ہوگی کہ وہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے آبرو جیسی حساس اور معصوم بچی میں یکسر ہونے والی نمایاں تبدیلیوں کو نظر انداز کر رہے تھے۔ گھر کے سو بکھیڑوں میں الجھی ہوئی امی، دفتری کاموں میں حددرجہ مصروف رہنے والے ابو ، اپنے اپنے پسندیدہ مشاغل میں مصروف ماں جائے اب لے دے کے بچیں نصیحتوں کی پٹاری، بوڑھی دادی امی جو ضعیفی کے باعث قوتِ بصارت و سماعت سے تقریباً محروم ہو گئیں تھیں، لہٰذا آبرو کے پاس شکوے شکایتیں ہی رہ گئیں تھیں۔ جہاں گھر میں ذرا سا بھی اسے کسی نے گُھرکا، تنبیہہ کی یا روکا ٹوکا، مانو وہاں آبرو بی بی کے دکھڑے گِلے شکوے اور دہائیاں شروع کہ “میرا کوئی نہیں مجھے کوئی نہیں سمجھتا، مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا” وغیرہ وغیرہ۔
سالِ نو 2023ء کی مبارکبادیوں سے فراغت کے بعد آبروئے عائشہ 14 فروری کے دن کا شدت سے اپنے ویلنٹائن کا انتظار کر رہی ہے۔ کیونکہ پانی تو اس کی نام نہاد اسکول فرینڈز کی مہربانی سے سر سے اونچا ہو ہی گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماں باپ بہن بھائی جیسے انمول رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی آبرو کو *فرضی ہمدرد* کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی تھی۔ اب وہ ہر وقت خوابوں خیالوں میں گم رہنے لگی ہے، سپنوں کے شہزادے کی راہ تکنے لگی ہے، تنہائی پسند ہوگئی ہے۔ خود سر ہو گئی ہے، چڑچڑی ہوگئی ہے۔
کیا آپ کی حیاء، آبرو، عفت یا پھر مقدس بھی کسی ویلنٹائن کی راہ تَک رہی ہے؟ ایسا ہے تو پھر للہ! ہوش کے ناخن لیں..!
ویلنٹائن ڈے اسلامی معاشرے پر اہلِ باطلہ کا وہ کاری وار ہے جو کارگر ثابت ہوتا جا رہا ہے۔ یہ غیر اسلامی تہوار غیرتِ انسانی کے منافی اور مسلم معاشرے پر یہود ونصاریٰ کا ثقافتی ڈرون حملہ ہے، ایسے بیہودہ اور اخلاق سوز تہواروں کی مذہبِ اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں، اس کا منانا حرام‘ اور غیر مسلم قوم کی مشابہت اختیار کرنا ہے جو قرآنِ حکیم وحدیثِ مبارکہ کے برخلاف ہے۔ فرمانِ رسول اللہﷺ ہے کہ: ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہوتا ہے۔”
قرآن کریم کی سورة النور آیت نمبر 19 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
”بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی پھیل جائے ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذاب ہے۔”
یعنی وہ تمام ذرائع اور وسائل جن سے فحاشی وعریانی اور بے حیائی کی اشاعت‘ بے راہروی اور اخلاق باختگی کے دروازے کھلیں ممنوع اور حرام ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کے نام پر جس ناپاک محبت کا مغربی و مشرقی تصور اس وقت ہمارے معاشرے میں فروغ پا رہا ہے اسلام قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتا۔ حیا‘ عفت وعصمت اور پاکدامنی ہمارے مسلم معاشرے کی پہچان اور اہلِ اسلام کا طرۂ امتیاز ہیں۔ جبکہ ویلنٹائن ڈے یومِ بے حیائی ہے جو سراسر مصنوعی‘ غیر اخلاقی اور بناوٹی اظہارِ محبت کا نام ہے۔ یہ تہوار خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی بے راہ روی کا موجب ہے۔ ویلنٹائن ڈے پر محبت ثابت کرنے کے جو جھوٹے ڈھکوسلے و طریقے اپنائے جاتے ہیں وہ معاشرے میں بے حیائی اور فتنہ و فساد کا سبب بنتے ہیں۔ یہ حقیقت ہم سے پوشیدہ ہے کہ آج شرم و حیاء سے قطعاً عاری یورپی معاشرہ ان تہواروں کے نتائج بھگت رہا ہے اور ان خرافات سے اپنی جان چھڑانے کی تگ ودو کر رہا ہے۔ مقامِ افسوس اور لمحۂ فکریہ ہے کہ مسلم نسلِ نو اپنی سنہری اسلامی تہذیب وثقافت کو یکسر نظر انداز کر کے ”حیا سوز کلچر“ کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ ویلنٹائن ڈے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دینے اور مسلم نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف دھکیلنے والا ” مہلک سمِ قاتل” ہے۔ اس زہر کے اثر کو زائل کرنے کے لیے ہمیں اپنے جوانوں کو خونِ دل و جگر کا تریاق دینا ہوگا۔ فحاشی وعریانی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے ہمارے بچے بچے کو کمربستہ ہونا ہوگا ورنہ تباہی وبربادی اور عذابِ الٰہی ہمارا مقدر بنے گا۔
دیکھیے تو سہی جلتی پہ تیل اس بے رحم میڈیا کی شیطانی کاروائیاں *غیرتِ مسلم مٹاؤ مہم* نے سمِ قاتل کا کام انجام دینے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی ہے۔ ہر ڈرامہ، فلم یہاں تک اشتہارات میں بھی ویلنٹائن ڈے کی کھلے عام دعوتِ زنا دی جارہی ہے، میڈیا نامی یہ دیمک ہماری نسلوں کو نہایت تیزی سے چاٹ رہا ہے۔ مغربی معاشرے کے کھٹملوں نے ہمارے اقدار و روایات کا خون چوس کر انہیں ادھ مرا کر دیا ہے۔ ہم غیروں کا رونا کیا روئیں جب پاسبان ہی بھیڑیوں کے لبادے اوڑھے بیٹھے ہوں۔
“بھرے بازار میں بیٹھے ہیں لیے جنسِ وجود….!”
اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے کردار کو مشکوک قرار دینے والے خود اغیار کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پرائی عورت کے ساتھ برتھ ڈے، بسنت ڈے، کرسمس ڈے، کلر ڈے، ہیپی دیوالی، ویلنٹائن ڈے منانے میں مست و مگن ہیں۔ یہاں ہر سال ویلنٹائن ڈے کے نام پر نجانے کتنی آبروئے عائشہ پامال ہورہی ہیں، ویلنٹائن ڈے پر کتنے عبداللہ دل و جان سے نازنینوں پر فدا ہو رہے ہیں، یہاں سینکڑوں ردائیں فاطمہ نوچی کھسوٹی جا رہیں ہیں ، یہاں ہمارے مرد، عثمان غنیؓ کی عفت و پاکدامنی کو داغ دار کر رہے ہیں۔ ارے! کوئی تو انہیں روکے کوئی انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ کم عمری میں ہونے والی شادیوں پر انگلیاں اٹھانے والے، کم عمری میں ہونے والے زنا پر اندھے، گونگے بہرے بن جاتے ہیں۔ مانا کہ یومِ فحاشی و بے حیائی کو ترویج دینے میں مغربی معاشرہ سراسر قصوروار ہے مگر ذرا اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنے کی زحمت کر لیں۔ ہم نے مغرب زدہ ماحول کے زیرِاثر ہونے میں کوئی کمی کسر رکھ چھوڑی ہے؟ سنگِ مرمر پر چلنے کی کوشش میں ہم تو اپنی مٹی پہ چلنے کا ہنر بھی بھول گئے ہیں۔ اگر ہم آج بحثیت ایک فرض شناس ماں ایک ذمہ دار باپ اپنی آبرو (بیٹیوں) اور اپنے وقار (بیٹوں) کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں، اور ہر بہکانے والے کو ببانگِ دہل بتا دیں کہ ہمارے مذہبِ اسلام میں فحاشی و بے حیائی کی غلاظت یومِ زنا کی ہرگز ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیوں کہ محبت و الفت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہمارے پاس محرم رشتے موجود ہیں۔ ہم تمہارا تر نوالہ کبھی بھی ہرگز نہیں بنیں گے۔ ظالمو! ہمیں ہمارے محارم سے بدظن و بدل کر کے محروم کرنے والو..!
؏: ہوس کی وادیوں سے دور حیاء کی چادر لپیٹے ہوئے،
ہم تم کو ملیں گے اصولِ شریعت کے عین مطابق
کیا آپ اس سال 14 فروری یومِ فحاشی و بےحیائی (ویلنٹائن ڈے)، کو یومِ نفاذ شریعتِ محمدیﷺ نافذ کرنے والے ہیں؟ کیا کہا: “آپ اپنی آبرو کو بچانے کے لیے میدانِ جنگ میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کے لیے تیار ہیں۔”
بس اہلِ باطل بس!
آبروئے عائشہؓ کے محافظ ابھی زندہ ہیں!