(یوم عرفہ کی اہمیت پر ایک مکالمہ جاتی کالم)
گذشتہ روز سے موسم کی حدت میں کمی آئی ہے۔گرمی کی زور ٹوٹا ہے۔جون اپنی جوبن پر تھا۔جھلساتی دھوپ اپنا عتاب دکھا رہی تھی مگر ملک کے مختلف حصوں میں بادل کی آمد اور ٹھنڈی ہواؤں کی انٹری نے یہ نوید سنائی ہے کہ ہمارے لیے عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کا روزہ رکھنا آسان ہوگا۔
عکاشہ نے مسرت آمیز لہجے میں اپنے بھائی خذیمہ سے کہا۔
خذیمہ: اوہ،یہ تو بہت اچھا ہوا مگر بھائی یہ تو بتائیے کہ عرفہ کے روزے کی اہمیت کیا ہے؟
عکاشہ: ہمارے عربی پڑھانے والے استاذ صاحب نے بتایا ہے کہ مسلم،ترمذی،ابو داؤد اور مسند احمد جیسی حدیث کی بڑی کتابوں میں میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔
صیام یوم عرفة إنی احتسب علی الله أن یکفر السنة التی قبله والسنة التی بعده
مجھے اللہ سے امید ہے کہ عرفہ کے روزہ رکھنے کی صورت میں اللہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرمادیں گے۔
ارے واہ سبحان اللہ! ایک دن کا روزہ اور دو سال کے گناہ بخش دیے جائیں۔یہ تو بہت نفع کا سودا ہے۔مشقت کم اور اجر اتنا زیادہ،اللہ کی کرم کے کیا کہنے!
مگر پچھلے سال کے گناہ معاف ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔آئندہ سال کے گناہوں کی معافی ناقابل فہم ہے۔
خذیمہ نے خوشی اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
عکاشہ: دیکھیے! آپ نے ایک اچھا سوال پوچھا ہے،اس کا جواب تین طرح سے محدثین نے دیا ہے۔
1: آئندہ سال، روزے دار کے جو گناہ علم خداوندی میں ہیں،ان سے عفو کا پروانہ مل سکتا ہے۔
2: ممکن ہے کہ اللہ کریم اپنی رحمت سے اس کو گناہ کرنے سے بچالے۔
3: یہ بھی بعید از رحمت الٰہی نہیں ہے کہ وہ اس قدر ثواب سے نواز دیا جائے جو دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہوسکے۔واللہ اعلم
خذیمہ: بہت خوب بھائی! بہت خوب،محدثین کو اللہ نے کتنا زر خیز دماغ دے رکھا ہے،انہوں نے کتنی عمدہ توجیہات فرمائی ہیں۔ایک بات اور سمجھائیے! کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں عرفہ کا دن وہ کہلائے گا جس دن سعودیہ عرب میں قمری تاریخ نو ذی الحجہ ہوگی۔پاکستانی یا کسی بھی اور ملک کی چاند کی تاریخ کا اعتبار نہیں ہے۔کیا یہ درست ہے؟
نہیں،پیارے نہیں۔ محقق اہل علم نے کہا ہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہوتا ہے۔جس طرح عید اور رمضان کے روزے وغیرے میں ہر ملک کی اپنی جغرافیائی حدود،فلکیاتی نظام اور قمری تواریخ کا اعتبار ہوتا ہے،اسی طرح عرفہ کے روزے میں بھی ہماری اپنی ہی تاریخ کا خیال رکھا جائے گا۔بدھ کا دن ہمارے ہاں نو ذی الحجہ کا ہے اور وہی یوم عرفہ ہے۔
عکاشہ میاں نے پوری وضاحت سے جواب دیا۔
خذیمہ: اس دن کی اور کیا خصوصیت ہے؟
عکاشہ: شاباش بھائی! آپ میں حصول علم کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا یے۔اللہ اس میں اور ترقی نصیب فرمائے۔
بات یہ ہے کہ یہ دن کئی ایک اعتبار سے بہت ہی خاص ہے مگر اس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس دن بارگاہِ الٰہی میں اٹھے ہوئے ہاتھ خالی نہیں لوٹائے جاتے۔دعائیں شرف قبولیت پاتی ہیں،بگڑی،بنتی یے،مرادیں پوری ہوتی ہیں اور مشکلات حل ہوتی ہیں۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو یوم عرفہ کے لیے اپنی دعاؤں کی ایک فہرست تیار رکھتے ہیں تاکہ وہ اللہ سے اس روز مانگیں۔
علامہ ابن رجب کی “لطائف معارف” میں لکھا ہے:
حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ میں عرفہ کے پچھلے پہر سفیان ثوری کی خدمت میں حاضر ہوا۔
وہ گھنٹوں کے بل بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی آنکھوں میں نمی تھی۔
میں عرض گذار ہوا:
لوگوں میں سے سب سے بدتر صورت حال کس کی ہے؟
سفیان ثوری رحمہ اللہ جواب میں گویا ہوئے:
“جس کو یہ لگتا ہے کہ آج بھی اللہ اسے معاف نہیں کرے گا”۔
عکاشہ میاں کے مدلل و با حوالہ جواب نے خذیمہ کو خوشی سے نہال کردیا۔
خذیمہ نے جوش مسرت سے اس کا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگا کہ میں عرفہ کا روزہ رکھوں گا،دعائیں کروں گا،نمازیں پڑھوں گا اور تلاوت کروں گا۔
اوہ تو ماشاءاللہ امید ہے کہ عرفہ کی برکت سے موسم بھی خوش گوار رہے گا۔
ان شاء اللہ بھائی! ان شاء اللہ
دونوں گلے لگ گئے اور ایک دوسرے کو دعائیں دیتے جدا ہوگئے۔