98

یہودی میڈیا اار اس کے اثرات/ از قلم محمد اسامہ پسروری

گزشتہ روز پاکستان اور انڈیا کا میچ ہوا اور ہمارے مسلمانوں نے بھی اسے خوب انجوائے کیا اور فلسطین میں ہمارے مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے ننھے منھے بچوں کا خون بہایا جا رہا ہے لیکن ہمارا دجالی میڈیا یہودیوں کے ماتحت چل رہا ہے آج مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں لیکن ہمارا میڈیا اس کو منظر عام پر لانے سے قاصر ہے آپ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے؟
1897ء میں سوئزرلینڈ کے
*”شہربال”* میں تین سو یہودی دانشوروں، مفکروں، فلسفیوں نے ہرٹزل کی قیادت میں جمع ہو کر پوری دنیا پر حکمرانی کا منصوبہ تیار کیا تھا، یہ منصوبہ انیس (۱۹) پروٹوکول کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے عرصہ ہوا آچکا ہے۔ اس منصوبہ کو یہودی دانشوروں کا دستاویز بھی کہتے ہیں۔ اس پلان کی تیاری میں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تیسں یہودی انجمنوں کے ذہین ترین ارکان نے حصہ لیا تھا، انہوں نے جہاں یہ طے کیا تھا کہ تمام دنیا پر حکومت کرنے کے لئے سونے کے ذخائر پر قبضہ کرنا ضروری ہے وہیں اس دستاویز میں ذرائع ابلاغ کو بھی بنیادی اہمیت دی گئی تھی۔ بارہویں دستاویز میں صحافت کی غیر معمولی اہمیت ، اسکی تاثیر وافادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:

“اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے سونے کے ذخائر پر قبضہ کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرا اہم درجہ رکھتا ہے۔ ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر اس کے باگ کو اپنے قبضے میں رکھیں گے۔ ہم اپنے دشمنوں کے قبضے میں کوئی ایسا موثر اور طاقتور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو مؤثر ڈھنگ سے ظاہر کر سکیں اور نہ ہی ہم ان کو اس قابل رکھیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گزرے بغیر کوئی خبر سماج تک پہنچ سکے، ہم ایسا قانون بنائیں گے کہ کسی ناشر اور پریس والے کے لئے یہ ناممکن ہوگا کہ وہ پیشگی اجازت لئے بغیر کوئی چیز چھاپ سکے، اس طرح ہم اپنے خلاف کسی بھی سازش یا معاندانہ پروپیگنڈے سے باخبر ہو جائیں گے۔ ہمارے قبضہ و تصرف میں ایسے اخبارات ورسائل ہوں گے جو مختلف گروہوں اور جماعتوں کی تائید و حمایت کریں گے، خواہ یہ جماعتیں جمہوریت کی داعی ہوں یا انقلاب کی حامی حتی کہ ہم ایسے اخبارات کی بھی سر پرستی کریں گے جو انتشار و بے راہ روی، جنسی و اخلاقی انارکی، استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی مدافعت اور حمایت کریں گئے، ہم جب اور جہاں چاہیں گے قوموں کے جذبات کو مشتعل کریں گے اور جب مصلحت دیکھیں گے انہیں پر سکون کر دیں گے، اس کے لئے صحیح اور جھوٹی خبروں کا سہارا لیں گے، ہم ایسے اسلوب سے خبروں کو پیش کریں گے کہ قومیں اور حکومتیں ان کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں، ہم اسکی پوری احتیاط برتیں گے کہ پہلے سے ٹھونک بجا کر اور اچھی طرح نبض ٹٹول کر اقدام کریں، ہمارے اخبارات و رسائل ہندوؤں کے معبود وشنو کی طرح ہوں گے، جس کے سینکڑوں ہاتھ ہوتے ہیں، ہمارے پریس کا یہ بنیادی کام ہو گا کہ وہ اپنے مختلف موضوعات اور کالموں کے ذریعہ رائے عامہ کی نبض پر ہاتھ رکھے رہے، ہم یہودی ایسے مدیروں اور ایڈیٹروں اور نامہ نگاروں کی ہمت فزائی کریں گے جو بد کردار ہوں اور انکا مجرمانہ رکارڈ ہو، ہمارا یہی معاملہ بدعنوان سیاستدانوں اور لیڈروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ ہوگا، جن کی ہم خوب تشہیر کریں گے، ان کو دنیا کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کریں گے، لیکن ہم جیسے ہی محسوس کریں گے کہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں بس فورا ہم ان کا کام تمام کر دیں گے تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو، ہم یہودی ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعہ کنٹرول کریں گے، ہم دنیا کو جس رنگ کی تصویر دکھانا چاہیں گے وہ پوری دنیا کو دیکھنا ہوگا، جرائم کی خبروں کو ہم تفصیل سے غیر معمولی اہمیت دیں گے تاکہ پڑھنے والوں کا ذہن تیار ہو، اس انداز سے کہ قاری کو مجرم کے ساتھ ہمدردی ہو جائے۔ یہودیوں نے اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے بڑی غیر معمولی ذہانت سے مختلف خانوں میں رنگ بھرنا شروع کر دیا، سب سے پہلے انھوں نے ذرائع ابلاغ کا سہارا لے کر تمام دنیا کی نظروں میں اپنی قومی خصوصیات ( ذلت و خواری، بد طینتی، حرص ولالچ ، قساوت قلبی، شر پسندی، انسانیت دشمنی) کو بدلنے، اپنے کو مظلوم ثابت کرنے اور اپنی تمام قومی خصوصیات کو عربوں کے سرمنڈھنے کی بھر پور کوشش کی ، بالفاظ دیگر یہودی میڈیا نے اپنی قوم کے چیچک زدہ چہرے کو پلاسٹک سرجری کے ذریعہ خوبصورت بنانے کی جدوجہد پر اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں، یہ معمولی کام نہ تھا، اس لئے کہ صدیوں سے مسیحی و اسلامی لٹریچر اور دنیا کی انسانی تاریخ یہودیوں کی مکاری، دغابازی، انسانیت دشمنی، شر پسندی اور سازشی داستانوں سے بھری ہوئی تھی ، بغیر اس عمل جراحی کے یہودیوں کے مقاصد کا حصول ناممکن تھا۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں یہودیوں کو اپنے منصوبوں میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، لیکن اقتصادی میدانوں میں ان کی زبردست کامیابیوں نے انھیں اپنی منزل سے بہت قریب کر دیا۔ ان کا وطن عالم عربی کے قلب میں قائم ہوگیا ، اس لئے کہ سب سے پہلے وہ یورپی و امریکی قوموں کی نگاہ میں اپنے کو ایک مظلوم قوم بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے ، دوسری طرف اپنی تمام تر قومی خصوصیات کو عربوں اور مسلمانوں کےسرمنڈھنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
اس صورت حال کو دیکھ کر آپ کو یقین ہوگیا ہو گا کہ ہم ابھی بھی غلام ہیں آزاد نہیں ہوۓ
یہی وجہ ہے کہ اب کوئی بھی عرب ملک ان کے خلاف کھڑا نہیں ہورہااور نہ ہی ہو سکتا ہے آج میڈیا بھی سارا ان کے قبضے میں ہے اور عرب امارات کے حکمران بھی ان کے قبضے میں ہیں اگر حکمران ان کی پالیسی کے تحت چلتا ہے تو اس کو پوری سپورٹ کرتے ہیں اور اگر کوئی حکمران چوں چراں کرتا ہے تو ماضی میں چند حکمرانوں کا انجام آپ لوگوں کے سامنے ہے جس میں سر فہرست صدام حسین مرحوم ، وغیرہ وغیرہ حکمران ان کی بات نہ مانیں تو وہ اپنے راستے میں رکاوٹ بننے والے کو ایسے صاف کرتے ہیں ۔۔۔
ہمیں ان کے جال سے نکلنے کا مؤثر طریقہ اپنانا چاہیےاور اس کا واحد راستہ ہے ہم آپس میں متحد ہو جائیں پھر دیکھیں کامیابیاں ہمارا مقدر ہونگی اور پھر اللّٰہ تعالیٰ کی نصرت بھی ہمارے ساتھ ہوگی۔
*تمام امت مسلمہ سے میری درخواست ہے کہ اس پر غور کریں اور سوشل میڈیا پر بھر پور احتجاج کریں اور اپنے مظلوم فلسطین بھائیوں کے لیے مضبوط آواز اٹھائیں یہ ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے اور بے ضمیر بے غیرت حکمرانوں کو جھنجھوڑیں۔*
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کا حامئ و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں