70

14فروری حجاب ڈے/تحریر/عائشہ صفدر/فیصل آباد

حجاب کے لغوی معنیٰ ہے کسی دو چیزوں کے درمیان حائل ہونے والی چیز یعنی پردہ جس کی وجہ سے دونوں میں باہم فرق واضح ہو پائے۔ اس سے مراد پردہ، اوٹ، ڈھانپنا کے ہے یا قرآن میں واضح الفاظ میں کہ اپنی چھاتیوں کو ڈھانپنا، خود کو نامحرم سے بچانا پردہ ہے اور یہ چیز عزت و تکریم کے واسطے مسلمان عورت پہ لازم و ملزوم ہے کہ وہ برے سے بچ جائے اور سکون و اطمینان سے بھرپور زندگیاں صرف کرے۔ (مگر افسوس آج فیشن کے ساتھ حجاب ان سب عملی الفاظ سے بالاتر ہو چکا کہ مرضی سے چہرے، چھاتی کو چھوڑ کر سر کے بالوں کو رواجی انداز میں چھپانا)۔آئیےقرآن کی روشنی میں دیکھتے ہے:اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ پردہ کی ابتداء ازواجِ مطہرات کے گھروں سے کی گئی اور عام لوگوں کو حکم ہوا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوں اور اگر امہات المومنین سے کوئی سامان وغیرہ لینا چاہتے ہیں تو پردے کے پیچھے سے لیا کریں۔ (الأحزاب:۵۳) ترجمہ: اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ ہم نے حجاب کے بارے میں جو نقطہ نظر عورت کے لیے پیش کیا ہے قرآن اس کی اصلاح کرتےکچھ یوں اس کی ترجمانی کر رہا ہے اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اوراے مسلمانو تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔(النور٣١) اسلام آسانی کا نام ہے اس کے ساتھ ہی عزت و تکریم سے بھرپور اسلام نے عورت کو اس قدر عزت دی ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور مذہب نے اس عورت کو اتنی خوبصورتی سے بیان نہیں فرمایا جس کا اقرار قران پاک کرتا ہے اور گواہی میں اللہ تعالی نے ذات زن کو عزت بخشی ہے۔ “پردے کی ایات نازل ہونے پر کائنات کی سب سے باحیا عورتوں نے کائنات کے سب سے باحیا مردوں سے پردہ کیا۔” میں آج کی اس تحریر میں کچھ ایسی باتیں بھی زیرِ بحث لانا چاہوں گی جو کہ آج کے اس دور میں بالکل اسلام سے بہت دور اور اختلافات پر مبنی ہے جیسا کہ سب سے پہلی بات کہ آج کے دور میں حجاب کو صرف ایک سر کے بال چھپانا سمجھ لیا گیا ہے جبکہ اس کے اصل اور شرعی معنی قرآن و حدیث کے الفاظ کے مطابق نامحرم سے خود کو چھپانا ہے تاکہ اللہ تعالی نے جو ایک عورت کو عزت سے نوازا ہے وہ اس کی عزت قائم و دائم رہے قرآن میں حجاب کے متعلق چھاتیوں کو چھپانے، ستر کو چھپانے کا حکم آیا ہے جبکہ آج کی لڑکی، آج کی خواتین لباس کو یورپین قسم میں ڈال کر اپنی چھاتیوں کو چھپائے بغیر سر کے بالوں کو ڈھانپ لیتی ہے جو کہ سراسر اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ آج کی لڑکی کے حجاب کے متعلق معنی بدل گئے ہیں کہ وہ صرف سر کے بالوں کو ڈھانپنا حجاب کا نام دے دیتی ہے اصل حق تو یہ ہے کہ جو قرآن نے واضح الفاظ میں بیان کر دیا اور ہماری امہات المومنین کے ذریعے ہم تک جو بات پہنچ گئی اس پر عمل کرنا اس کی پیروی کرنا ہمارے لیے ان اہم فرائض میں سے ہے جن کے بغیر زندگی میں رہتی جانوں تک معاشرے میں ترقی ممکن نہیں اور حقیقتاً آج ہماری ناکام خاندانوں میں یہ بات رائج پاگئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اللّٰہ کو پیچھے چھوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بالآخر قرآن اپنے پڑھنے عمل کرنے والوں کے لیے باعثِ تعظیم ہے کہ اس پہ عمل کرنے والا کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا اور جو عمل کرتا ہے وہ سعادت بانصیب ہے کہ قرب الٰہی کا شرف پاتا ہے۔ ہمارے ہاں حجاب کو سمجھانے کے لیے بڑی خوب صورتی سے اک مثال دی جاتی ہے کہ جیسے قیمتی شے کو ڈھانپ کر رکھا جاتا ہے کہ کوئی دیکھ لے تو چوری چکاری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے بالکل ویسے ہی اللّٰہ نے وجودِ زن کو اس ہیرے کی سی مانند عزت و تکریم و تعظیم و تحریم جیسی اوصاف سے نوازہ ہے کہ غیر محرم کی ناپاک نگاہیں کہیں میلا کچیلا نہ کردے جو بیٹی پیدا ہونے پہ رحمت کا شرف، بہن ہونے پہ ساتھی بھائی کی، عزت، بیوی بننے پہ وفادار، ماں بننے پہ جنت اس کے قدموں تلے اور بڑھاپے کی خدمت میں دعاؤں کی مسکن وہ پھول ہے جو نعمت تعالیٰ نے حیا کی چادر میں رکھی ہے سبحان اللہ اور وہی عظیم خاندان پروان چڑھاتی ہے جس کی عظیم ترین مثال ہاجرہ رضہ ہے جس نے اسمعیل رضہ کی پرورش اس خوب صورت انداز میں کی۔ کہ لکھنے والا لکھتا ہے؛جڑوں کی خوشبو شاخوں تک آہی جایا کرتی ہے۔مریم بنت عمران ان عظیم مثالوں میں ہے جنہوں نے حیا کی فہرستوں میں نام کمائے ہیں اور اللّٰہ نے ان کی ان پاک صفاتوں کا ذکر قرآن کلام الٰہی میں کیا ہے کہ وہ نہایت پاک دامن اور فرمانبردار تھی۔مثال کا مقصد یہ ہے کہ مثال دینے کے لیے مثالی بنے۔ آج مسلمان اپنی عزت اسی لیے کھو رہا ہے کہ اس نے حکم الٰہی کو پیچھا دیا ہے۔”عورت کی خوبصورتی حیا میں، اور اس کا تحفظ حجاب میں ہے”عورت قابل احترام ہے گر وہ اسلام میں ہے۔دعا ہے اللّٰہ ہمیں حجاب کے اصل معنی کو پانے کی عمل کی توفیق دے اور تکریم و تعظیم کی حامل وہ خاندان پروان چڑھے جس کی قرآن گواہی دیتا ہے۔”پاک کے لیے پاک ہیں”آج کے حالات واقعات کو دیکھتے دل بے چین ہے ناجانے ہم اصل سے کیوں دور ہے اور یہی وجہ ہے کہ اولادیں نافرمان ہے بے حیا ہے کیونکہ ہم نے حیا کی چادر اوڑھ کر رکھنا اک عیب ماننا شروع کردیا ہے اس لیے قرآن کے خلاف اصولاً عورت اپنی عزت کو کھونے کی زمہ داری خود ہے جو کہ قرآن میں ستائی نہ جائے کا کہا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اللّٰہ نے فرمایا:جو میری سنت ترک کرے گا وہ ہم میں سے نہیں، اور ذلت و رسوائی اور دور جہالت کا سامان تو وہ خود تیار کر چکی ہے۔ مگر وقت مہلت دے رہا ہے آج بھی وقت گواہ ہے وہ عورت آج بھی اس ہیرے کا سا مقام رکھتی ہے پاسکتی ہے جو حجاب کے اصل معنی کو پاکر ملناہے۔ تمنا ہے پاجائے وہ اصل تکریم قرآن کی بدولت تقدس زن جو حجاب میں جھلکتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں