*صدیق اکبرؓ کی ہیں یہ بیٹی*
*رسولِ انورﷺ ہیں ان کے شوہر*
*اے امی عائشؓہ! آپؓ کے مقدر کا تاقیامت نہیں کوئی ہمسر*
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا آخری حصہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی کا آخری زمانہ ہے اس وقت اماں عائشؓہ کی عمر سرسٹھ برس کی تھی، 85ھجری رمضان المبارک میں بیمار پڑیں، چند روز تک علیل رہیں، کوئی خیریت دریافت کرتا تو فرماتیں “اچھی ہوں”، جو لوگ عیادت کو آتے وہ بشارت دیتے، فرماتیں، “اے کاش! میں پتھر ہوتی، اے کاش! میں کسی جنگل کی جڑی بوٹی ہوتی۔”
مرض الموت میں جناب سیدہ نے یہ وصیت کی کہ: “مجھے دیگر ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ جنتُ البقیع میں دفن کرنا اور رات ہی کو دفن کر دی جاؤں، صبح کا انتظار نہ کیا جائے۔”
یہ 85ھ تھا اور رمضان المبارک کی سترہ تاریخ بمطابق 13 جون678ء تھی کہ نمازِ وتر کے بعد رات کے وقت قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئیں۔ اُم المؤمنینؓ کی وفات کی خبر سن کر انصار اپنے گھروں سے نکل آئے، جنازہ میں جمِ غفیر تھا، لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اتنا بڑا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا، بعض روایتوں میں ہے کہ عورتوں کا اژدہام دیکھ کر روزِ عید کے ہجوم کا دھوکا ہوتا تھا، حضرت اُم سلمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا خبر وصال سن کر بولیں: “عائشہؓ کے لیے جنت واجب ہے، کہ وہ آنحضرتﷺ کی سب سے پیاری زوجہ تھیں، اللہ ان پر رحمت بھیجے کہ اپنے باپ کے سوا وہ آپﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔”
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دنوں مدینہ کے قائم مقام حاکم تھے انہوں نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اماں عائشؓہ کے
بھتیجوں اور بھانجوں، قاسم بن محمد بن ابی بکرؓ، عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ ، عبداللہ بن عتیق، عروہ بن زبیرؓ اور عبداللہ ابن زبیرؓ نے قبر میں اتارا، اور حسبِ وصیت جنتُ البقیع میں مدفون ہوئیں۔ مدینہ میں ایک قیامت بپا تھی کہ آج حرمِ نبوت کی روشن اور فروزاں شمع بجھ گئی۔
ایک مدنی سے لوگوں نے پوچھا کہ:”حضرت عائشؓہ
کی وفات کا غم اہل مدینہ نے کتنا کیا؟”
جواب دیا: “جس جس کی وہ ماں تھیں (یعنی تمام امت مسلمہ) اسی کو ان کی جدائی کا صدمہ تھا۔”
حضرت عائشؓہ نے اپنے بعد کچھ متروکات چھوڑے جن میں ایک جنگل بھی تھا، یہ ان کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حصے میں آیا، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تبرکاً اس کو ایک لاکھ درہم میں خریدا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے یہ کثیر رقم ، عزیزوں میں تقسیم کردی۔
اماں عائشہ صدیقہؓ ، حبیبِ خدا مُحَمَّدﷺ کی محبوبہ سب سے چہیتی اور لاڈلی بیوی تھیں۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذاتِ مبارکہ کی صحبت میں بسر کیا جو جو دنیا میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے آئی تھی کہ جس کا روئے جمالی *اِنَّکَ لَعلیٰ خُلْقِ عَظِيمْ* ہے، کاشانۂ نبوت نے حرمِ نبوی کی رانی کو اپنی حسنِ اخلاق و کردار کے اس اعلیٰ رتبہ تک پہنچا دیا تھا جو انسانیت کی روحانی ترقی کی آخری منزلِ مقصود ہے۔
اللہ رب العزت نے آپؓ ہی کے ذریعے تیمم کی اجازت فرمائی۔ آپؓ کی شان میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئیں جو تاقیامت ہر مسجد میں شب وروز پڑھی جاتی رہیں گی۔آپؓ کا نامِ مبارک ازل سے اُم المؤمنین تھا۔
مُحَمَّد رسول اللّٰہﷺ کی جانِ جاناں پر اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں۔