31

2024 صحت کی دنیا اور پاکستان کی صورت حال/تحریر/صادق قلاتی

صحت و تندرستی ایک خوشگوار زندگی کی ضرورت ہے اور ہر شہری کا بنیادی حق بھی ، مگر پاکستان میں اس حق کو عام آدمی حاصل نہیں کرسکتا ، شہریوں کو صحت کی سہولتوں تک رسائی میں جو رکاوٹیں ہیں، وہ نہ صرف سماجی بلکہ اقتصادی اور سیاسی عوامل کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان میں صحت کا نظام ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے، جہاں ایک طرف سرکاری اسپتالوں کی حالت زار ہے، تو دوسری طرف نجی اسپتالوں کے بھاری بھرکم فیسیں جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں ۔

اگر ایک عام آدمی کی بات کی جائے تو اسے صحت کی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے سرکاری اسپتالوں کا حال دیکھ لیں، جہاں مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، لیکن ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور عملے کی تعداد اس کے مقابلے میں کم ہوتی جا رہی ہے۔

ایک عام شہری جب بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، تو سب سے پہلے وہ سرکاری اسپتال کا رخ کرتا ہے، لیکن وہاں اسے لمبی قطاروں اور طبی عملے کی عدم موجودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹرز یا تو چھٹی پر ہوتے ہیں یا پھر ان کے آنے کا وقت مقرر نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال مریض کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہوتی ہے۔ دوسری طرف، نجی اسپتالوں کا منظرنامہ بالکل مختلف ہے۔ یہ اسپتال جدید مشینری اور بہترین سہولتوں سے لیس ہوتے ہیں، لیکن ان کی فیسیں عام شہریوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ اس صورتحال میں مرض پر قابو پانے کی بجائے ہر نئے دن مریضوں کی تعداد اضافے ہوتا رہتا ہے –
یہی وجہ ہے کہ سال 2024 میں پاکستان کو صحت کے شعبے میں متعدد چیلنجرز کا سامنا رہا ، جن میں نئی بیماریوں کا ظہور اور موجودہ بیماریوں کا پھیلاؤ شامل ہے –
نئی اور ابھرتی ہوئی بیماریوں میں ایم پوکس (منکی پوکس) قابلِ ذکر ہے –
ایم پوکس (منکی پوکس): اگست 2024 میں خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں ایم پوکس کا ایک نیا کیس سامنے آیا، جو خلیجی ممالک سے واپس آیا تھا۔ عالمی ادارۂ صحت نے ایم پوکس کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آف انٹرنیشنل کنسرن(پی ایچ ای آئی سی) قرار دیا ہے ـ
یہ وائرس جو جانوروں میں پایا جاتا ہے اور متاثرہ شخص سے قریبی تعلق کی وجہ سے پھیلتا ہے، اپنی جغرافیائی حدود کو توڑتا ہوا براعظم افریقہ میں بڑے پیمانے میں پھیلنے کے بعد اب یورپ، شمالی امریکا اور دیگر براعظم میں پہنچ چکا ہے۔

اس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ اس وائرس کی نئی (زیادہ مہلک) قسم ’کلیڈ 1 اے‘ ہے جو پہلی بار کانگو میں 2023ء میں سامنے آئی۔ اس نئی قسم نے 500 سے زائد افراد کی جانیں لیں جن میں سے زیادہ تر بچے تھے۔
بچوں میں ظاہر ہونے والی ایم پاکس کی علامات جیسے بخار، خراش، سوزش اور کمزوری کو تو بچوں میں پائی جانے والی دیگر بیماریوں جیسے چکن پاکس یا خسرہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے درست تشخیص اور علاج میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ اس کے مہلک نتائج سامنے آسکتے ہیں اور مبینہ طور پر وائرس پھیل سکتا ہے۔ اسی طرح چکن پاکس جوکہ عام ہے اور اس سے تشبیہ کی بنیاد پر ایم پاکس کے پھیلاؤ کے حوالے سے غیرضروری خوف بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
ایم پوکس سے بچنے کے لیے ہمیں ایک منظم عوامی مہم کی ضرورت ہے تاکہ انفیکشن کی علامات اور بیماری کے حوالے سے طبی علاج کی اہمیت اجاگر کی جاسکے۔ جیسے ہم نے کورونا کے وقت کیا تھا، اس میں بھی ہمیں لوگوں کو شعور دینا ہوگا کہ ایم پاکس کی ابتدائی علامات کیا کیا ہیں۔

اور اسی طرح نومبر 2024 میں لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں اسموگ کی شدت کے باعث آنکھ، ناک، گلے اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ محکمہ صحت پنجاب کے مطابق، اکتوبر کے آخری ہفتے میں آنکھ کے انفیکشن کے 55,000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 7,000 کیسز لاہور میں تھے۔

پرانے امراض میں پولیو کے کیسز میں اس سال مزید اضافہ دیکھا گیا ،
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، رواں سال ملک بھر میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 64 تک پہنچ چکی ہے۔

وزارت قومی صحت کی جانب سے سینیٹ میں پیش کردہ تفصیلات کے مطابق، 2024 میں اب تک ملک بھر میں 59 پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

مزید برآں، دسمبر 2024 میں پولیو کے 4 نئے کیسز سامنے آئے، جس کے بعد اس سال پولیو کے کیسز کی مجموعی تعداد 63 ہو گئی ہے۔

یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ملک میں پولیو کے خاتمے کے لیے مزید مؤثر اقدامات اور ویکسینیشن مہمات کی ضرورت ہے۔

حکومت نے صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے مختلف پروگرامز متعارف کروائے، لیکن ان کا فائدہ محدود طبقے تک پہنچ سکا۔ صحت انصاف کارڈ جیسے منصوبوں کو مزید بہتر بنانے اور عوامی آگاہی بڑھانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
صحت کے شعبے کو درپیش مسائل ایک طویل عرصے سے عوام کی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی ناقص حالت، نجی اسپتالوں کی مہنگی خدمات، اور بیماریوں کے بڑھتے ہوئے چیلنجز نے ایک عام شہری کے لیے صحت کی سہولتوں تک رسائی کو مشکل بنا دیا ہے۔ ایم پوکس جیسے نئے وائرس، اسموگ سے جڑی بیماریوں، اور پولیو کے کیسز میں اضافہ ان چیلنجز کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہ واضح ہے کہ صحت کے شعبے میں فوری اور جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملے کی تعداد بڑھائے، دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز قائم کرے، ادویات کی قیمتوں پر قابو پائے، اور صحت کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کرے۔ مزید برآں، عوامی آگاہی مہمات کے ذریعے بیماریوں کی ابتدائی علامات اور حفاظتی تدابیر پر شعور اجاگر کیا جائے۔

صحت انصاف کارڈ جیسے منصوبے اہم ہیں، لیکن ان کا دائرہ کار وسیع کرنے اور شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے حکومت، نجی شعبے، اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ایک صحت مند قوم ہی ترقی کی منازل طے کر سکتی ہے، اور یہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ معیاری صحت کی سہولتوں سے مستفید ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں