88

6 اگست 1945′ انسانی تاریخ کا ایک الم ناک دن/تحریر/طاہر ایوب جنجوعہ

طاہر ایوب جنجوعہ

20 ویں صدی کے شروع ہوتے ہی سائنسی تحقیقات و نت نئی ایجادات نے حیرت انگیز رفتار سے قدرت کے چھپے ہوئے رازوں کو کھولنا شروع کر دیا, مغرب کا اس سلسلے میں کردار نہایت اہمیت کا حامل رہا جس نے اپنی مادی قوت کے بل بوتے پر صدی کے شروع میں ہی تاریخ انسانی کی تو جیسے کایا ہی پلٹ کر رکھ دی ہوائی جہاز، موٹر, ٹیلی ویژن, مصنوعی سیارے اور اس قبیل کی دوسری چیزوں نے غاروں اور پتھروں کے دور سے شروع ہوئی انسانیت کو ایک نئے جہان سے متعارف کروا دیا, ان ایجادات و اختراعات نے جہاں حضرت انسان کے ہر شعبہ زندگی کو جدید سہولیات و آسائشات سے مزین کیا وہیں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم جیسی ایجادات نے انسانیت کی تباہی و غارت گری کا سامان بھی وافر مقدار میں مہیا کر دیا۔
20 ویں صدی کا آغاز جہاں ایسی متحیر دریافتوں کے باعث انسانیت کی افزائش و ترقی کے باعث بنا وہیں پہلی جنگ عظیم  کے خونخوار عفریت نے لاکھوں زندہ انسانوں کو نگل لیا, انسانی تاریخ کے اس بڑے المیے کا ابھی اثر کم نہیں ہوا تھا کہ جرمنی کے ہٹلر نےاتحادیوں  کےہاتھوں جرمن قوم کی ذلت ورسوائی کا بدلہ لینے کے لیے دوسری جنگ عظیم کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں ایک بار پھر لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے, اور دنیا کو پہلی مرتبہ انسانی خون کی ارزانی کا احساس ہوا۔ الغرض بیسویں صدی اپنے آغاز سے ہی ہنگامہ خیز واقعات سے بھر پور اور کروڑوں انسانوں کےلہو سے رنگین نظر آتی ہے۔
اس صدی کا نہایت اہم, انسانی تاریخ کا نہایت دل سوز اور دردناک واقعہ امریکہ کا جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم حملہ ہے۔ پہلی جنگ میں شکست کا بدلہ لینے کے لیے جرمنی کے نازی حکمران ہٹلر کے سر پر جنون سوار تھا, وہ کسی ایسے ہتھیار کی تلاش میں تھا جس سے کم وقت میں زیادہ تباہی پھیلا کر دشمن کو اس کے انجام تک پہنچایا جا سکے, اس مقصد کے لیے اس نے اپنے سائنس دانوں کو برق رفتاری کے ساتھ اس مقصد پر کام کا حکم دیا, امریکہ کو ہٹلر کے اس اقدام کی بھنک پڑ گئی اور اس نے اس مقصد کے لیے دنیا بھر سے جوہری علوم سے شناسا سائنس دانوں کو اکٹھا کیا اور اپنے تمام تر مادی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہنگامی حالات میں اس پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا, اُدھر جرمنی میں ہٹلر کی خودکشی کے بعد جوہری بم والا معاملہ سرد پڑ گیا اور ادھر امریکہ کی مین ہٹن پراجیکٹ پر کام کرنے والی ٹیم نے محض پانچ سال سے بھی انتہائی قلیل عرصے میں دو ارب ڈالر کی لاگت سے امریکہ کو دنیا کی سب سے پہلی جوہری طاقت بنا دیا۔ جس کا باقاعدہ تجربہ امریکہ نے 16جوالائی 1945 کو صبح ساڑھے پانچ بجے جزائر مارشل میں کیا ،اس کی طاقت بیس ہزار ٹی این ٹی (Try Nitro Toluene)کے برابر تھی۔
ہٹلر اور مسولینی کے عالمی منظر سے ہٹ جانے کے بعد جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے لیکن جاپان ابھی تک جنگ جاری رکھے ہوئے تھا اور کسی بھی صورت ہار ماننے کے لئے تیار نہ تھا, جاپان نے امریکی مجمع الجزائر ہوائی کی ایک بندر گاہ ” پرل ہاربر ” پر حملہ سے امریکہ بحری بیڑا(U.S. Pacific Fleet) جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں اور دوسرے جنگی ساز وسامان کے سمیت تباہ کر دیا تھا جس میں دو ہزار امریکی فوجی ہلاک اورگیارہ سو کے قریب زخمی ہوئے تھے, اس واقعہ سے امریکہ کسی زخمی سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا جاپان پر حملہ آور ہوا, اور دنیا کے تباہ کن ہتھیار ایٹم بم کا استعمال کر ڈالا, حالانکہ اس سے پہلے جاپانی شہنشاہ ہیرو ہیٹو(Hiro Heto) امریکہ کو یہ پیش کش کر چکا تھا کہ اگر وہ جاپانی بادشاہت کو برقرار رکھنے کا وعدہ کرے تو جاپان ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار ہے, لیکن امریکہ نے اس پیش کش کو ٹھکرا کر اپنے جنگی جنون کا عملی مظاہرہ کیا, بلاشبہ امریکہ پر ایک طرف جنگی جنون سوار تھا اور دوسری طرف وہ اپنی صدی کی سب سے بڑی اور حیران کن ایجاد جوہری بم کی عملی کارکردگی کا جائزہ بھی لینا چاہتا تھا۔
16جولائی 1945ء کو امریکہ نے نیو میکسیکو میں ایٹم بم کا پہلا کامیاب تجربہ کر لیا, اور یوں دنیا کو چند سیکنڈ میں ختم کرنے والا آلہ پہلی بار انسانوں کے ہاتھ لگ گیا, اس ایٹمی تجربہ کے محض 21 دن کے بعد یعنی 6 اگست 1945کو امریکہ نے اپنے B 29 کے ذریعے جاپان کے سب سے بڑے جزیرے اور ساحلی شہر “ھیرو شیما” پر پر نو ہزار ٹن وزنی ایٹم بم گرا دیا۔ اس جہاز کا پائلٹ ” کرنل پال ٹبٹس” تھا جس نے صبح آٹھ بج کرپندرہ منٹ پر تقریباً آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے معصوم شہریوں پر دنیا کا سب سے پہلا اور تباہ کن ایٹمی ہتھیار پھینکا۔ اس بم کا کوڈ نیم ” لٹل بوائے” رکھا گیا تھا, اس کے گرتے ہی تقریباً اسی ہزار کے لگ بھگ معصوم شہری پل بھر میں جل کر بھسم ہو گئے, اور تقریباً ایک لاکھ کے قریب زخمی ہوئے, جن میں سے اکثر ایٹمی تابکاری کے اثرات سے ناقابل علاج اور عبرت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔ اس میں معصوم پھول جیسے بچے بھی شامل تھے اور لاچار و بے بس عورتیں ، بوڑھے اور نوجوان بھی شامل تھے۔ امریکہ نے بس اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ سفاکیت اور بربریت کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے 9 اگست 1945کو ایک اور جاپانی ساحلی شہر “ناگاساکی” پر پلوٹونیم سے تیار کردہ ایک اور بم گرا دیا جس کا نتیجہ بھی پہلے بم کی تباہی ہی تباہی تھا اس کا نام “فیٹ بوائے” رکھا گیا, اس کا وزن دس ہزا ر پونڈ کے قریب تھا اور اس سے تقریباً ساٹھ ہزار کے قریب معصوم شہری فوری طور پر لقمہ اجل بن گئے, اسی ہزار کے لگ بھگ بری طرح جھلس کر ” ریڈی ایشن ” کی وجہ سے رستے ناسور اور لا علاج امراض کا شکار ہو کر دردناک موت مرے۔ اس کے بعد 15اگست 1945کو جاپانیوں نے اس آفت ناگہانی کے تباہ کن نقصانات کی وجہ سے ہتھیار ڈال دئیے اور امریکہ نے جاپان پر قبضہ کر لیا اور اپنے ایک جنرل ڈوگلس میکارتھر کو وہاں کاحکمران بنا دیا۔
بنوع انسان کی پیدائش سے لے کر آج تک لاکھوں جنگوں میں کروڑوں اربوں انسان لقمہ اجل بنے لیکن یہ واقعہ انسانی تاریخ کا بلاشبہ ایک الگ اور منفرد واقعہ ہے جس نے پلک جھپکتے ہی لاکھوں زندہ انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا, امریکہ اس کا جواز یہ دیتا ہے کہ اس نے دوسری عالمی جنگ ختم کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا, کیونکہ اگر جنگ مزید چند سال جاری رہتی تو دونوں طرف سے لاکھوں لوگ مزید مارے جاتے, لیکن اس بڑی تباہی کا یہ امریکی جواز قطعاً غیر منصفانہ ہے, اگر وہ دنیا کو جنگ کے طوفان سے بچانا چاھتے تو اس کے اور بھی کئ طریقے موجود تھے, اور بلاشبہ اس کے لیے سب سے بہتر تو مفاہمت کا راستہ ہی ہے, لیکن بات وہی ہے کہ طاقت کا نشہ انسان سے ہوش و حواس سلب کر لیتا ہے۔ امریکہ کو پرل ہاربر پر ہونے والے حملے اور نقصانا ت کا بدلہ لینے کا پورا حق حاصل تھا لیکن اس کے لیے وہ معصوم شہریوں کے پرخچے اڑانے کے بجائے کسی فوجی چھائونی، ائیر فورس ہیڈ کوارٹر, یا پھر نیول ہیڈ کواٹر کا انتخاب کر لیتا تو شاید اس کے اس جواز کو کچھ سند مل جاتی, لیکن معصوم شہریوں کی یوں دردناک ہلاکت نے امریکہ کے انسان دشمن رویے کو نہ صرف عیاں کیا بلکہ جاپانی قوم کے علاوہ دنیا بھر کے امن پسندوں کو بھی رُلا دیا۔
آج انسانیت ایٹمی توانائی کی ارتقائی منزلوں کو طے کرتی ہوئی کشاں کشاں ایٹمی توانائی کے منطقی اور مدلل غارت گری کے دردناک انجام کی طرف گامزن ہے, اور اس کے لیے دلیل ناقابل تسخیر دفاع جیسی اصطلاح کو لاتی ہے, لیکن حقیقت میں بنی نوع آدم کی اکثریت اس ایٹمی توانائی کے اسرار و رموز سے یکسر نا آشنا اور اس کے انجام سے حقیقی طور پر بیگانہ ہے کیونکہ آج جس طرح کے جدید ایٹمی وار ہیڈز دنیا بھر کے ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک کے پاس ہیں وہ آج سے 77 سال پہلے والے ایٹمی ہتھیاروں سے کہیں زیادہ غارت گر اور تباہ کار ہیں, جو آج سے لگ بھگ آٹھ دہائیاں پہلے کی تباہی کے آج بھی اثرات رکھتے ہیں۔ کیونکہ ایک تحقیق کے مطابق ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں پیدا ہونے والے بچوں میں آج بھی اس تابکاری کے اثرات دیکھے گئے ہیں۔
اب موجودہ دور کے ایٹمی ہتھیار کس قدر انسانیت سوز ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ کسی درد دل رکھنے والے کے لیے لگانا مشکل نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں