91

انسان اپنے اخلاق سے پہچانا جاتا ہے/تحریر/بشریٰ عبدالحفیظ راجپوت

انسان اپنے اخلاق سے پہچانا جاتا ہے :
ہم بھی اپنے اخلاق سے پہچانے جاتے ہیں
بشریٰ آج ایک عنوان پر لکھنا شروع کررہی ہے (جو حقیقت ہے )
” لیکن اس کو تسلیم کم ہی کرتے ہیں “
کچھ وقت پہلے ہمارے اخلاق کا پتا چلتا تھا جب ایک دوسرے سے بات ہوتی یا کام ہوتا ۔۔۔۔
بڑے بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ ،اگر کسی کا اخلاق دیکھنا ہو کیسا ہے تو اسے بولنے دیا جاۓ جب بولنا شروع ہو تو آپ اس کے بولے گٸے الفاظ سے اس کے اخلاق کو معلوم کرلو ۔۔۔
یہ تو رہی ایک دوسرے سے بالمشافہ ملنا ۔۔۔ملاقات وغیرہ وغیرہ ۔
لیکن جیسے جیسے دور گزرتا رہا ۔
اور آج ایک جدید ٹیکنالوجی دور کی دنیا میں پہنچ گٸے
جہاں ہمیں کام کرنے کے لٸے اب بالمشافہ جانے کی ضروت نہی ،
کافی حد تک ہمارے کام اب نیٹ کی دنیا پر ہوجاتے ہیں ۔
اس بات سے تو آپ سب بھی واقف ہونگے ۔۔۔
جہاں اور بھی بہت سارے کام نیٹ کی دنیا پر ہوتے ہیں ،وہاں تعلیمی نظام بھی نیٹ پر بن گیا ۔۔۔
اسکول کے کورسز ہوں، یا مدارس کے کورسز ہوں، یا ورکشاپ ہو یہ سب نیٹ پر پاٸی جاتی ہے ۔۔۔۔
اور ان میں کافی حد تک حساس طالبہ شامل ہوتی ہیں ۔
تو اب آجاٸیں اس بات کی طرف جہاں میں توجہ دلانا چاہ رہی ہوں ؟
جب ہم آن لاٸن کام کرتے ہیں یا پڑھتے ہیں، پڑھاتے ہیں، سیکھتے ہیں، سیکھاتے ہیں ۔۔۔۔
جہاں ہم نیکیاں کمارہے ہیں
کہیں وہاں اشرف المخلوق کے دل کو تو نہیں توڑ رہے ۔
اب ہمارا واسطہ چیٹنگ کے ذریعے سے ہوتا ہے ۔۔۔
یا میسج کے ذریعے سے ہوتا ہے ۔
اب یہ چیٹنگ ہمارے اخلاق کو دیکھاۓ گی
ہم کونسے الفاظ استعمال کرتے ہیں !!
کیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں !!!
کیا سلام سے ابتدإ کرتے ہیں !!!
یا ڈاٸریکٹ باتوں سے !!!
ہمارے الفاظ کسی کی زندگی میں بہار بنتے ہیں یا کانٹے ۔۔۔۔۔ !!!؟
کیا احترام و ادب کا لحاظ ہم کرتے ہیں ۔۔۔
اور ایک اہم پواٸنٹ بہت ہی اہم !!!!!
کیا ہم اگنور کرتے ہیں ۔
کیا ہم مصروف اتنے ہیکہ ہم کسی کے اہم سوال کے جواب دینے کو پسند نہیں کرتے ؟
کیا ہم میسج دیکھ کر جواب دینا پسند نہیں کرتے ؟
کیونکہ ہم اگر جواب دے دے تو شاید لوگ ہماری اہمیت نا سمجھے :
ہم اپنی اہمیت بناتے بناتے لوگوں کے دلوں سے نکل رہے ہوتے ہیں !!
کیونکہ بعض سوال کے جواب میں صرف جی یا اوکے کہنا بھی جواب بن جاتا ہے .
اور کیا معلوم سامنے والے کتنی مشکلات سے وہ سوال کرپاۓ ہو ؟
ہمارا ایک سیکنڈ ایک منٹ کا وقت کا جواب دینا کسی کی زندگی میں ہیرے جواہرات سے زیادہ قیمتی بن جاۓ ۔۔
لیکن یاد رہے !!!
بات مصروفیت کی نہیں کی جارہی ۔
مصروفیت کو برقرار رکھنا چاہیے ۔۔ یہ تو اچھی بات ہے ۔
لیکن اپنے سے جڑے قیمتی تعلق ،پرخلوص رضاۓ الٰہی کی خاطر جڑی حساس بہنوں کو طالبات کو جوڑے رکھے ۔
اپنے رویے اپنے لہجے سے یہ محسوس نا کروایا جاۓ ،کہ سامنے والے کی کوٸی اہمیت نہیں
کیونکہ وہ بھی قابل ہوتی ہے کہیں نہ کہیں ۔
ماہر نفسیات کے مطابق جب انسان کو یہ محسوس ہونے لگتا ہیکہ اسکی قدر نہیں تو وہ وہاں رہنا پسند نہیں کرتے ۔
دیکھنے میں ہر روز یہ آتا ہے سننے میں آتا ہیکہ فلاں طالبہ نے فلاں آن لاٸن ادارے کو چھوڑ کر کوٸی اور ادارہ جواٸن کرلیا ہے ۔۔۔
اب جو ادارہ جواٸن کیا ہے کیا وہ صحیح ہے اسے صحیح علم ملے گا یا نہیں ۔۔۔۔۔؟
کیا ہمارا ایک منٹ زیادہ قیمتی تھا ؟
یا کسی طالبہ کی پوری زندگی کی احساس کمتری، غلط روش ،زیادہ قیمتی ہے ؟
یہ ایک بیماری ہے جو ہم میں اکثر پاٸی جاتی ہے!!! اور ہم اسکا ٹریٹمینٹ بھی نہیں کرتے ۔۔۔
ہم تو آپ ﷺ کی سیرت کو اپنی زندگی میں لانے والے ہیں نا۔۔۔۔
اگر غور کیا جاۓ سیرت طیبہ میں تو :
ہمیں یہ ملتا ہے جب بھی کوٸی ہمارے نبی ﷺ سے بات کرتا آپ ﷺ پورا اسکی طرف متوجہ ہوجاتے ۔۔۔
پوری توجہ سے بات سننتے
اور جواب اچھے سے فرماتے ۔
جب سلام فرماتے تو پورا سلام فرماتے
تب تک ہاتھ نا چھوڑتے جب تک سامنے والا ہاتھ نا چھوڑ دیتا ۔۔۔۔
چھوٹے سے چھوٹے بچہ سے بھی پیار سے بات کرتے
بڑوں سے بھی
حتی کہ کبھی دشمن سے بھی بدکلامی نا فرماتے ۔۔
ہمارے نبی ﷺ کے یہ اخلاق تو ہم نے اپنانے ہیں ۔۔
تو کہاں ہے ہمارے اخلاق ؟
دوسروں نے اپناۓ ہیں، وہ مٶثر بن گٸے لوگ انکی طرف دوڑ کر جارہے ہیں ہمارا شکوہ ہے کہ گمراہی کیوں پھیل رہی ہے ۔۔۔وہ لوگوں کو متاثر کررہیں ہے ۔۔۔
ارے دیکھنے کی چیز تو یہ ہیں کیا چیز ہے!!
ان میں جو لوگوں کو متاثر کررہی ہے !!
یہی نا کہ وہ اخلاق بہت اچھا دیکھاتے ہیں لوگوں کو ۔۔۔۔
تو سوچیے ایمان کے ڈاکہ زن بھی اچھے اخلاق سے کام کررہے ہیں
ہم کہاں ہے ۔۔۔؟
ہمارے اخلاق کہاں ہے ۔۔۔۔؟
ہم نے تو مصروف ترین شخصیات کو جواب دیتے ہوۓ دیکھا ہے ہمیں ہمارے سر ہو یا ٹیچر ہو استاد ہو یا معلمہ کبھی اگنور نہیں کرتے
اکثر تو فورا ہی جواب دے دیتے ہیں ۔
مصروفیت کی وجہ سے کوٸی سوال جلدی نا دیکھ پاۓ تو جس وقت دیکھتے ہیں جواب ضرور دیتے ہیں۔
یہ ان کے اخلاق حسنہ ہیں جو ہم ان سے سیکھتے ہیں ۔۔۔۔
ہمارے ایک استاد محترم کی عادت شریفہ تو یہ ہیکہ کہیں مصروف ہو کوٸی جواب دینے کا موقع محل نا ہو تو فرمادیتے ہیں بیٹی ہم نے آپکا سوال دیکھ لیا ہے فری ہوکر جواب دیتا ہوں
ان شإاللہ ۔۔۔
اور پھر جواب بھی دے دیتے ہیں ۔
اکثر تو ہم وقت لے لیتے ہیکہ کس وقت سوال کرے جو ہمیں لگتا ہیکہ سوال کے ساتھ جواب مل جاۓ تو استاد محترم وقت بھی بتادیتے ہیں کہ فلاں وقت سوال کرلیجیے گا ۔
تو یہ انکے اخلاق حسنہ ہے جو ہمیں ان سے جوڑے ہوۓ ہیں دعاٶں میں یاد رہتے ہیں ۔۔۔
بتانے کا مقصد یہ ہیکہ ہم بھی اگر ان ٹرپ پر عمل کریں تو ہم بھی متاثر بن سکتے ہیں !!!
نہیں تو اگر اگنور کرتے رہیں نا تو ایک دن ہم خود ہی اگنور ہوجاٸینگے ۔۔۔۔
پھر معلوم ہوگا کہ ہم کہاں غلط تھے ۔
[ پھر وہ والی کہاوت ]

” اب پچھتاۓ کیا جب چڑیا چن گٸی کھیت “
جو چھوڑ جاۓ گی تو پھر دوبارہ نہی آۓ گی ۔

ان القلوب اذاتنافر ودھا مثل الزجاجہ کسرھا لایجبر منھا
ہمیں اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ دنیا لہجوں کو سمجھتی ہے
دنیا کی محسوس کرنے والی حس زیادہ کام کرتی ہے ۔۔۔
تو ہم کسی کو دکھ تکلیف دینے والے نا بنے
ہم تو مومن ہے اور مومن تو نافع ہوتا ہے۔۔
سوچیٸے گا ضرور !!!
تھوڑا نہی پورا سوچیٸے
میں بھی سوچتی ہوں
میرے اندر یہ بیماری ہے ،تو میں بھی اس بیماری سے بچ جاٶں کوشش کروں کیسے بچ پاٶں ۔۔
اس متعلق بہت سے واقعات بھی ہے چونکہ میرے پاس وقت کی قلت ہے
اور ہاتھ بھی ساتھ نہیں دے رہے کہ مزید کچھ لکھ سکوں
تو جو لکھا گیا وہی کافی ہے ۔۔۔۔
اسی پر عمل کرلیا جاۓ تو میں امید کرتی ہوں کافی ہے ۔۔۔
امید ہیکہ میں اپنی بات سمجھاپاٸی ہونگی ۔۔
شکریہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں