107

شہید کربلا ریحانۃ رسولؐ، شہنشاہ صلح وامن، نوجوانانِ جنت کے سردار حضرت امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومانہ شہادت/تحریر/مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی/مرکزی صدر اسلامک رائٹرزموومنٹ پاکستان

مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

ماہ محرم الحرام سے اسلامی سال کا آغاز ہوتاہے اس ماہ میں ایک ایسا تاریخی اور انقلابی سانحہ پیش آیاکہ جوہرسال اہل ایمان کو عظیم قربانیوں کا سبق دیتاہے ، کربلا کا درس یہ بھی یا دکراتاہے کہ اصل زندگی خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردینا ہے اورمیدان کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور خانوادہ رسول کی قربانی کا یہ ہی پیغام ہے ۔حضرت سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنھماکی شہاد ت تاریخ انسانی کا ناقابل فراموش المیہ ہے ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت
آ پ کی ولادتِ با سعادت 5شعبان المعظم04 ھ کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے گوش مبارک میں اذان دی، منہ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لئے دعا فرمائی۔ پھر ساتویں روز آپ کا نام مبارک حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔
نام: حسین ،کنیت ابو عبداللہ ،لقب مبارک سبطِ رسول اور ریحانِ رسول ہے۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا حسنین کریمین کے ناموں پر فخر
حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت ہارون نے اپنے بیٹوں کا نام شبر اور شبیر رکھااور میں نے اپنے بیٹوں کا نام انہی کی طرز پر حسن اور حسین رکھا۔(صواعق المحرقہ)
اسی لیے حسن و حسین کو شبر اور شبیر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔
سریانی زبان میں حسنین کریمین کے ناموں یعنی شبروشبیر اورعربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔(صواعق المحرقہ)
ایک حدیث مبارکہ میں ہے: حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دونام ہیں۔(صواعق المحرقہ)
ابنِ الاعرابی حضرت مفضل سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے یہ نام مخفی رکھے یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب آپ کے فضائل میں بہت حدیثیں ملتی ہیں۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین کو اپنے انتہائی قریب فرمایا ہے گویا کہ حسین سے دوستی حضور علیہ الصلوٰۃو السلام سے دوستی ہے۔ حسین سے عداوت رکھنا حضور علیہ الصلو ۃوالسلام سے عداوت و دشمنی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ رب العزت سے محبت کی۔ (مشکوۃ شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا چھوٹا بچہ کہاں ہے؟
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود مبارک میں بیٹھ گئے اور اپنی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک میں داخل کر دیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا بوسہ لیا اور فرمایا:اے اللہ! میں اس(حسین)سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور اس سے بھی جو اس سے محبت کرے۔(نورالابصار)
شہید کربلا کے کارنامے:
شہید کربلا حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک ابھی ساڑھے سات برس تھی کہ والدہ محترمہ خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا کا انتقال ہو گیا اور آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے شفیق ترین نانا کے بعد حضرت فاطمہ جیسی شفیق ترین ماں کی مامتا اور سایہ سے محروم ہوگئے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے شفیق ترین باپ کی پدرانہ شفقت نے آپ کا غم غلط کر دیا اور آپ کی کامل تربیت فرمائی۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ قرآن کریم کے حافظ بن گئے۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور قرآن کریم کے معانی پر آپ کی خاصی نگاہ تھی۔ اطاعت الہی اور اتباع نبوی میں کامل تھے۔
تقوی، طہارت اور حق گوئی وبے باکی اور جہاد آپ کا شعار تھا۔ دور صدیقی اور عہدِ فاروقی میں آپ نو عمر تھے۔ البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں آپ اچھے جوان اور سپاہی تھے۔ چنانچہ فتح طبرستان کے لشکر میں جو حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں گیا تھا، آپ سرفروشانہ شریک تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کو جب باغیوں نے گھیر لیا تھا تو ان کی حفاظت کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو مقرر کیا تھا۔ لیکن باغی کسی دوسری جانب سے مکان میں داخل ہو گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے دروازے پر پہرہ دیتے رہے، باغیوں کے اندر داخل ہونے کا انہیں پتہ نہیں چل سکا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سن کر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں آئے تو انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس بات پر ڈانٹا۔ مگر باغی ایسے راستے سے اندر داخل ہوئے تھے، جس کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو علم نہیں تھا۔
دور حیدری میں آپ برابر اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دست و بازو رہے۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی شہادت (40ھ) کے بعد اپنے بڑے بھائی حضرت حسن کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں آپ آگے آگے تھے، لیکن جب چھ ماہ بعد وہ حضرت امیر معاویہ کے حق میں دست بردار ہو گئے تو حضرت حسین نے بھی اپنے بڑے کے احترام میں ان کا ساتھ دیا۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب تمام مسلمانوں کے وظیفے مقرر کیے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا وظیفہ پانچ ہزار درہم سالانہ مقرر فرمایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ وظیفہ آپ کو برابر ملتا رہا۔ یہ وظیفہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں دس لاکھ درہم تک بڑھا دیا، جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو برابر ملتا رہا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے تو اس طرح مسلمان ایک بار پھر متحد ہو گئے اور وہ تلوار جو اعلائے کلمۃالحق کے لیے وقف تھی اور بدقسمتی سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے اس کا رخ خود مسلمانوں کی طرف ہو گیا تھا اور پورے دور حیدری میں مسلمان اپنا ہی خون بہانے میں مصروف رہے تھے، وہ تلوار پھر جہاد، اعلائے کلمۃ الحق اور اتحاد ملت کیلئے وقف ہو گئی۔ یہحضرات حسینین کریمین رضی اللہ عنھماکا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مسلمانوں کے اس باہمی اتفاق واتحاد کے بعد اسلام کی اشاعت جو مسلمانوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے موقوف ہوگئی تھی، ایک بار پھر شروع ہو گئی اور مسلمان یکسو ہو کر اشاعت اسلام اور جہاد کے مشن پر گامزن ہوگئے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے علم و فضیلت، تقوی وطہارت کے باوجود سیاست میں حصہ لیا، بلکہ میدان کربلا میں اپنی جان دے کر اسے صحیح رخ پر لانے کی کوشش فرمائی۔ اس طرح آپ نے دین کے صحیح تصور کو قائم اور باقی رکھنے، زندہ اور تازہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ آپ کا عظیم کارنامہ ہے۔ آپ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ سیاسی پہلو میں شورائیت اور انتخابات کے بجائے جو نامزدگی اور ولی عہدی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، اس کے خلاف آواز اٹھا کر اور تحریک چلا کر، بلکہ اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی دیکر یہ ثابت کر دیا کہ دین کے کسی پہلو میں بھی بدعت سر اٹھائے تو اسے کسی حال میں برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ ایک کارنامہ آپ کا یہ ہے کہ اگرچہ رخصت کی راہ کھلی ہوئی تھی، مگر آپ نے عزیمت کی راہ اختیار کر کے رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کیلئے سنگ میل قائم کیا کہ اسلامی خلافت باقی رکھنے کیلئے اور اسے ملوکیت کی راہ پر جانے سے روکنے کیلئے عزیمت کی راہ اپنانا چاہیے اور اپنا خون دیکر اسے صحیح صورت پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مسندِ خلافت اور بیعت:
رجب 60ہجری میں حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا، یزید مسندِ خلافت پر براجمان ہوا، تو فسق و فجور، ظلم و جبر، ناانصافی و عہدشکنی کے دور کا آغاز ہوگیا۔ نیز، یزید نے خود اور اپنے کارندوں کے ذریعے عالمِ اسلام سے بزورِ جبر اپنے حق میں بیعت لینا شروع کردی۔ اس وقت مدینہ منورہ میں یزید کا چچازاد بھائی، ولید بن عقبہ گورنر تھا۔
یزید نے اسے ایک مختصر سا حکم نامہ ارسال کیا، جس میں تحریر تھا کہ حسین ابنِ علی، عبداللہ ابنِ عمر اور عبداللہ ابنِ زبیر کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے اور اگر وہ نہ مانیں، تو ان کے ساتھ پوری سختی کی جائے، یہاں تک کہ تینوں بیعت کرلیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی، تو آپ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ ادھر اہلِ کوفہ تواتر کے ساتھ خطوط اور وفود کے ذریعے یہ اصرار کرتے رہے کہ آپ کوفہ آجائیں تاکہ اہلِ کوفہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرسکیں۔
حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت:
کوفے والوں کے بے انتہا اصرار اور لاتعداد خطوط کے جواب میں آپ نے پہلے اپنے چچازاد بھائی، حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ وہاں کے حالات کا صحیح اندازہ کرکے اطلاع دیں۔ حضرت مسلم بن عقیل نے کوفہ پہنچ کرعوسجہ نامی ایک شخص کے گھر قیام کیا اور لوگوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت لینی شروع کردی ۔ جلد ہی بارہ ہزار لوگوں نے خفیہ طور پر بیعت کر لی، جس پر انہوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر جلد کوفہ پہنچنے کی گزارش کی۔
حضرت حسین نے خط ملتے ہی کوفہ جانے کی تیاری شروع کردی۔ ادھر کوفہ کے نئے گورنر، عبیداللہ بن زیاد کو حضرت مسلم بن عقیل اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کے بارے میں مخبری ہوگئی، چنانچہ چند سازشی عناصر کے ذریعے حضرت مسلم بن عقیل کو ہانی بن عروہ کے مکان سے گرفتار کرکے شہید کردیا گیا اور اہلِ کوفہ بزدلی، خوف اور بے بسی کی تصویر بنے، شہادت کا یہ روح فرسا منظر دیکھتے رہے۔
شہید کربلاحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کوفہ روانگی:
3ذی الحجہ 60ہجری بروز دوشنبہ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال اور خاندان کے ہم راہ کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور یہ وہی دن تھا کہ جب حضرت مسلم بن عقیل کو ابن زیاد نے بے دردی سے شہید کردیا تھا۔ اہلِ مدینہ اور صحابہ کرام نے آپ کو روکنے کی کوشش کی۔ اہلِ کوفہ کی بے وفائیاں اور شہادتِ علی المرتضی رضی اللہ عنہ یاد دلائی، مگر آپ نے فرمایا میں نے اپنے نانا کو خواب میں دیکھا ہے۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تاکید کے ساتھ اس کام کو کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب یہ کام ضرور کروں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔ لوگوں نے آپ سے خواب کی تفصیل جاننی چاہی، تو آپ نے فرمایامیں نے یہ خواب کسی کو نہیں بتایا اور نہ بتائوں گا۔ یہاں تک کہ اپنے پروردگار سے جا ملوں گا(ابنِ اثیر، البدایہ والنہایہ)
ابھی آپ کوفہ کے راستے میں قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حر بن یزید تمیمی سے سامنا ہوا، جو ایک ہزار افواج کے ساتھ آپ ہی کی تلاش میں تھا۔ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا کہ جنہوں نے کوفہ آنے پر اصرار کیا تھا، لیکن اب یزید کے ساتھ تھا۔ وہ آپ سے ملا اور حضرت مسلم کی شہادت سمیت پوری روداد سناتے ہوئے واپس جانے کا مشورہ دیا، لیکن حضرت مسلم کی شہادت کی خبر سن کر ان کے بھائیوں نے کوفہ جانے پر اصرار کیا، چنانچہ آپ نے سفر جاری رکھا۔ راستے میں کوفہ سے آنے والے لوگوں نے آگے نہ جانے کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا کہ اہلِ کوفہ کے دِل تو آپ کے ساتھ ہیں، لیکن تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔
کربلا میں قیام اورشرائطِ امام:
2 محرم 61ہجری کو ایک مقام پر آپ نے قافلے کو روک کر اس جگہ کا نام دریافت کیا۔ بتایا گیا کہ اس جگہ کو کربلا کہتے ہیں۔ آپ نے آب دیدہ ہوکر فرمایا کہ یہی جگہ ہماری مقتل گاہ ہے۔ چنانچہ وہاں خیمے نصب کردیے گئے، لیکن ابنِ زیاد کے حکم پر وہاں سے خیمے ہٹا دیے گئے اور دریائے فرات سے تین مِیل کی دوری پر صحرا میں لگا دیے گئے کہ جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا۔
کربلا میں عمرو بن سعد 4ہزار فوجیوں کے ساتھ آپ کے محاصرے پر مامور تھا۔ اس وقت آپ کے خیموں میں معصوم شیرخوار بچوں، بیمار زین العابدین اور خواتین سمیت 72نفوسِ قدسیہ ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سعد کے سامنے تین شرائط رکھیں
(1) مجھے واپس مکہ یا مدینہ جانے دیا جائے۔
(2)کسی سرحدی مقام کی جانب نکل جانے دیا جائے۔
(3)یزید کے پاس دمشق جانے دیا جائے تاکہ اپنے معاملات طے کرلوں۔
عمرو بن سعد نے شرائط ابن زیاد کو لکھ بھیجیں، لیکن اس نے یہ تینوں شرائط قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو فوراً گرفتار کیا جائے یا پھر جنگ کرکے ان کا سر کاٹ کر بھیج دو۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ایک سفاک شخص، شمرذی الجوشن کو نیا سالار بنا کر بھیج دیا۔
یومِ عاشور اورخطابِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ:
سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ خیمے کے دروازے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ ہلکی سی اونگھ آجاتی ہے۔ بیدار ہوتے ہیں، تو حسین چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح منور ہے۔ ہلکی سی مسکراہٹ نے فضا میں پھول بکھیر دیے ہیں۔ رفقا سے فرماتے ہیں کہ مجھے میرے نانا جان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں آئے تھے۔ فرمایا کہ حسین!اب ہم سے ملنے کی تیاری کرلو۔
راہِ حق کے متوالوں کی پوری رات عبادت میں گزری۔ صبح آپ نے یزیدی فوج کے سامنے ایک پرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی ۔
فرمایا:اے لوگو! تم جانتے ہو کہ میں رسول اللہ کا نواسہ، حیدرِ کرار کا نورِ نظر اور خاتونِ جنت کا لختِ جگر ہوں۔ تم واقف ہو کہ رسول اللہ نے ہم دونوں بھائیوں کو جنت کے نوجوانوں کا سردار بتایا ہے۔ تم سب نے مجھے خط لکھ کر بلایا، اب تم اپنے وعدوں سے پِھر چکے ہو۔ میں ابھی بھی چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے جنگ نہ کرو اور مجھے اپنے رفقا سمیت مکہ یا مدینہ واپس جانے دو۔ اس تقریر سے متاثر ہوکر حر بن یزید تمیمی نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ شمرذی الجوشن نے جب یہ منظر دیکھا، تو اسے فکر ہوئی کہ فوج میں بغاوت نہ ہو جائے، اس نے عمرو بن سعد سے کہا کہ اب دیر نہ کرو۔
عمرو نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی جانب پہلا تیر پھینک کر سانحہ کرب و بلا کا آغاز کیا۔ لشکرِ حسینی سے سب سے پہلے آپ کے ساتھیوں، بریر ہمدانی، عابس شاکری، نافع بن ہلال، حبیب بن مظاہر اور دیگر نے میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی۔ اب اقربا کی باری ہے۔ عون، محمد، جعفر و قاسم، علی و عبداللہ غرض ایک ایک کرکے سب آتے رہے اور جنت کو سدھارتے رہے۔
شہادتِ امام عالی مقام:
آخر میں لختِ جگر، علی اکبر ہاتھ میں تلوار پکڑے آگے بڑھے۔ والدِ محترم کو مسکراتی نگاہوں سے الوداعی سلام کیا اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ خیموں سے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جاکر فرمایا تمہارے رونے کی آوازوں سے یزید کے فوجی خوش ہوتے ہیں۔ سامنے ہی چھے ماہ کے علی اصغر لیٹے تھے، گود میں اٹھایا اور باہر آکر کہا دیکھو!یہ معصوم تین دن سے پیاسا ہے ابھی الفاظ بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ ایک تیر آیا اور شیرخوار شہزادے نے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ اب حضرتِ حسین رضی اللہ عنہ تنہا رہ گئے تھے۔
لشکرِ یزیدی نے چاروں جانب سے گھیر لیا تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے آسمان کی جانب دیکھا، شمشیرِ حیدری کو داہنے ہاتھ میں پکڑا اور نعرہ تکبیر بلند کرتے دشمنوں پر ٹوٹ پڑے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ ظلم ابنِ زیاد کا
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا

شمشیرِ حسینی خوف زدہ فوجیوں کے سر قلم کرتی میدانِ جنگ میں چاروں جانب چل رہی تھی کہ اچانک کہیں دور سے اذان کی آواز آئی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ہاتھ روک لیا اور بآوازِ بلند نماز پڑھنے کی مہلت مانگی اور یہی وہ لمحہ تھا کہ جب شمر کے جوش دلانے پر مالک کندی نے دوشِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہہ سوار پر ایسا کاری وار کیا کہ تلوار کلاہِ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسہ سر تک پہنچ گئی۔
خون کا فوارہ پھوٹ پڑا اور سارا بدن خون کے چھینٹوں سے لالہ احمر ہوگیا۔ آپ نے زخمی سر مبارک پر دوسرا عمامہ باندھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا، ہزاروں کے حصار میں اکیلے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسمِ اطہر پر زخموں کے نشانات بڑھتے جارہے تھے۔ زخموں کی شدت نے آپ کو نڈھال کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ شجاعت و بہادری کے اس کوہِ گراں کو شہید کرسکے۔
آخر شمر ملعون نے دھاڑ کر کہا آگے بڑھو اور شہید کردو۔ یہ سنتے ہی آپ پر تیروں کی بوچھاڑ ہوگئی۔ ایک تیر گردن پر پیوست ہوگیا، جسے آپ نے اپنے ہاتھوں سے کھینچ کر نکالا۔ زرعہ بن شریک تمیمی نے زخموں سے چور، فاطمہ کے لال پر وار کیا۔ بایاں بازو کٹ کر دور جاگرا، عین اسی حالت میں سنان بن انس نے نیزا مارا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مقام زمین پر گر گئے۔
خولی بن یزید سر قلم کرنے آگے بڑھا، لیکن ہاتھ کانپ گئے، پیچھے ہٹ گیا۔ سنگ دل اور شقی القلب، سنان بن انس نے سر مبارک کو جسمِ اطہر سے جدا کردیا۔ ابنِ زیاد کے حکم پر ان وحشی فوجیوں نے جسمِ اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا۔
مولانا محمد علی جوہر نے کہا:
ؔقتلِ حسین اصل میں مرگ ِیزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
علامہ ابنِ جوزی نے تذکر الخواص میں لکھا ہے کہ آپ کے جسمِ اطہر پر 33زخم نیزوں کے 43تلواروں کے تھے اور آپ کے پیرہن شریف پر 121سوراخ تیروں کے تھے۔ یہ تمام زخم ،جسمِ مبارک کے اگلے حصے میں تھے، پشت مبارک کی جانب کوئی زخم نہ تھا(جامع التواریخ)

مرِ دِ حق باطل سے ہر گز خوف کھا سکتا نہیں
سرکٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں

بالآخر نواسہ رسول ،جگر گوشہ بتول،ریحانہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدانِ کربلامیں جامِ شہادت نوش پا گئے(اناللہ وانا الیہ راجعون)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں