98

پیغام کربلا/تحریر/زاھدمحمود

زاھد محمود

یہ شھادت گہہ الفت میں قدم رکھنا
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

خانوادہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم، فرزندان علی و بتول سلام اللّٰہ علیہا اور شھداء کربلا کے ایک ایک فرد کو ھمارا عقیدت و محبت بھرا سلام پہنچے !!
تکمیل دین کا اعلان تو آقائے دو جہاں، محبوب خالق ارض و سماء، وجہہ کائنات، رحمت ہر عالم جناب محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی مبارک حیات طیبہ میں ہی ہو چکا۔ قرآن مقدس کی آیت “الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا” اس ابدی حقیقت پر شاہد و دال ہے۔
غلبہ دین کا وعدہ بھی اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مقدس میں فرما رکھا ہے۔ یہ کائنات تب تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس دنیا کے کونے کونے میں دین اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ھو جاتا۔ یہ بات بھلے کفار اور مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ سورۃ فتح کی آیت نمبر 28 اور سورۃ الصف کی آیت نمبر 9 اس معاملے میں نص قطعی ہیں۔ جن پر ہر مسلم مؤمن کا پورا پورا یقین ھے کہ اس کے بغیر دائرہ اسلام میں رہا ہی نہیں جا سکتا۔
ایسے میں یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو کسی نہ کسی درجہ میں غلبہ دین کی جدو جہد میں مصروف کار ہیں۔ غلبہ دین تبھی ممکن ھے جب اسلام کی صحیح صورت اپنی اصل حالت میں موجود ہو۔ اگر خدانخواستہ پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کے مبارک زمانے سے بعد کے نتیجے میں تعلیمات اسلام میں بگاڑ کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا ہوتی ہے تو داعیان اسلام پر اصلاح احوال فرض ہے۔ اب غلبہ دین کیلیئے یا اسلامی تعلیمات میں موجود بگاڑ کو ختم کرنے کیلیئے ایک طویل اور صبر آزما جہد مسلسل درکار ہے۔ میری نظر میں غلبہ دین کی جدوجہد کا پہلا باضابطہ معرکہ میدان بدر میں بپا ہوا جس میں ایک طرف اسلام تھا جس کی قیادت براہ راست پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس تھی تو دوسری طرف کھلم کھلا کفر تھا جس کی سربراہی دشمن اسلام ابوجہل کے ھاتھ میں تھی۔ معرکہ بدر میں کفر نے 313 نہتے اور بے سروسامان مسلمانوں سے شکست کھائی اور اسلام کامیاب و کامران ٹھہرا۔ کربلا دراصل اسلامی تعلیمات میں پیدا شدہ بگاڑ کو ختم کرنے کی ایک مبارک سعی تھی جو بالآخر ایک بہت بڑی قربانی پر منتج ہوئی۔ جن مبارک ھستیوں نے جنت کے نوجوانوں کا سردار بننا تھا انہوں نے اتنی بڑی اور عظیم قربانی پیش کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی اس قابل تھے کہ اس عظیم اعزاز کے مستحق ٹھہرتے۔ اس پس منظر میں جن نامبارک و نامسعود لوگوں نے ان مقدس و مطہر ھستیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے یقیناً انہوں نے اپنے لیئے دائمی و ابدی ناکامیوں کا انتظام کر چھوڑا ہے۔ ھمیں رب العالمین سے قوی امید ہے کہ وہ ذات بابرکات اس ظلم عظیم کی پاداش میں شریک تمام ظالموں کو پوری پوری سزا سے دوچار کرے گا۔
یہاں ایک بات بہرحال سمجھنی ضروری ہے کہ دور سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے لیکر دور سیدنا عثمان غنی تک نہ تو غلبہ دین کی جدوجہد میں کوئی کمی بیشی پیش آئی اور نہ ہی صحیح اسلامی تعلیمات میں کوئی بگاڑ پیدا ہوا۔ تبھی تو جناب سیدنا علی المرتضیٰ اور جناب سیدنا حسنین کریمین رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اس سارے عرصہ میں خلفاء راشدین علیہم الرضوان کے معین و مددگار کے طور پر موجود رہے۔ جو لوگ اس عرصہ کے دوران دین اسلام میں بگاڑ کی کوئی بھی خاکہ گری کرتے دکھائی دیتے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے نہ تو قابل اعتبار ہیں اور نہ ہی قابل التفات۔
اب رہتی دنیا تک غلبہ دین کیلیئے میدان بدر اور اسلامی تعلیمات میں سے بگاڑ کے خاتمہ کیلیئے میدان کربلا اھل اسلام کیلیئے مشعل راہ رہے گا۔ دوسرے معنوں میں ان دونوں عظیم واقعات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں طریقہ کار اھل اسلام کو صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کیلیئے مشعل راہ کا کام کرتے رہیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سارے پس منظر میں جو بھی غلبہ دین کی مبارک جدوجہد کا حصہ بنے وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کا مقصد صرف اور صرف غلبہ دین ہی ہو نہ کہ ذاتی یا گروہی فوائد یا کچھ اور۔ ایسی صورت میں دین اسلام جہاں بھی غلبہ پائے گا وہاں انسانیت کے درمیان ھمیشہ خیر ہی بانٹتا نظر آئے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ جدوجہد کے کسی بھی موڑ پر اسلام کی حقیقی تعلیمات کسی بھی صورت مسخ نہ ہونے پائیں۔ اور دین کے نام پہ بے دینی رواج نہ پکڑنے پائے بھلے اس کیلیئے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ ورنہ اگر خدانخواستہ دین کے نام پر بے دینی رواج پا گئی تو غلبہ دین کی ساری کی ساری جدوجہد عبث و بے کار چلی جائے گی۔
کربلا اور شھداء کربلا کا پیغام یہی ہے، کاش کہ کوئی سمجھے !!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں